أكتوبر ۲۰۲۳

 ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ مکہ مدینہ ضرور جائے اور اپنے فرض کی ادائیگی کرے۔ اللہ نے مجھے بھی یہ موقع عطا کیا تو میں نے بھی حج بیت اللہ کے لیے رخت سفر باندھا اور سب کو الوداع کہہ کر ائیر پورٹ  پہنچ گئی۔ چیک ان کروانے کے بعد امیگریشن چیک کےلیے ایسکلیٹر کے ذریعہ دوسری منزل پر جانا تھا، جس کے لیے طویل قطار تھی ۔ میں بھی قطار میں کھڑی ہو گئی۔ کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ قطار آگے نہیں بڑھ رہی ہے، بلکہ جہاں سے ایسکلیٹرشروع ہو رہا تھا، وہاں سےکچھ نوک جھونک کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں  نے دیکھا سفید چادر اوڑھے ایک پستہ قد گندمی رنگت والی خاتون ایسکلیٹر کے بالکل سامنے کھڑی تھیں ،لیکن اس پر قدم رکھنے سے گھبرارہی تھیں۔ وہ ایک قدم آگے بڑھاتیں اور پھر فوری اسے پیچھے کھینچ لیتیں ۔ان کے پیچھے ایک طویل قامت دبلے پتلے سبز رنگ کی شلوار قمیص میں ملبوس، ٹوپی پہنے باریش بزرگ تھے، جو غالباً ان کے شوہر تھے ۔ ’’کیا ہوا؟ چلتی کیوں نہیں ؟ دیکھ رہی ہو؟ تیری وجہ سے سب لوگ رکے ہوئے ہیں، سب کو دیر ہو رہی ہے ۔‘‘ ان کے لہجے میں خفگی کے آثار نمایاں تھے ۔
’’کیسا کروں ؟ مجھے ڈر ہورا ناں۔ میں گر گئی اور ہڈی ٹوٹ گئی تو کیسا ہونگا ؟ میں نئی جاتی اس سے، چلو اپن سیڑھیوں سے جائیں گے۔‘‘ کہتے ہوئے اس خاتون نے اپنے شوہر کاہاتھ پکڑا اور انھیں کھینچتےہوئے اپنے ساتھ سیڑھیوں کی جانب لے گئیں ۔ان کی اس حرکت پر قطار میں ٹھہرے ہوئے لوگ مسکرانے لگے۔
الحمدللہ ! ہم جدہ ایئر پورٹ پہنچ گئے تھے، وہاں سے ہمیں بس کے ذریعہ مکہ معظمہ جانا تھا ۔بس میں سوار ہوکر میں اپنی نشست پر بیٹھ گئی۔ کچھ پل بعد وہی پستہ قد خاتون ہانپتی کانپتی بس میں سوار ہوئیں۔ سر سے چادر ڈھلک گئی تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ نظریں سیٹ کی متلاشی تھیں۔ جیسے ہی ان کی نظر میری بغل والی خالی سیٹ پر پڑی وہ دھپ سے آکر سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ ان کی سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ اسی اثناء میں ان کے شوہر بس میں سوار ہوئے ۔جیسے ہی ان کی نظر اپنی بیوی پر پڑی ،کہنے لگے:
’’تو یہاں کیوں بیٹھ گئی ؟ میری گھر والی مجھے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بیٹھے، واہ رے واہ !اچھا حساب ہے تیرا، چل اٹھ وہاں سے !‘‘ان کی بات پر سارے مسافر ہنسنے لگے اور وہ بیچاری شرمندہ سی چپ چاپ میرے پاس سے اٹھ کر اپنے شوہر کے بغل والی سیٹ پر جاکر بیٹھ گئیں۔
ان کے اس طرز عمل سے مجھے تعجب ہوا ۔وہ کوئی نوجوان جوڑا نہ تھا۔ خاتون 65 سال کی تھیں تو ان کے شوہر  75 سال کے ،اس عمر میں بھی اتنا رعب ! پھر میں نے سوچا بات مرد ذات کی ہے ،عمر اس پر حاوی نہیں ہو سکتی ،حاکمیت اور انانیت تو مرد کی فطرت میں شامل رہتی ہے ،اور وہ اپنی فطرت سے مجبورہے۔
بہر کیف ،ہم مکہ کے ہوٹل کنوز العسیل  پہنچے۔ مینیجر نے مجھے کمرےکی چابی دیتے ہوئےکہا کہ آپ کے دو روم میٹ کچھ ہی دیر میں تشریف لائیں گے۔ میں اپنے کمرے میں پہنچ کر سستا رہی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔دروازہ کھولا تو وہی خاتون اور ان کے شوہر اپنے سازو سامان کے ساتھ میرے سامنے موجود تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر چونک سے گئے ۔میرے منہ سے نکلا:’’آپ…آ… جائیے!‘‘ میں نے انہیں راستہ دیتے ہوئے کہا۔
’اندر چل! کیا سوچ ری ؟‘‘ ان کے شوہر نے پیچھے سے آواز لگائی۔
’’وہ… بس والے باجی… ہے… جی …‘‘کہتے ہوئے وہ اندر آگئیں ۔
ان کی زبان سے اپنے لیےباجی سن کر مجھے بڑا اچنبھا ہواکہ یہ عمر میں مجھ سے کئی گنا بڑی ہیں اور مجھے’’باجی‘‘ کہہ رہی ہیں۔دوسرے دن میں نے انھیں ہر خاتون کو’’باجی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے سنا تو جانا کہ یہ ان کا مخصوص طرز تخاطب ہے جو وہ جوان ،بوڑھی ہر عمر کی عورت کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ کسی کانام پوچھنے اور پھر اسے یاد رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ جس کو بھی بلانا ہو ’’باجی‘‘ کہہ دیا، بات ختم۔
یہ تھیں تلنگانہ کی بیٹی اور آکولہ( مہاراشٹر) کی بہو  نجمہ آپا، جن کو ان کے شوہر نامدار (ظہور صاحب )  پیار سے’’نجّو‘‘ کہہ کر بلاتے  تھے۔بھولی بھالی نجو، جنھوں نے صرف جماعت پنجم تک تعلیم حاصل کی تھی، اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کا بیٹا بلدیہ کا گتہ دار تھا اور اس نے ہی اپنے والدین کو حج پر روانہ کیا تھا۔نجمہ آپا کا چہرہ گول تھا ۔چہرے کی جھریاں اور پختگی گواہی دے رہی تھی کہ انھوں نے زندگی کے اس طویل سفر میں بہت کچھ جھیلا اور برداشت کیا ہے۔ چمک دار چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور بھرابھرابدن ،پتلے بالوں کی چھوٹی سی چوٹی جس کے سرے پر گلابی رنگ کےربن کا بڑاسا پھندنا لٹکتا رہتا ،جسے دیکھ کر میں سوچنے لگتی کہ میں نے دسویں جماعت میں آخری مرتبہ چوٹیوں کے لیےربن کا استعمال کیا تھا، وہ بھی ٹیچر کی سزا کے خوف سے ،لیکن نجمہ آپا کو کس کا خوف تھا جو وہ اب تک چوٹی کو ربن باندھے رکھتی ہیں ؟
سوچا پوچھ لوں، لیکن ذاتیات میں دخل اندازی کرنا مناسب نہیںتھا ،سو خاموش رہ گئی۔ وہ اکثر گہرے رنگ جیسے سبز، گلابی، سفید اور نیلے رنگ کی ایمبرائڈری والی شلوار قمیص پہناکرتیں، جس کے دائیں جانب اتنی بڑی جیب لگی ہوتی کہ اس پر زنبیل کا گمان ہوتا، جس میں بہت کچھ سما سکتا تھا، اور سمایا رہتا بھی ،جیسے: پانی کی بوتل، بسکٹ کا پیکٹ، رومال، تسبیح  وغیرہ وغیرہ ۔ چونکہ وہ پرس یاہینڈبیگ استعمال نہیں کرتی تھیں ،تو جیب اس کی بھر پائی کر دیتی تھی۔
نجمہ آپا  کے شوہر درازقد ، سرخ وسپید رنگت اور چھریرے بدن کے مالک تھے، مزاج میں شگفتگی تھی ۔کہنے لگے :’’ہمارے خاندان کے سارے بزرگ مر کھپ گئے، بس اب ہم دونوں رہ گئے ہیں ایک دوسرے کا خون چوسنے کے لیے۔‘‘ اسی دوران نجمہ آپا کے کسی رشتہ دار کا فون آیا۔بات ختم ہوئی تو ان کے شوہر نے پوچھا کہ کس کا فون تھا ؟ کہنے لگیں :’’حسین شاہ ولی کا فون تھا، اپنے بیوی بچوں کے واسطے دعا کرنے کو بول را تھا۔‘‘
’’ تو کیا بولی؟ ان کے شوہر نے آنکھیں پھیلا کر ڈرانے والے انداز میں پوچھا، اور ان  کے جواب دینے سے پہلے خود ہی کہنے لگے کہ ہم دنیا کی تکلیفاں اٹھا کے، لاکھوں کا روپیہ خرچ کرکے، حج کے لیے آئے، اور دوسروں  کے لیے پھوکٹ میں دعا کرنا ؟ نئی ہوتا بول دینا تھا ناں۔
’’دیکھو جی باجی ! انوں کیسا بولتے ہیں؟ دعا تو کرنائچ پڑینگا ناں، آج اپن  دوسروں کے واسطے کریں گے تو کل اپن کے واسطے بھی کوئی کرینگا ،ہے کیا نیں؟‘‘وہ شوہر کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ نہیں پائی تھیں۔
نجمہ آپا اور ظہور صاحب کی زبان اور لہجے پر علاقے کا بہت گہرا اثر تھا ۔وہ جب بھی بات کرتے ان کے لب و لہجہ میں تلنگانہ اور مہاراشٹر کے زبان کی آمیزش ہوتی، جو مجھے ہنسنے پر مجبورکرتی۔ نجمہ آپا ہاں یا اچھا  کے بجائے’’آئی‘‘ کا استعمال کرتیں اور  ہر بات کے جواب میں اکثر ’’آئی‘‘کی ی کو طول دے کر کہتی تھیں۔ ہوٹل کے جس کمرے میں ہم لوگوں کا قیام تھا، وہ اس کو’’گھر‘‘ کہتی تھیں ۔قیام کے دوسرے ہی دن فجر کےلیے جاگی تو دیکھا کہ نجمہ آپا ایک پرانے کاٹن کے کپڑے سے کمرے میں جھاڑو لگا رہی ہیں۔ میں نے کہا:’’آپا یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟ میں روم سروس والے بوائے کو بلاتی ہوں ،وہ صفائی کر دے گا۔‘‘
کہنے لگیں :’’میں جاکر آئی، سب سوتے پڑے ہیں ،باسی گھر میں نماز نئی  پڑتے۔‘‘
کمرے کی صفائی کے لیے انھیں نہ جھاڑو درکار تھی نہ ہی پوچھے کا مخصوص ڈنڈا جس کے سرے پر کپڑا لگا ہوتا ہے ۔موجودہ وسائل سے کس طرح کام نکالا جا سکتا ہے اس ہنر سے وہ اچھی طرح واقف تھیں ۔ہوٹل کے واش روم میں نہ بالٹی تھی نہ ہی مگ۔ نجمہ آپا کو مگ کی ضرورت آن پڑی تو انھوں نے جھٹ  پانی کی ایک خالی بوتل لی اور آسے ادھا کاٹ کر مگ بنا دیا۔ ہوٹل میں لانڈری کا بھی انتظام تھا، لیکن انھوں نے اپنے کپڑے کبھی بھی لانڈری میں نہیں ڈالے، ہمیشہ خود ہی ہاتھ سے کپڑے دھوتیں اور ہوٹل کی آٹھویں منزل پر جاکر کپڑے سکھاتیں۔اس کی دو وجوہات تھیں، ایک تو وہ اپنے ساتھ صرف تین جوڑے کپڑے لائی تھیں، دوسرے وہ کپڑوں کو دھوپ میں سکھانے کی قائل  تھیں، جو کہ فائدہ مند بھی ہے، لیکن دور جدید میں تو خواتین آٹومیٹک واشنگ مشین  خریدنے کو ترجیح دیتی ہیں ،تاکہ کپڑے سکھانے کی محنت سے بھی چھٹکارا ملے۔
جس دن ہم لوگ عمرہ کرکے حرم سے لوٹ آئے تھے ، اس دن میں بیٹھی تلاوت کر رہی تھی کہ ظہور صاحب باہر سے’’نجو!نجو !‘‘ کی آواز لگاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے ۔
’’کیا ہوا؟ ایسا کیکو چلاّ رے ؟‘‘نجمہ آپا نے اپنے سر کا پلو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا ۔
’’ جلدی آ! تیری چوٹی کاٹنا ہے۔‘‘ انھوں نے اپنے ہاتھ میں موجود قینچی کو بتاتے ہوئے نجمہ آپا سے کہا۔
’’کیسے باتاں کرتے جی؟ میں ایسا کیا کری جو تم میری چوٹی کاٹتے بول ریں؟‘‘
  ’’نجو !تیرے کو نئی مالوم تو کتّا بڑا کام کری سو؟‘‘ ظہور صاحب نے انہیں جواب دیا۔
’’بڑا کام کرے تو انعام دینا ،چوٹی کیکو کاٹتے؟‘‘ انھوں نے اپنی چوٹی کو دوپٹہ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے نجو! تو عمرہ کری نا ؟‘‘
’’ہو ،تمارے ساتھ ہی تو کی میں نے۔‘‘ انھوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
’’تو پھر’’حلق‘‘ کرنا پڑتا۔ اب حلق بولے تو تیرے کو سمجتا نئی، نہ ہی یہ بات تیرے حلق سے نیچے اترتی اس واسطے میں’’چوٹی کاٹنا‘‘ بولا۔ اب تو بی سمجھ میں آئی نا بات ؟ ‘‘ظہور صاحب نے انھیں سمجھایا ،تب انھوں نے اپنی چوٹی ان کے حوالے کی بال کاٹنے کے لیے۔
ایک دن صبح ناشتہ کے بعد نجمہ آپا کے شوہر نظر نہیں آئے تو میں نے نجمہ آپا سے پوچھا :’’ ظہور بھائی دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔‘‘
کہنے لگیں:’’ وہ ’’ریحال‘‘ لانے گئے ہیں۔
’’کسی نے منگوایا ہے کیا ؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’نئی ناں، ہم جلدی میں انڈیا کے پیسے ہی لا لیے، وہ تو یاں چلتے نئیں، یاں تو  ’’ریحال‘‘ ہی چلتے ناں، تو ویچ  بدلی کرکے لانے گئی۔‘‘ تب میں نے جانا کہ وہ ریال کو ریحال کہہ رہی تھیں۔ میں بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روک پائی ۔ ظہور بھائی جو گئے تو دوپہر ہوگئی، واپس نہیں آئے۔ نجمہ آپا پریشان ہونے لگیں ،کہنے لگیں: ’’اتنی دیر ہو گئی۔ آدمی ابھی تک آیا نہیں۔ نیا ملک، نئے راستے، نئے لوگ اور زبان بھی تو نہیں آتی ،کیا مالوم کاں کاں بھٹک را ہونگا۔‘‘ وہ ہاتھ ملنے لگیں اور چہرہ پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔
میں نے کہا:’’فون نمبر بتا دیں، میں کال کروں گی۔‘‘
کہنے لگیں :’’مجھے نئی مالوم۔‘‘
’’ارے آپ کے شوہر کا رابطہ نمبر آپ کو نہیں معلوم ؟ آپ کے پاس کہیں لکھا تو ہوگا ؟ ‘‘میں حیران تھی۔
’’نئی وہ بی نئی ہے۔‘‘ ان کا لہجہ سپاٹ تھا۔ پھر میں نے ٹریول ایجنٹ کو فون کیا تو انہوں نے ظہور صاحب کو فون لگایا ت،مگر فون کنیکٹ ہی نہیں ہو رہا تھا، شاید بیلنس ختم ہو گیا تھا یا کیا وجہ تھی؟ پتہ نہیں ۔ایجنٹ نے  نجمہ آپا کو دلاسہ دیا کہ پریشان نہ ہوں ان کے پاس ہوٹل کا کارڈ ہے ناں، پتہ بتا کر پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’ارے صرف ریحالاں لانے اِتّی دیر ہوتی کیا بولو باجی ؟‘‘
’’میں کیا کروں ؟ میں ان کو نئی جانے دینا تھا۔ اگر میں روک لیتی تو اچھا تھا۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگیں۔
’’آپ کے روکنے سے وہ رک جاتے؟‘‘ میں نےپوچھا ۔
’’نئی ناں ! آدمی، عورت کی سنے تب نا، واں ہمارے گاؤں میں بھی انوں ایسئچ  کرتے باجی، ان کو فقط پھرنا ہونا ان سے ایک جگہ بیٹھا نئی جاتا۔‘‘ وہ اپنی اوڑھنی کے پلو سے آنکھ اور ناک دونوں صاف کر رہی تھیں۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا تھا۔ ہوٹل میں کھانے کے اوقات مختص ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو کھانا نہیں ملتا۔
میں نے کہا :’’نجمہ آپا! چلیے کھانا کھا لیتے ہیں۔‘‘
کہنے لگیں :’’ نئی نئی ! میرے آدمی کا پتہ نئی چل را میں کھانا کھاؤں ؟ جب تک میرا آدمی گھر کو واپس نئی آجاتا ،میرے حلق سے نوالہ اترا تو حرام۔‘‘وہ جھلا کر بولیں۔
’’آپ چلیے تو وہاں اور لوگ بھی ہوں گے ان سے معلوم کرتے ہیں۔‘‘ میں انھیں دلاسہ دیتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام کر ڈائننگ ہال تک لے آئی۔ جاتے وقت لفٹ میں سوار ہونے والے ہر شخص سے وہ اپنے شوہر کے بارے میں پوچھتی رہیں، لیکن کچھ پتہ نہیں چلا ۔ڈائننگ ہال میں کچھ ہی دیر میں بات پھیل گئی کہ ظہور صاحب صبح سے لا پتہ ہیں۔ چند شوخ مزاج نوجوان لڑکے بھی تھے۔ انھیں مذاق کا موضوع ہاتھ لگ گیا۔ کہنے لگے :’’ارے خالہ ، اِتّا کیکو پریشان ہوریں تم ؟  یاں ہماری دوسری خالہ تو نئی ہے نا ؟ ‘‘
’’دیکھو جی باجی کیسا بول ریں یہ لوگاں ؟ ‘‘وہ فوراً مجھے سےشکایت کرنے لگتیں ۔
کسی نے کہا :’’خالو ہے بہت چالو،انوں کب گُمنا ؟ تھوڑی دیر میں اگر انوں نئی آئے نا میرا نام بدل دینا۔‘‘
’’تمارے منہ میں گھی شکر انوں خیر خوبی سے آگئے تو میں 11 معصوم بچوں کو کھانا کھلاؤں گی۔‘‘
ایک نوجوان بولا :’’میں معصوم ہوں ،دیکھو اچھا یاد رکھ لو۔‘‘ آنسو ان کی آنکھوں سے مسلسل بہہ رہے تھے ۔آخر کار وہ ہوٹل کے باہر ہی جاکرٹھہر گئیں۔ ان کی بے چینی شوہر سے ان کی بے پناہ محبت کی غماز تھی۔ خدا خدا کرکے 5 بجے ان کے شوہر واپس آگئے اور بیوی سے کہنے لگے:’’تو کیکو آتا پریشان ہوتی نجو؟ ہوٹل کا ایڈریس نئی مل را تھا، رستہ بھٹک گیا  تھا ،اس لیے دیر ہوگئی۔‘‘ ان کی واپسی پر سب نے سکون کا سانس لیا، کیونکہ شوہر کے لاپتہ ہونے سے نجمہ آپا خود تو پریشان تھیں ہی، ساتھ ہی ساتھ تمام عازمین کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔
حج کے بعد جب مکہ معظمہ سے مدینہ شریف جانے کا وقت آیا تو نجمہ آپا بڑی شفقت سے مجھ سے کہنے لگیں :’’باجی مدینے میں بھی اپن ساتھ رہیں گے نا؟‘‘ 
میں نے کہا :’’ان شاء اللہ‘‘ لیکن مدینہ شریف میں مجھے دوسرے روم میٹ کے ساتھ کمرہ دیا گیا، جس کا نجمہ آپا کو بہت افسوس رہا۔ وہ بار بار میرے کمرے میں آ جاتیں اور کہتیں :’’باجی ! تم بہت اچھے ہے، مجھے تماری عادت ہوگئی، دوسروں کے ساتھ میرا دل نئی لگ را، یہ ہوٹل والا ہمارے ساتھ ایسی دشمنی کیکو کرا ہونگا ؟ ایک گھر دیتا تو اس کا کیا جاتا تھا ؟‘‘ 
میں نے کہا:’’ نجمہ آپا اتنی محبت بھی نہ کرو آخر کو ہم سب نے ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے وطن واپس جانا ہی ہے۔‘‘ 
’’مگر ہم تمارے کو برابر یاد رکھیں گے اور فون کرتے رہیں گے۔‘‘وہ بڑے وثوق سے کہتیں اور انھوں نے مجھ سے میرا رابطہ نمبر بھی لے لیا تھا ،اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ نجمہ آپا کا فون اکثر آتا ہے اور ان کی چاشنی سے لبریز باتوں سے میں خوب حظ اٹھاتی ہوں۔ اللہ انھیں اور ان کے شوہر کو سدا سلامت رکھے،آمین یا رب العالمین !

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. مرزا محمد نواب

    محبت کی بات ہے۔ بھائی چارہ ایسے ہی پروان چڑھتا ہے اور حقیقی رشتوں سے بھی آگے چلا جاتا ہے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے