أكتوبر ۲۰۲۳

سوال:
ہم دو بھائی بہن تھے۔میرے بھائی مجھ سے بڑے تھے۔والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی پراپرٹی تقسیم ہوئی تو ہم دونوں کے درمیان وراثت تقسیم ہوئی۔ مجھے بھی حصہ ملا۔اب بھائی کا بھی انتقال ہوگیاہے۔ان کی بیوہ ہیں اور دولڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ۔ براہ کرم واضح فرمائیں ،کیا ان کی موجودگی میں بھائی کے مال ِ وراثت میں بہن کا کچھ حصہ ہے؟

جواب:
اسلامی شریعت میں مال ِ وراثت میں عورتوں کا بھی حصہ لگایاگیاہے۔اس سلسلے میں قرآن مجید کا صریح حکم ہے:

 لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءنَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً (النساء : 7)

(مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتےداروں نے چھوڑاہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتےداروں نے چھوڑاہو،خواہ تھوڑا ہو یابہت اور یہ حصہ(اللہ کی طرف سے)مقرر ہے۔(
اس آیت میں لفظ ’الأقربون‘ معنیٰ خیز ہے۔اس سے اشارہ ملتاہے کہ رشتے داروں میں بھی ایک ترتیب قائم کی جائے گی۔قریب ترین رشتےدار مال ِ وراثت کے مستحق ہوں گے۔ان کی موجودگی میں دوٗرکے رشتے داروں کو نہیں ملے گا۔ہاں،اگر قریبی رشتے دار موجود نہ ہوں تودوٗر کے رشتے دار مال ِ وراثت میں حصہ پائیں گے۔
مستحقین ِوراثت کے تین درجات بنائے گئے ہیں۔
اول:
اصحاب الفرائض،یعنی وہ لوگ جن کے حصے قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں۔
دوم:عصبہ،یعنی نسب کے اعتبار سے وہ قریبی رشتے دارجن کے حصے مقرر نہیں۔اصحاب الفرائض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے گاوہ پائیں گے۔
سوم:ذوی الارحام، یعنی ماں کی طرف سے قریبی رشتے دار۔اصحاب الفرائض اور عصبہ میں سے کوئی نہ ہو تویہ وراثت کے مستحق ہوں گے۔
ورثہ میں سے چھ افراد ہرحال میں وراثت پاتے ہیں :
زوجین (شوہر، بیوی )،والدین(ماں باپ)اور اولاد(بیٹا،بیٹی)۔ان میں سے صرف بیٹا عصبہ میں سے ہے ،باقی اصحاب الفرائض ہیں۔
بہن کو بھائی کے مال ِ وراثت میں حصہ ملنے یا نہ ملنے کی متعدد صورتیں ہیں:
(1)اگرمیّت کا بیٹا(پوتا)یاباپ(دادا)موجود ہوتو اس کی بہن کو کچھ نہیں ملے گا اور بھائی کو بھی۔
(2)اگرمیّت کا بیٹایا باپ موجود نہ ہو اور بھائی بہن ہوں تووہ عصبہ ہوجائیں گے اور ان کے درمیان2:1کے تناسب سے وراثت تقسیم ہوگی،یعنی بہن کو بھائی کے مقابلے میں نصف(1/2)ملے گا۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ (النساء : 176)

(مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔)
(3)اگر میّت کی بیٹی یا پوتی ہوتو سگی بہن ؍بہنیں اس کے ساتھ عصبہ ہوجائیں گی اور بچاہواحصہ پائیں گی۔
(4)اگرمیّت کی صرف ایک بہن ہوتو وہ نصف(50%)مال ِ وراثت کی مالک ہوگی۔اگر دویادو سے زیادہ بہنیں ہوتو وہ دوتہائی(66.7%)کی مستحق ہوں گی۔ (النساء : 176)
صورتِ مسئولہ میں میّت کے ورثہ میں اس کی بیوہ ، دولڑکے اور دولڑکیاں ہیں۔اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کا حصہ1/8(12.5%)ہے۔باقی کے چھ حصے کیے جائیں گے:
ایک ایک حصہ ہرلڑکی کا اور دو دو حصے ہرلڑکے کے ہوں گے ۔ دوسرے الفاظ میں ہر لڑکی کو 14.6%اور ہر لڑکے کو 29.2%ملے گا۔اس صورت میں بہن کو کچھ نہیں ملے گا ۔ (النساء : 11)

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Zafar iqbal

    Bahtreen jawab

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے