أكتوبر ۲۰۲۳

آنکھوں کی روشنی سے محروم معلمہ الفیہ سماج میں تعلیم کی روشنی بکھیر رہی ہیں۔
کہتے ہیں کہ اگر انسان کا حوصلہ بلند ہو تو ایک دن اسے منزل مل ہی جاتی ہے۔ چنانچہ کولکاتہ کی ’’الفیہ تُندالا‘‘ نے بھی اپنی تمام تر پریشانیوں کے باوجود اپنے حوصلوں کو پست ہونے نہیں دیا ،اور ان بلند حوصلوں کے باعث ہی انھوں نے اپنے سنہرے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کیا۔ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ الفیہ گورنمنٹ کالج میں لیکچرار ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر الفیہ میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کا ذکر اخبارات کی زینت بن رہا ہے۔ آج ہمارے سماج میں ہزاروں لوگ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، ہر ایک کی کہانی الگ ہے، لیکن الفیہ کی کہانی ان سب سے ذرا لگ ہے۔
وہ کولکاتا کے گورنمنٹ ساوتری گرلز کالج میں پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پڑھا رہی ہیں۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بینائی سے محروم ہیں، لیکن اس کے باوجود علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ہمارے سماج میں استاد کا درجہ نہایت ہی بلند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں باپ بچے کو زندگی دیتے ہیں تو استاد اس کی زندگی کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جو بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے، ان کو جینے کا سلیقہ اور زندگی میں کچھ کر گزرنے کا ہنر بھی سکھاتا ہے۔ ہمارے سماج میں ہزاروں اساتذہ ہیں جنھوں نے اپنے شاگردوں کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامیابی کی داستانوں میں لوگ اپنے اساتذہ کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ پرائمری سے لے کر کالج تک کے سفر میں کئی ایسے اساتذہ ہوتے ہیں جو اپنے طالب علموں کی ہر طرح سے رہنمائی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کے پیشے کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اور اساتذہ کا دل سے احترام کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں 5 ستمبر کو ٹیچرز ڈے منایا جاتا ہے۔ یہ دن آں جہانی صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر رادھا کرشنن کا یوم پیدائش ہے، جو تعلیم وتدریس کے حامی اور معلم تھے۔ اسی لیے ٹیچرز ڈے کے موقع پر ہر کوئی اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ملک میں ایسے بے شمار اساتذہ ہیں جنھوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے، ان ہی میں سےایک کولکاتا کی رہنے والی الفیہ تندالا ہیں۔
وہ پیدائشی طور پر Retinitis pigmentosa نامی بیماری کا شکار ہیں۔ گھر والوں کو ان کے اس بیماری کی بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب انھیں دیکھنے میں پریشانی ہوئی۔ الفیہ کہتی ہیں کہ وہ دیکھ تو سکتی تھیں لیکن صرف سورج کی روشنی میں۔ جیسے جیسے اندھیرا چھانے لگتا ان کی بینائی بھی ماند پڑنے لگتی۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں دھیرے دھیرے انسان اپنی بینائی مکمل طور پر کھو دیتا ہے۔ جب ان کے گھر والوں کو اس بیماری کے بارے میں معلوم ہوا، ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ الفیہ کے والد نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے ان کو مشورہ دیا کہ اگر آپ اپنی بیٹی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسے تعلیم یافتہ بنا دیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے رات دن ایک کر دیا۔
شہر کے مشہور اسکول میں الفیہ کا داخلہ کروایا۔ الفیہ کہتی ہیں کہ انھیں کلاس میں ایسی جگہ بٹھایا جاتا تھا جہاں سورج کی روشنی آتی تھی، تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنی پڑھائی کرسکیں ،لیکن آٹھویں جماعت کے بعد ان کی بینائی پوری طرح ختم ہو گئی۔ ایسے میں الفیہ کے لیے تعلیمی سفر جاری رکھنا آسان نہیں تھا ،لیکن والدین نے ہمت نہیں ہاری۔ الفیہ کے مطابق انھیںکالج میں داخلہ کے لیے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اسکول والے تو اس کی بیماری سے واقف تھے ،لیکن کالج میں اس طرح کی طالبات کا داخلہ لینا آسان نہیں تھا، تام مدھیامک کے بہتر نتیجے کو دیکھتے ہوئے شہر کے مشہور کالج میں الفیہ کا داخلہ ہو ہی گیا۔
الفیہ کو اپنی تعلیم کے دوران ایک مددگار کی ضرورت پڑی، جس کے تعاون کے ساتھ الفیہ نے اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھا۔ الفیہ کی آنکھوں کی روشنی پور طرح ختم ہو چکی تھی، اس لیے انھوں نے بیرل سسٹم اور کمپیوٹر میں آواز سن کر اپنی تعلیم کے آگے کے سفر کو جاری رکھا۔ الفیہ نے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی، ساتھ ساتھ انھوں نے The Muslim search for identity contemporary in west Bengal کے عنوان سے اپنا تھیسیس بھی مکمل کیا۔ اس کے بعد وہ مقابلہ جاتی امتحان میں شامل ہوئیں اور انھوں نےاس میں بھی کامیابی حاصل کی، لیکن انھیں نارمل کالج میں نوکری حاصل کرنے کے لیے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو یہ کہہ کر کہ وہ نارمل طلبہ کو پڑھا نہیں سکتیں، نوکری دینے سے انکار کیا جاتا رہا۔ بالآخر الفیہ نے ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد نوکری حاصل کر لی، اور آج وہ شہر کے گورنمنٹ ساوتری گرلز کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
الفیہ اپنی کالج کی مشہور ٹیچر ہیں اور اپنی طالبات کے درمیان کافی مقبول ہیں۔ الفیہ کے مطابق ان کے کالج میں آنے والی زیادہ تر طالبات متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں کئی طالبات ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے تعلیم کا سفر جاری رکھنا آسان نہیں ہوتا، الفیہ ان سے اور ان کے گھر والوں سے بات چیت کرتی ہیں، انھیں تعلیم کی اہمیت سے واقف کرواتی ہیں اور تعلیم جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ الفیہ کہتی ہیں کہ انھیں شروع سے ہی ٹیچر بننے کا شوق تھا، ٹیچر بن کر وہ سماج کی خدمت کرنا چاہتی تھیں ،ساتھ ہی لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی کام کرنا چاہتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر الفیہ اپنی طالبات کے گھر بھی پہنچ جاتی ہیں اور ان کی رہنمائی کرتی ہیں۔ الفیہ کے مطابق ٹیچر اپنے عمل اور طور طریقوں سے طلبہ کو متاثر کرتا ہے۔ ٹیچرز کو چاہیے کہ وہ خود کو ایک بہترین مثال کے طور پر اپنے شاگردوں کے سامنے پیش کریں۔
الفیہ نے کہا کہ آج کے سیاسی حالات میں ٹیچرزکو اپنی ذمہ داری نبھانی ہو گی، انھیں طالبات میں سیاسی شعور پیدا کرنا ہو گا اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانا ہو گا، کیونکہ سماج کو اساتذہ سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک کے موجودہ فرقہ وارانہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی اساتذہ کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ٹیچرز اگر صحیح طور سے ذمہ داری نبھائیں تو موجودہ حالات میں سدھار کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے بچوں میں موبائل فون کے بڑھتے ہوئے رجحان کو افسوسناک بتاتے ہوئے ٹیچروں پر زور دیا کہ وہ بچوں کو موبائل سے ہٹا کر مطالعے کی طرف متوجہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ ایک بچہ اپنی زندگی میں جو کچھ بھی اچھا یا برا کر رہا ہوتا ہے، اس کے اس عمل میں اساتذہ کی پرچھائیں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے معاشرے کو مضبوط بنانے کے لیے اساتذہ کو مجاہدین آزادی کی طرح کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

٭ ٭ ٭


وہ پیدائشی طور پر Retinitis pigmentosa نامی بیماری کا شکار ہیں۔ گھر والوں کو ان کے اس بیماری کی بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب انھیں دیکھنے میں پریشانی ہوئی۔ الفیہ کہتی ہیں کہ وہ دیکھ تو سکتی تھیں لیکن صرف سورج کی روشنی میں۔ جیسے جیسے اندھیرا چھانے لگتا ان کی بینائی بھی ماند پڑنے لگتی۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں دھیرے دھیرے انسان اپنی بینائی مکمل طور پر کھو دیتا ہے۔ جب ان کے گھر والوں کو اس بیماری کے بارے میں معلوم ہوا، ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ الفیہ کے والد نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے ان کو مشورہ دیا کہ اگر آپ اپنی بیٹی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسے تعلیم یافتہ بنا دیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے رات دن ایک کر دیا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے