أكتوبر ۲۰۲۳

نسلِ انسانی پر انفرادی و اجتماعی سطح پر ظلم و ستم، جذباتی استحصال ، جان و مال پر راست حملہ، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور ان پر زمین کا تنگ کردینا تشدد کی مختلف قسمیں ہیں۔تشّدد کرنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ جب انسانوں کے درمیان موجود انفرادیت و اختلاف کو قبول کرنے میں تردّد پیدا ہوتا ہے تب رنگ و نسل، مذہب، جنس، طبقاتی کشمکش، سیاسی و معاشی رتبے اور افکار و خیالات کے اختلاف کو بنیاد بنا کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تشّدد کی نفسیات کہتی ہے کہ باہمی رواداری جب عنقاء ہوجاتی ہے تب انسانی افکار اور غیر منصفانہ فعل کی تعمیل انسان کی تکریم اور اس کی جان پر مقدّم مانی جاتی ہے،انسانی وجود اس کے سامنے ہیچ ہوجاتا ہے،اور پھر لوگ جذباتی و جسمانی ایذاءرسانی سے دریغ نہیں کرتے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

یاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْاقَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہ

( اے لوگو جو ایمان لائے ہو،خدا واسطے انصاف کے علم بردار اور اس کے گواہ بنو۔)(سورۃ النساء : 135)
تشدد کا عمل انسانی فطرت پر ناگوار گزرتا ہے۔ انسان دوست اور حساس وجود کبھی بھی تشدد کا حامی نہیں ہوتا۔ اسلام دینِ فطرت ہے ،اسی لیے ظلم اور ناانصافی کی شدید مذمت کرتا ہے اور زمین پر عدل کے قیام کی ترویج کرتا ہے۔ اسی مصلح فطرت کے زیر اثر عالمی سطح پر کئی شخصیات نے’’ عدم تشدد‘‘ کے فلسفے کو سیاسی تناظر میں پیش کیا ہے۔ ہندوستان میں مہاتما گاندھی، خان عبدالغفار خان ، افریقہ میں کنگ مارٹن لوتھر، امریکہ کے جیمس بیولیس نے سماجی و سیاسی بدلاؤ اور آزادی کے حصول کے لیے عدِم تشدد کی راہ اپنائی۔
کنگ مارٹن لوتھر نے عدم تشدد کے چھ مختلف اصول پیش کیے ۔ جس میں تشدد اور انسانی جان و مال کے زیاں کے راستوں کو ترک کرنے کا پیغام دیا،لیکن یہ عدم تشدد کے فلسفے میں احتجاج و انتقام کے راستوں کو بھی ترک کرتے ہیں۔ اپنے چوتھے اصول میں انھوں نے لکھا ہے:
’’عدم تشدد اور مصائب علم و شعور کے ساتھ ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ عدم تشدد بغیرکسی انتقام کے خاموش برداشت کا نام ہے۔
(suffering without retaliation)
انتقام کے بغیر تکلیف ،غیر حاصل شدہ مصائب کا ازالہ ہے اور اس میں زبردست تعلیم اور تبدیلی کے امکانات ہیں۔‘‘
ساتھ ہی مہاتما گاندھی نے’’اہنسا‘‘کے اصول باور کروائے ۔ انتقام کے بجائے ظلم و زیادتی کا جواب تشدد سے دینے سے روکا، مگر وہ آگے چل کر کہتے ہیں:
’’ ہندوستان کی آزادی تشدد سے نہیں، بلکہ انتقامی کارروائی کے بغیر خالص مصائب سہنے سے حاصل ہوگی۔‘‘
عدم تشدد کا رویہ سماج میں امن و امان کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ روادارانہ جذبات، عزت و احترام کو پروان چڑھاتا ہے، لیکن جب ظالم اور طاغوت ظلم و جبر کی انتہاء کردیں تب خاموش تماشائی بنے رہنا یا چپ چاپ برداشت کرنا کیا قابلِ قبول عمل ہے؟اس کے جواب میں قرآن مجید کا پیغام ہے:

 وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْن

(اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔)
(سورۃ الشوریٰ : 39)
مولانا مودودیؒ نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی نرم خوئی اور عفو و درگزر کی عادت کم زوری کی بنا پر نہیں ہوتی ۔انہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بن کر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کردیں، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزر کریں، اور جب کسی زیر دست یا کم زور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو اس سے چشم پوشی کر جائیں، لیکن کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اور اس کے دانت کھٹے کردیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔ہمارے دین کا مطالبہ ہے کہ انسانوں کے درمیان انصاف قائم ہو۔ اور ہر قسم کی شر انگیزی اور ظلم کا دروازہ بند ہوجائے اور اس کا نتیجہ اتنا عبرت ناک ہو کہ انسان ظلم‌وزیادتی کا تصور بھی نہ کرے۔‘‘
آج جب کہ ہندوستان کا منظر نامہ تشدد اور ظلم و ستم کی تصویر کشی کررہا ہے، اس دورِ فتن میں ہمارا طریق کیا ہونا چاہیے؟ یہ سوال ہر حساس و ذمہ دار شخص کا سوال ہے۔ حکومتِ وقت عدم تشدد کی پالیسی سے درکنار، فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور مذہبی تصادم‌کو ہوا دے رہی ہے۔ ایسے ماحول میں تشدد کا جواب تشدد ہو یا یہ ہو کہ مسٔلۂ عذاب و تقدیر کے پیچھے راہِ فرار اختیار کرکے عدم تشدد کی وہ پالیسی اپنائی جائے ،جس میں محض خاموشی سے ظلم و ستم پر صبر کی تلقین ہے۔

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

ہمارا طریق یہ ہو کہ ظلم کی کسی بھی سطح پر حمایت نہ کی جائے ،گھر کی چار دیواری میں خواتین پر ظلم ہو یا ان کے حقوق کی پامالی یا سماج میں اقلیت اور پچھڑے ہوئے طبقے کے ساتھ زیادتی ہو، کسی بھی شکل میں کسی بھی سطح پر ظلم ہوتا دکھےتو لازم ہے کہ جرأت مندی اور جائز طریقے سے صدائے احتجاج بلند کی جائے۔ نہ ظلم کا شکار بنیں اور نہ ہی کسی پر ظلم ہوتا دیکھ چُپِی سادھ لیں۔
آئے دن تشدد کی مختلف شکلیں ہندوستان کے منظر نامہ پر ابھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جیسے نوح نامی علاقے میں فساد کروائے گئے اور غریب بستیوں پر بلڈوزر پھیر دیا گیا اور تمام مکین بے گھر ہوگئے، ماب لنچنگ کے واقعات بہت عام ہوگئے ہیں جس میں محض شک کی بنیاد پر نہتے آدمی کو مشتعل بھیڑ کےبے جا غصے کی نذرکردیا جاتا ہے۔ حالیہ چلتی ٹرین میں ہوا شرمناک واقعہ جس میں اعلی ذات کے مالک نے نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے مزدور بچّے کے مزدوری مانگنے پر اس کے اوپر پیشاب کردیا ، پولیس افسر نے ٹرین میں نہتے مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا ۔بتایا جاتا ہے کہ دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی ،اگر یہ حقیقت ہے تو ایسے شخص کے پاس ہتھیار کیوں دیے گئے اور اس نے بگڑی ہوئی دماغی کیفیت میں ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا؟ بچوں کے ذریعہ جسمانی تشدد کا ناروا عمل سامنے آیا۔ منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان نسلی منافرت کا بیچ بویا گیا، جس کی وجہ سے فسادات ہوئے، وہاں ہوا عورت کا برہنہ مارچ انسانیت کو شرمسار کردینے والا سلوک تھا۔ گڑگاؤں کی مسجد میں انیس سالہ امامِ مسجد کا قتل کیا گیا ۔
آئے دن‌ہمارے سامنے ایسے واقعات آرہے ہیں اور اس قسم کی خبریں سنائی دیتی ہیں۔ ان حالات میں دو طرح کی نفسیات پروان چڑھتی ہے۔ ایک یہ کہ مسلسل اس قسم کی خبریں سن کر ذہن اس کا عادی ہوجاتا ہے اور ان واقعات کے تئیں حساسیت کم ہونے لگتی ہے۔ دوسرا اس کے برعکس مسلسل بے چینی اور پریشانی طبیعت پر چھائی رہتی ہے اور مایوسی غالب آجاتی ہے۔ہمارے نبی محمد ﷺ نے مکہ میں کیے گئے مظالم کے خلاف تشدد کی راہ نہیں اختیار کی اور نہ ہی مایوسی کو قریب آنے دیا، بلکہ اغیار کی شرانگیزی کا حکمت و تدبیر سے مقابلہ کرتے رہے اور فتح مکہ کے وقت تمام تر قوت اور تیاری کے ساتھ ظلم کا قلع قمع کیا۔ ظلم سہنے کو کبھی بھی پسند نہیں فرمایا ،کیونکہ ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔
ہم آج تشدد کے جواب میں مختلف طریقے اور تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔زبان اور قلم سے ظلم کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ جائز طریقے سے قانونی لڑائی لڑ سکتےہیں۔ سوشل میڈیا پر مظالم کا جواب دینے کے رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ منفی رویوں اور تشدد کے راستے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سزا کا حقدار صرف ظالم ہوتا ہے۔ تشدد کےعمل سے اس کے منسلک افراد و طبقات بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں، اور اسلام ناحق پر ظلم کے شدید خلاف ہے۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز گفتگو سے احترازبرتنا چاہیے۔
قرآن میں ارشاد ہے:

لَا يُحِبُّ اللٰهُ الۡجَــهۡرَ بِالسُّوۡٓءِمِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ‌ؕ وَكَانَ اللٰهُ سَمِيۡعًا عَلِيۡمًا‏

( اللہ تعالیٰ بآواز بلند بری بات کہنے کو ناپسند فرماتا ہے، سوائے مظلوم (کی بات) کے اور اللہ بہت سننے والا ‘ نہایت علم والا ہے۔)
ظلم کے خلاف ڈٹ جانا اہل ایمان کا فرض ہے لیکن اس کام میں ہمارا کوئی بھی عمل اللہ تعالی کی خلاف ورزی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

2 Comments

  1. نام *تحسین عامر

    بہترین مضمون مدیحہ

    Reply
  2. Ramza Khan

    عمدہ تحریر آپی

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے