أكتوبر ۲۰۲۳

ہمارے ملک میں دن بہ دن خود ساختہ ڈاکٹر وں کی تجویز کردہ ادویات کے استعمال کا چلن بڑھتا ہی جارہا ہے ۔اکثر خواتین اور لڑکیاں اپنی ذاتی ریسرچ،فیملی یا فرینڈ سرکل میں کسی ملٹی وٹامن یا نیوٹریشنل سپلیمنٹ ،اضافی غذائی ادویات اور اس سے ہونے والے فائدے کا ذکر سنتے ہی اسے اپنی لیے بیسٹ چوائس یا ضرورت سمجھ لیتی ہیں۔ہر انسان کےجسم کی قوت مدافعت خلیوں کی موجودہ کارکردگی ،حالت صحت یا بیماری کی حالت یا کسی بڑی بیماری کی موجودگی علیحدہ ہوتی ہے۔ہر جسم کو ایک ہی وقت میں ایک جیسی دوا، ملٹی وٹامنس اور سپلیمنٹس فائدہ نہیں دے سکتے۔
ہم میں سے بہت سے افراد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تھکن کا شکار ہونے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں ،اور اس کا تعلق عام طور سے غذائی کمی سے ہوتا ہے، اور جسم میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف سپلیمنٹس اور ملٹی وٹامنز تجویز کیے جاتے ہیں۔یہ سپلیمنٹس یا وٹامنز ہمیں گولیوں، مشروبات یا پاؤڈرز کی صورت میں مل جاتے ہیں، جو ہمارے جسم میں مختلف وٹامنز، منرلز، کیلشیم، آئرن اور پروٹین جیسے غذائی اجزاء کی کمی کو دور کرنے میں مددکرتے ہیں۔جہاں ان سپلیمنٹس اور ملٹی وٹامنز کے کچھ فوائد ہیں، وہیں ان کے بعض مضر اثرات بھی ہیں، جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں،تاہم طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غذائی سپلیمنٹس اچھی خوراک کا نعم البدل ہرگز نہیں ہو سکتے۔
ماہرین کے مطابق 30 سال سے زائد عمر کی خواتین میں ایسے سپلیمنٹس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ مختلف طرزِ زندگی کے حامل افراد کے لیے ملٹی وٹامنز کی تعداد کبھی بھی یکساں نہیں ہو سکتی۔ کسی کا باڈی ویٹ کچھ ،تو میٹابولزم کی کارکردگی مختلف ،کسی کا بی ایم آر مختلف ،کہیں لیور اور کڈنی کی کارکردگی مختلف ۔انسان کے جسم میں کھائی جانے والی غذا ،دوا،ملٹی وٹامنس ،سپلیمینٹس سب کچھ لیور اور کڈنی سے ہوکر گزرتا ہے، جسم میں منہ کے راستے، انجکشن یا آئی وی کے راستے دی جانے والی ہر شے کے اہم اجزاء راست ان دونوں اہم اعضاء سے ہو کر گزرتے ہیں ۔جو اکثر ان اعضاء کے ڈیمیج کا سبب بنتے ہیں۔جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ لیور ہیپیٹو ٹاکسک ڈیزیز اور کڈنی رینل فیلیور کا شکار ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سپلیمنٹس کا استعمال ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورے سے ہی کیا جائے۔
30 سے 40 سال کی ایسی خواتین جو خود سے ہی ملٹی وٹامنس یا سپلیمنٹس کا استعمال شروع کردیتی ہیں، انھیں خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر اسے استعمال نہ کریں۔ڈاکٹر نے جتنی مدت کے لیے استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے، صرف اسی مدت میں استعمال کریں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی وٹامن خصوصاً کیلشیم،آئرن اور وٹامن ڈی یا سپلیمنٹ یا کوئی انرجی ڈرنک؛ جسے لینے کے بعد جسم میں طاقت اور چستی پھرتی محسوس ہوتی ہے، اسے بہت مدت تک استعمال کرنا ہم اپنی عادت بنا لیتے ہیں، اور مہینوں یا سال اسے استعمال کرتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے، اس کے بغیر طبیعت صحت مند ہی محسوس نہیں ہوتی۔اسے بھی میڈیکل سائنس میں ایک طرح کا ایڈکشن ہی مانا گیا ہے۔
ملٹی وٹامنز اور فوڈ سپلیمنٹس کے حوالے سے انڈیا کے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبٹیز، اوبیسٹی اینڈ کولیسٹرول کی ایک ریسرچ میں آیا ہے کہ جب جسم کے خلیات کو ضرورت نہ ہو اور زیادہ مقدار میں بہت لمبی مدت تک ملٹی وٹامن اور سپلیمنٹس ملے تو خلیات کی تقسیم (ڈی این اے اور کروموزوم کی ملٹی پلیکیشن) کا سلسلہ تیزی سے بڑھ جاتا ہے اور کینسر کے خلیات تقویت پا کر دگنی رفتار سے نشونما پانے لگتے ہیں ،کیونکہ انھیں سپلیمنٹس زائد انرجی مہیا کرتے ہیں۔اگر جسم کو ضرورت نہ ہو تو وٹامن جسم سے فضلہ کی شکل میں ضائع ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ منفی اثرات سائیڈ ایفیکٹ بھی ان وٹامنز کی زیادتی کےسبب بنتے ہیں۔وٹامن اے اور وٹامن ای کی زیادتی قے اور بینائی میں دھندلاہٹ کا سبب بن سکتی ہے۔
ایک بات جس پر تمام ڈاکٹرز متفق ہیں ،وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کردہ سپلیمنٹس کو تجویز کردہ مقدار میں ہی استعمال کیا جائے، کیونکہ تجویز کردہ مقدار سے زیادہ سپلیمنٹ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔البتہ ان سپلیمنٹس کا زیادہ استعمال جسم پر بھی مضر اثرات چھوڑ سکتا ہے۔غذائیت اور جسمانی کارکردگی پر تحقیق کرنے والے ادارے این ڈی او سی کی سربراہ ڈاکٹر سیما گلاٹی بتاتی ہیں کہ وٹامن ای اور اومیگا3 فیٹ سالیوبل وٹامنز ہیں، ان وٹامنز کو ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کرنا ان کے جسم میں جمع ہونے کا باعث بن سکتا ہے، جو جسم میں کئی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔وٹامن اے اور وٹامن ای کی زیادتی بار بار قے ہونے، بینائی میں دھندلاہٹ سمیت دیگر مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔اگرچہ وٹامن ای بلڈ پریشر کو کم کر سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پھیپھڑوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا ان کو ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ ہی استعمال کیا جائے۔
بہت سے وٹامنز جسم میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور اگر یہ زیادہ مقدار میں جسم میں داخل ہو جائیں تو یہ بھی فضلے کے ذریعے جسم سےخارج ہو جاتے ہیں۔ وٹامن بی جسم میں خون کے سرخ خلیات یعنی ریڈ سیلز بنانے میں مدد فراہم کرتا ہےاور ساتھ ہی ساتھ یہ دماغ اور اعصابی خلیوں کو مضبوط بنانے کا بھی کام کرتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر جسم میں وٹامن ڈی کی کمی واقع ہو جائے تو اس سے انسانی جسم پر واضح اثرات ہو سکتے ہیں۔ جن میںجلد زرد پڑنے لگتی ہے،تھکن اور کمزوری کا احساس غالب رہتا ہے،قبض اور گیس کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے،بھوک میں کمی واقع ہوتی ہے،دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا سامنا اور سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے۔یہ وٹامنز دو مختلف شکلوں میں دستیاب ہوتے ہیں، جن میں ان کی مطلوبہ مقدار ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو بھی وٹامنز تجویز کیے جاتے ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق اگرشوگر کے مریض ایسے سپلیمنٹس کو بغیر کسی وجہ کے زیادہ دیر تک استعمال کریں تو یہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی بچوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک میں نظر آتی ہے، اور اس کی بنیادی وجہ کھلی فضا سے اجتناب اور زیادہ تر چار دیواری کے اندر وقت گزارنا کہا جاتا ہے۔سورج کو وٹامن ڈی کے حصول کا قدرتی ذریعہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اب لوگ باہر کم نکلتے ہیں۔ اگر پیدل چلنے، کھیل کود یا جسمانی مشقوں کے دوران سورج کی روشنی جسم تک پہنچتی ہے تو وٹامن ڈی جسم میں کیلشیم کو جذب کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔اگر جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو تو ہمیں صرف تین ماہ تک وٹامن ڈی لینا چاہیے، لیکن لوگ اس دورانیہ کو بڑھا دیتے ہیں اور اس صورت میں آپ کو سانس لینے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، تھکاوٹ، چکر آنا، الجھن، بار بار پیشاب کی حاجت ،ہائی بلڈ پریشر اور دیگر ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اچھی غذائیت کا موازنہ سپلیمنٹس سے نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اچھی غذائیت جسم میں تمام غذائی اجزاء کی کمی کو دور کرنے میں مدد کرتی ہے۔ جب خواتین کی عمر30 سال سے بڑھنے لگے ،اپنی خوراک کو بیلینس رکھیں، جس میں دودھ،انڈا،گھی،دہی،پھل،پتے دار سبزیاں،پنیر،گوشت چکن اور مچھلی بھی شامل ہے۔جسم کو فٹ رکھنے کے لیے ورزش،صبح کی دھوپ میں رہنا، مارننگ واک کرنا؛ یہ سب بہت ضروری ہیں۔آرٹیفیشیل سپلیمنٹس سے زیادہ اہم قدرتی غذائیں ہمارے جسم کوفائدہ پہنچاتی ہیں‌۔

٭ ٭ ٭


اگر جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو تو ہمیں صرف تین ماہ تک وٹامن ڈی لینا چاہیے، لیکن لوگ اس دورانیہ کو بڑھا دیتے ہیں اور اس صورت میں آپ کو سانس لینے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، تھکاوٹ، چکر آنا، الجھن، بار بار پیشاب کی حاجت ،ہائی بلڈ پریشر اور دیگر ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اچھی غذائیت کا موازنہ سپلیمنٹس سے نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اچھی غذائیت جسم میں تمام غذائی اجزاء کی کمی کو دور کرنے میں مدد کرتی ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے