أكتوبر ۲۰۲۳

 علیزے نجف:

موجودہ وقت میں تعلیم کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح کافی مقبول ہوتی نظر آ رہی ہے،اور وہ ہے ہوم اسکولنگ کی اصطلاح ۔آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟

 ڈاکٹر کنول قیصر :

سچ کہوں تو مجھے ہوم اسکولنگ کا براہ راست کوئی تجربہ نہیں ہے، لیکن جہاں تک ہوم اسکولنگ کے حوالے سے میرے مشاہدےکا تعلق ہے تو میں نے بس یہ دیکھا ہے کہ جو والدین ہوم اسکولنگ کے نظریے کو اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں، ان کے دلائل کیا ہیں، اور جو لوگ ہوم اسکولنگ کے حق میں نہیں ان کے اس بارے میں کیا خیالات ہیں، میرا اس تعلق سے کوئی عملی تجربہ نہیں ہے۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہوم اسکولنگ کے طرز تعلیم کو اپنے حق میں مفید پاتا ہے اور اس کی فیملی بھی اس کے ساتھ تعاون کر رہی ہو اور Spouse بھی معاونت کر رہا ہو تو اسے ضرور کرنا چاہیے، لیکن اسے اپنے نظریوں میں لچک بھی رکھنی ہو گی، یعنی وہ اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے نظریے کو ہدف تنقید بنانے سے گریز کرنا ہوگا، کیوں کہ ایسے میں ہم اس امکان کو بالکل بھی رد نہیں کر سکتے کہ کچھ مائیں اپنے بچوں کو چاہ کے بھی وہ وقت نہیں دے سکتیں، جس کا ہوم اسکولنگ تقاضہ کرتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے اندر وہ صلاحیت ہی نہ ہو، یا وہ خود کو آرگنائز نہیں کر پا رہی ہوں، ایسے میں متوازن رویہ یہی ہے کہ نہ اسکول جانے والے ہوم اسکولر کو برا سمجھیں اور نہ ہی ہوم اسکولر اسکول جانے والوں کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوں، جو اپنے لیے جو مناسب خیال کرے اسے اپنا کر اپنے مقصد حیات کی طرف یکساں دھیان دے، ان دونوں ذرائع تعلیم سے بچوں کے شعور کی تربیت کرنا مقصود ہونا چاہیے، ہمارا اصل مقصد دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہونے والے راستے کا انتخاب کرنا ہے۔

 علیزے نجف:

آپ کا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے ،اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک بہترین کاؤنسلر بھی ہیں، اگر چہ آپ نے باقاعدہ اس کی ڈگری حاصل نہیں کی۔ میرے خیال میں ڈگری تو محض ایک علامت ہے ،اصل کارکردگی تو صلاحیت کی ہوتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے ابتدا ہی سے شعبۂ نفسیات کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟ زندگی کے کس موڑ پر آ کر آپ نے محسوس کیا کہ آپ ایک بہترین کاؤنسلر بھی بن سکتی ہیں ؟پھر آپ نے اس میدان میں مہارت حاصل کرنے کے لیےکس طرح کی کوششیں کیں؟

 ڈاکٹر کنول قیصر :

آپ کا یہ سوال کافی انٹرسٹنگ ہے۔بالکل میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی لوگوں کی کاؤنسلنگ کروں گی یا ان کو اس حوالے سے کچھ سکھاؤں گی، میری زندگی میں یہ ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب میں قرآن کریم کی کلاس جوائن کی اور وہاں سے مجھے سمجھ آئی کہ مقصد حیات کیا ہے؟ اور پھر جب آہستہ آہستہ میں نے خود پرکام کرنا شروع کیا تو مجھے اس کی سمجھ آئی کہ کسی کام کو سیکھ کر اس کے مطابق دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کے لیے کن Skills کی ضرورت ہوتی ہے؟ خود کو Groom کرنے کی اس کوشش کے دوران مرا رابطہ کچھ سائیکالوجسٹس سے ہوا، اور ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے بچوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا، ان کو قرآن پڑھانا اور ان کی ذہن سازی کرنا ان کے رویوں کو سمجھنے کے لیےمجھے ان کی نفسیات کو سمجھنا ضروری تھا، تبھی میں ان کو Disciplined کر سکتی تھی۔میں نے مطالعے کے ذریعے اس کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی، یہیں سے میرا انٹرسٹ سائیکالوجی میں ڈیولپ ہوا اور پھر میں نے بہت سے سائیکالوجسٹس سے استفادہ بھی کیا۔ شروع میں میں اس لیے سیکھتی تھی کہ میں اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کی صحیح تربیت کر سکوں اور جو بچے میری نگہداشت میں تھے ،ان کو صحیح گائڈ لائن دے سکوں، میرے پاس بچوں کا ایک پورا ڈیپارٹمنٹ ہے جس کا نام ہے ’’ہمارے بچے ‘‘،جو کہ الھدیٰ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے والدین کی بھی صحیح سمت میں رہنمائی کرنی ہوگی، اس ضمن میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہو رہے تھے، مجھے ان سوالات کو تلاش کرنا پڑتا تھا اور مختلف ذرائع کا استعمال کرنا پڑتا تھا، اس وقت انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت بھی نہیں تھی، اگر چہ اب انٹرنیٹ کی سہولت ہر کس و ناکس کو میسر ہے، وہاں پر آپ کے سارے سوالات کے جوابات بآسانی مل سکتے ہیں، لیکن والدین موجودہ وقت کی برق رفتار تبدیلی میں اپنے بچوں کی نفسیات کو پیچیدگی کا شکار ہوتے دیکھ کر خود اتنا الجھ جاتے ہیں کہ انھیں باقاعدہ کاؤنسلر کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے ۔
بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے کی جانےوالی یہ ساری کوششیں دراصل میں اپنے لیے کر رہی تھی، لیکن مجھے اصل کانفیڈنس جنھوں نے دیا وہ میری Mentor میری استادڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ تھیں، انھوں نے میرا حوصلہ بڑھایا، حالاں کہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس فیلڈ میں میں نے جو کچھ اب تک سیکھا ہے، اس کے ذریعے میں بہت سے ایسے سوالوں کے جواب بھی دے سکتی ہوں، جن کا جواب شاید شعبۂ نفسیات سے منسلک لوگ بھی نہ دے سکیں۔ شاید اس وجہ سے کہ اس بارے میں ان کا Clinical experience کم ہے ۔ میرے پاس ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں تو ہمیں باقاعدہ اس بات کی ٹریننگ دی جاتی جاتی ہے کہ کس طرح مریض کی سائیکلوجی کے مطابق انھیں ڈیل کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے مجھے بہت Encourage کیا کہ آپ والدین کی ہیلپ کریں، کیوں کہ وہ بہت پریشان ہیں تو جب میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس فارمل ڈگری نہیں ہے، تو انھوں نے کہا کہ کیا لوگ آپ سے ڈگری مانگتے ہیں یا وہ سولوشن مانگتے ہیں؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کیا آپ لوگوں سے اس طرح کی جھوٹی بات کرتی ہیں کہ میں ماہر نفسیات ہوں اور میرے کوئی ہائی پروفائل ڈگری ہے؟ تو میں نے کہا نہیں، میں تو یہ نہیں کہتی تو انھوں کہا کہ پھر ہمارا فرض بنتا ہے کہ جو علم ہمارے پاس ہے ہم اس سے لوگوں کی مدد کریں۔ تو یہاں سے میرے اندر یہ اعتماد آیا اور میں نے دیکھا کہ میں جو لوگوں کو مشورہ دیتی تھی اس کے اچھے رزلٹ آتے تھے، لوگوں سے باتیں کرتی تھی تو لوگ اس سے خود کو Relate کرتے تھے،مجھے اچھے فیڈبیک ملتے، پھر میں نے سوچا واقعی میرے پاس ڈگری تو نہیں اس طرح کی۔ میں نے بہت سے آن لائن کورسز کیے جیسے : C.B.T. اور اسی طرح سے بچوں کےAbuses behavior اور اس طرح کے بہت سارے جو چیلنجنگ سچویشن ہیں ،ان سے متعلق میں نے کئی طویل المدت کورسز کیے، جیسے : ایڈکشن کے بارے میں میںنے Addiction expert سے سیکھا اور پھر جب میں نے زیادہ کام کرنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ الحمدللہ جب میں لوگوں کو گائڈ کرتی ہوں تو لوگوں کو سمجھ آتی ہے، اس میں میں اپنے آپ کو کریڈٹ نہیں دوں گی، میں سمجھتی ہوںجب انسان اللہ کا کلام پڑھتا ہے اور نیت یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی دین و دنیا کی اصلاح ہو جائے، تو اللہ خود دوسرے انسان کے اندر اچھی بات کو جگہ دے دیتے ہیں، اللہ ہی ہے جو کسی کی اصلاح کرتا ہے، ہم تو فقط کوشش ہی کرتے ہیں۔
اس ضمن میں میری کوششیں بس یہی تھیں کہ میں نے بہت سے لوگوں کے ساتھ کام کیا اور سیکھا ۔ابھی بھی میں ہر وقت پڑھ رہی ہوتی ہوں، میں قرآن مجید کو پڑھ بھی رہی ہوں اور پڑھا بھی رہی ہوں۔ اپنے استاد کو سنتی ہوں اور اسکالرز کو سنتی ہوں اور اپنی سمجھ کو زیادہ بڑھاتی ہوں ،کیوں کہ میں خود کوئی اسکالر تو ہوں نہیں ۔میں اپنے آپ کو صرف قرآن کا طالب علم خیال کرتی ہوں، میں ہر وقت اپنے آپ کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتی ہوں کہ میں خود پر اپنی گرفت مضبوط رکھوں، پھر جب قرآن مجید پڑھتی ہوں تو ساتھ ساتھ میں یہ جاننے کی کوشش بھی کرتی ہوں کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس کے بارے میں سائیکالوجی کیا کہتی ہے؟اسی طرح جب میں معلوماتی کتابیں پڑھتی ہوں تو میں یہ دیکھ رہی ہوتی ہوں کہ اچھا یہ قرآن مجید کی کن آیات کے ساتھ اور کن احادیث کے ساتھ ریلیٹڈ ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ تو وہاں سے میں دونوں باتوں اکٹھا ملا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

 علیزے نجف:

آپ الھدیٰ انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن نامی ادارے سے بھی وابستہ ہیں، وہ کیا محرکات تھے جو آپ کو اس جانب متوجہ کرنے کاسبب بنے؟ دوسرے میں قارئین کی جانکاری کے لیےیہ بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ الھدیٰ کی بنیاد کس طرح کے ماحول میں رکھی گئی اس کا مقصد تاسیس کیا تھا فی الوقت اس کی branches کہاں کہاں ہیں اور اس کی بانی کون ہیں ؟

 ڈاکٹر کنو ل قیصر :

جی، میرا تعلق الھدیٰ انٹرنیشنل ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ساتھ ہے، جو کہ ایک دینی ادارہ ہے، جس میں مذہبی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ذہن سازی اور شخصیت سازی کو خاصی اہمیت حاصل ہے، جب کہ بنیادی طور پر میرا تعلق ایک ڈاکٹر فیملی سے ہے، میرے والدین بہن بھائی اور ان کے Spouses سب کے سب ڈاکٹر ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے گھر میں ایک پروفیشنل ماحول رہا ہے، جیسے: میڈیسن اور میڈیکل خدمات ہی ہمارے روز مرہ کے معمولات رہے ہیں۔میری فیملی سے ہٹ کر خاندان میں بھی بہت زیادہ ڈاکٹرز ہیں۔ اس ماحول کے پس منظر میں ہی میری پرورش ہوئی۔میں شروع سے اس قدر Religious بالکل نہیں تھی، میں میڈیسن پڑھ رہی تھی، مذہب سے میرا تعلق بالکل روایتی سا تھا، جیسے قرآن کی عزت کر لی کبھی نمازیں پڑھ لیں کبھی چھوٹ بھی گئیں، روایتی طرز پر روزے رکھ لیے، دین کے ان بنیادی تقاضوں پر عمل بس اس لیے تھا کہ گھر کے بزرگ نصیحت کرتے کہ بیٹا یہ پڑھ لو یہ کر لو وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب کچھ محض تقلیدی طرز پر ہی میری زندگی میں شامل تھا۔ اس کے پیچھے کوئی Thought process نہیں تھا کہ اللہ ان ارکان کی ادائیگی کے ذریعے ہم سے کیا چاہتا ہے اور ایک مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ میرا مذہب سے حقیقی تعلق اس وقت پیدا ہوا جب میں ایک مرتبہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے درس میں شریک ہوئی تو مجھے بہت اچھا لگا۔پہلے مجھے یہ لگتا تھا کہ اگر میں نےقرآن مجید پڑھنا شروع کردیا، خاص طور سے اگر سمجھ کر پڑھتے ہوئے اس پر عمل کرنا شروع کردیا تو شاید مجھ پر پابندیاں عائد ہو جائیں گی، شاید مجھے پردہ وغیرہ کا اہتمام بھی کرنا پڑے گا، مجھے اپنے بہت سے مشاغل چھوڑنے پڑیں گے اور یہ چیز مجھے تھوڑا سا پریشان کرتی تھی اور اس طرف آنے سے روک دیتی تھی ،کیوں کہ اس طرح کی باتیں ڈاکٹر کے اسٹافز کے ساتھ ہوتی رہتی تھیں، لیکن جب میں پہلی مرتبہ الھدیٰ فاؤنڈیشن گئی اور میں نے پہلی مرتبہ فرحت ہاشمی کو سنا تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچھا قرآن مجید میں اس طرح سے دیا ہوا ہے اور میرے اندر ایک طرح کا سکون سرایت کرتا جا رہا تھا، میں اس سے مانوس ہوئی جا رہی تھی۔
میں شروع میں ان کے ہفتہ واری درس پہ جاتی تھی، ہفتے میں ایک دن، لیکن پورا ہفتہ اس کو پڑھتے سوچتے گزر جاتا تھا اور وہ سب کچھ مجھے خود سے Relatable لگتا تھا، مجھے ان آیات سے مدد ملتی تھی، مجھے لگتا تھا کہ میری زندگی اب بہتر ہونی شروع ہو گئی ہے اور اس سے مجھے boundery set کرنا آ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ کہاں پہ ہاں کہنا ہے اور کہاں پہ نہیں کہنا ہے؟ کیسے تعلقات کو بہتر کرنا ہے ؟میرے اپنے اندر کن کوالٹیز کی کمی ہے اور وہ کیا چیزیں ہیں جن کو مجھے بہتر بنانا ہے؟اس دوران مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھا کہ میں نے ڈاکٹر فرحت ہاشمی کو اپنی ذاتی زندگی میں مذہب سے عملی طور پر قریب دیکھا اور پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ انھوں نے مجھے کبھی نہیں روکا کہ تم اس کو نہ سنو اس کے پاس نہ جاؤ، وہ مجھے ہر بار یہ بات کہتیں کہ قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھ لیں اور سمجھ لیں تو مجھے ان کا یہ رویہ Broad based لگتا تھا اور مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ انھوں نے مجھ سے کوئی زبردستی کام نہیں کروایا، ہمیشہ پیار و محبت سے سمجھایا، ان کے دلائل ہمیشہ قرآن اور حدیث سے اخذ کیے ہوتے تھے ،اس سے میں نے یہ سیکھا کہ ایک Pure form میں قرآن مجید کو پڑھنا اور سنت کو سمجھنا ضروری ہے، جب کہ اس سے پہلے مجھے اور باقی جگہوں پہ ایک ایجنڈہ نظر آتا تھا کہ اگر آپ نے اس ادارے کو جوائن کیا تو پھر آپ کو صرف اسی کے لیےکام کرنا ہو گا۔ فرحت ہاشمی نے ہمیں یہ سکھایا کہ جہاں بھی خیر ہو، اسے لے لینا چاہیے،جیسا کہ قرآن میں ذکر ہوا ہے :
تعاونوا علی البر والتقوی
جہاں بھی نیکی اور تقویٰ کی بات ہو ،وہاں تعاون کرو اور جہاں گناہ ہو وہاں فل اسٹاپ لگا دو ۔الھدیٰ کی بنیاد انھیں خیالات پر رکھی گئی ہے کہ قرآن سب کے لیے ہے اور یہ کہ قرآن کو اس کی اصل صورت میں پڑھا جائے، جیسے اوائل اسلام کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پریکٹس کیا تھا، اسے ویسے پریکٹس کیا جائے اور ساتھ ساتھ جو آج کل کے چیلنجز ہیں اسے اس کی روشنی میں پڑھ کر آگے پڑھا جائے۔
الھدیٰ کا مین ہیڈ آفس اسلام آباد میں ہے، جہاں پر مختلف علاقوں کے طلبہ آتے ہیں پڑھتے ہیں، جب وہ اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو کچھ الھدی ٰکے برانچز میں کام کرتے ہیں اور کچھ اپنے علاقوں میں کام کرتے ہیں، انٹرنیشنل لیول پہ بھی اس کی برانچز ہیں جیسے کینیڈا ، یوایس اے، آسٹریلیا میں ہے، مڈل ایسٹ کی بہت سی جگہوں پہ کام ہو رہا ہے، اس ادارے سے جڑے طلبہ کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ جس طرح ہم نے قرآن پڑھا اور سمجھا ہے ،اسی طرح اس کو دوسروں تک پہنچائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ویب سائٹ پر ہر طرح کا میٹریل مل جاتا ہے، جہاں پہ آپ خود پڑھ سکتے اور سن سکتے ہیں اور از خود اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔(جاری)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے