أكتوبر ۲۰۲۳

نکال پھینکوں نہ اس کو کہیں میں سینے سے
لہو ابلنے لگا ہے اک آبگینے سے
مزارِ ہجر میں زیرِ عذاب ہے کوئی
صدائیں آتی ہیں شب بھر کسی دفینے سے
رگِ حیات ہے دستِ جنون کی زد میں
مرے وجود کو خطرہ ہے میرے جینے سے
نموئے شوق کو لازم ہے زہرِ ناب کوئی
ہرے بھرے ہیں مرے زخم اشک پینے سے
ذرا سی دیر کو مہلت نصیب ہو یا رب
قبائے زیست کے چاکِ مدام سینے سے
وفورِ شوق کو ذوقِ نگاہ کافی ہے
حریمِ یار میں اترو نظر کے زینے سے
تمام زخم جو تیری عطا تھے یارِ من
لباسِ روح پہ ٹانکے گئے قرینے سے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے