أكتوبر ۲۰۲۳
زمرہ : ادراك

 انسانی بنیادی پر تعلقات استوار رکھنے اور عبادت میں شامل ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ھادیہ کے پچھلے شمارےمیں ہم نے ایک مضمون شامل کیا تھا۔ روہنی سنگھ کایہ مضمون’’ گھروں کے دروازے کھول دو‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا ۔برادران وطن میں مسلمانوں اور اسلام سے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمارے گھر آئیں اور ہم ان کے گھر جائیں ،دوستانہ تعلقات غلط فہمی دور کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں ،تاہم انسانی بنیادوں پر رکھے جانے والے تال میل، بھائی چارہ اور یک جہتی کی ایک حد ہے۔
جس طرح سوشل میڈیا پر بھائی چارہ اور یک جہتی کے نام پر شرک میں ساجھے داری کی جو خبریں آرہی ہیں، یہ قطعاً کوئی بھائی چارہ نہیں ہے ۔ دینی مصلحت کی یا اپنےمال و اسباب اور متعلقین کی حفاظت کی خاطر کسی کے ساتھ نرمی برتنا مدارات میں شامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی دانائی مدارات ہے۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبه : 25428)
ویسے ’’مداراة‘‘ کے اصل معنی ’’المدافعة‘‘یعنی بچاؤ کرنے کے ہیں ،اور اسی سے ایک دوسرے کے ساتھ لطف و کرم، نرمی اور اچھا معاملہ کرنے کو’’مداراة‘‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ انسان اس کے ذریعے اپنے نفس کو شر سے بچاتا ہے۔جیسے سیرت کے باب میں ہمیں اللہ کے نبیﷺ کی مثالیں ملتی ہیں ۔غزوۂ بدر کے قیدیوں کو جبیر بن مطعم جو مطعم بن عدی کے بیٹے تھے، اللہ کے نبیﷺ سے قیدیوں کی رہائی طلب کی۔اللہ کے نبیﷺ نے نرمی سے کام لیا یا جنگ حنین کے موقع پر دائی حلیمہ سعدیہ کی بیٹی نے حالت محصوری میں اپنے مویشی طلب کیے، اللہ کے نبیﷺ نے مویشی لوٹادیا ۔
فتح مکہ کاواقعہ بھی بہترین مثال ہے، اور جنگ احزاب کے وقت بنی نظیر سے معاہدہ اور اپنے اہل خانہ کو ان کے صوابدید پر چھوڑ دینا بھی مدارات کی مثالیں ہیں ۔جہاں پیارے نبیﷺ نے دیگر مذاہب سے مدارات کو پسند فرمایا ،وہیں مداہنت سے روکا ہے۔ سورۃ القلم آیت نمبر 9 میں رب العالمین کا ارشاد ہے:
وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡهِنُ فَيُدۡهِنُوۡنَ
(یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔)
’’ دُھْنٌ‘‘ کے معنی روغن، تیل، چکنائی اور’’ اَدْھَنَ‘‘ کے معنی کسی چیز کو تیل لگا کر نرم کرنا۔ مداہنت کے کئی معنی ہیں۔ ’’مدہنون‘‘ ،’’ادہان‘‘ سے مشتق ہے، جس کے لغوی معنی تیل کی مالش کرنے کے ہیں اور تیل مالش سے اعضاء نرم ہوجاتے ہیں ،اس لیے نرم کرنے اور ناجائز مواقع میں نرمی برتنے کے معنی اور نفاق کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا، مثلاً کسی بات میں لچک پیدا کرلینا، ڈھیلا پڑنا، منافقت کا رویہ اختیار کرنا، کسی چیز کو اپنی سنجیدہ توجہ کے قابل ہی نہ سمجھنا،باطل خداؤں کے لیے نرمی رکھنے کی پیش کش کو قبول کرنا ۔
امین احسن اصلاحی صاحب اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’ عربیت کے قاعدے سے تو یہاں ’’وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْا‘‘ ہونا تھا لیکن ہے’ ’فَیُدْہِنُوْنَ‘‘۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اسلوب مختلف اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں دراصل مبتدا محذوف کر دیا گیا ہے۔ یعنی اصل میں’ ’فَھُمْ یُدْہِنُوْنَ‘ ‘ہے۔مطلب یہ ہو گا کہ ان کی خواہش یہ ہے کہ جب تم کچھ نرم پڑ جاؤ گے تو وہ بھی اپنے رویہ میں نرمی پیدا کر لیں گے۔ اس اسلوب کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔‘‘
مسلمان گھرانے میں تربیت پانے والے افراد آخر کیوں شرک کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہیں؟ کس چیز کی وجہ سے انسان مداہنت کا شکار ہوتا ہے؟ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
مداہنت کے اسباب
مداہنت کا پہلا سبب لاعلمی اور جہالت ہے۔بھارت جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ساتھ ہم رہتے ہیں، وہاں انسانی بنیادوں پر تعلقات استوار رکھنا ،تجارتی تعاون، امداد باہمی کی فضا بناکر رکھنا ایک عام بات ہے، بلکہ بعض معاملات میں اگر ہم انسانیت کی بھلائی کےزاویے سے دیکھیں تو یہ معاونت وتعلقات مددگار بھی ہوسکتے ہیں، لیکن عقائد کے معاملے میں ہمیںکوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے ۔پچھلے دنوں گنیش کی پوجا کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ شہر کے امیر شریعت نے بروقت رابطہ کرکے تجدید ایمان کروایا، تجدید نکاح بھی کروایا، اس نوجوان سے لاعلمی میں یہ حرکت ہوئی تھی، اس نے توبہ کی اور شرمندہ بھی تھا، تاہم جب یہ خبر پہنچی تو امیر شریعت کے پاس کئی نوجوان آئے کہ ہم سے بھی یہ گناہ ہوا اورانھوں نے تجدید ایمان کیا۔
دراصل شرک سے اجتناب کے لیے شعوری کوشش درکار ہے ،عقائد کی پختگی کو بار بار ذکر کرنا بھی تذکیر ہے۔کفر کی تو یہ اصل پالیسی ہے، ان کی یہ ساری تگ و دو اس مقصد سے ہے کہ تم کچھ اپنے رویہ میں لچک پیدا کرو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں ۔ یعنی تمھاری باتوں کی صداقت میں انھیں شبہ نہیں ہے ،لیکن ان کو ماننا ان کی خواہشوں کے خلاف ہے، اس وجہ سے انھوں نے یہ طوفان اٹھایا ہے کہ تم پر دباؤ ڈال کر تمھیں کچھ نرم کریں، تاکہ تم کچھ باتیں ان کی مان لو اور وہ کچھ باتیں تمہاری مان لیں اور اس طرح’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر باہم سمجھوتہ ہو جائے۔
مطلب یہ ہے کہ ان کی یہ مخالفت اپنے دین جاہلی کے ساتھ کسی اخلاص پر مبنی نہیں ہے، بلکہ یہ محض ایک قسم کے مول بھاؤ اور سودے بازی کی کوشش ہے۔ جب تک انھیں توقع ہے کہ وہ تمھیں دبانے میں کچھ کامیاب ہو تے رہیں گے، ان کی یہ کوشش جاری رہے گی۔ جب یہ توقع ختم ہو جائے گی،ان کا حوصلہ پست ہو جائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ گھروں میں والدین عقائد کو گفتگو کا حصہ بنائیں۔ عقائد کی پختگی اور گہری دوستی کے باوجود عقیدے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ،یہ کیفیت بچپن سے ماؤں کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے ۔مثلاًشدید بھوک کے وقت بھی بچوں کو باہر کا کھانا کھاتے ہوئے تلقین کی جائے کہ چکن بریانی یا چکن موموز منہ میں ڈالنے سے پہلے تحقیق کرلیں کہ اس ہوٹل کا مالک مسلم ہے؟ کیا اس نے جانور حلال طریقے سے ذبح کیا ہے؟ غیر اللہ کا ذبیحہ تو نہیں تھا ؟یہ تلقین ماؤں کی زبان سے ہوتو بچے شدید بھوک میں تحقیق کے بغیر نہیں کھائیں گے ،یہ بھی عقائد کا حصہ ہے۔
شرک کے کسی معاملے میں شریک نہ ہونے کا شعور بھی گھروں میں دیا جائے ۔
سید نا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من مات وهو يدعو من دون الله ندا دخل النار
(جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو اس کا شریک بنایا اور اسی حالت میں مر گیا، وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔) (صحيح البخاري)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من أتى عرافا أو كاهنا، فصدقه بما يقول، فقد كفر بما أنزل على محمد
(جو شخص کسی نجومی یا کا ہن کے پاس گیا اور اس کی بات کو سچ جانا اس نے محمد ﷺ پر نازل ہو نے والی شریعت کا انکار کیا۔‘‘ ( مسند أحمد، حدیث : 9536)
سید سعادت اللہ حسینی اپنی کتاب ’’ہندوتوا انتہا پسندی ‘‘کے باب توحید کے پیغام میں رقم طراز ہیں :
“ اب بتدریج دنیا بھر کی شرک پسند قوتیں مجتمع ہو رہی ہیں اور گو یا توحید کے خلاف نظریاتی محاذ پر صف آرا ہورہی ہیں۔ ان حالات میں توحید سے گہری وابستگی اور پوری وضاحت کے ساتھ توحید کے صاف و شفاف نظریے کو ملک کے سامنے پیش کر نا، یہی انبیائی کام ،اہل اسلام کا اصل کام بن جاتا ہے۔مسلمان اس اصل اور بنیادی کام کو چھوڑ کر جب محض اپنی بقا و تحفظ کی یا اپنے حقوق کی لڑائی کو کشمکش و جد و جہد کا اصل محاذ بنالیتے ہیں ،تو خود کی کمزوری اور ستم پذیری(Vulnerability)بڑھاتے ہیں،شرک کی دعوت کی مضبوطی کا سبب بنتے ہیں اور خود اپنے تحفظ و سلامتی کو اور زیادہ مخدوش بناتے ہیں۔ کسی نظریاتی تحریک کے اثر کو نظریے کی سطح پر مقابلہ کر کے ہی انھیں کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے توحید کے اصول پر پوری استقامت اور اس صاف و شفاف عقیدے کی دل نشین دلائل کے ساتھ وضاحت، یہ اہل اسلام کا اس وقت سب سے بڑا اور اہم کام ہے۔‘‘
مداہنت کا دوسرا سبب :دنیاوی اغراض اور ذاتی مفاد
جب انسان دنیاوی مفاد ہی کو سب سے اہم جانتاہے، حلال و حرام اور ظلم واستبداد کی تمیز کھو دیتا ہے، اس کی نگاہ صرف تعلقات کےبنائے رکھنے پر ہوتی ہے، تو مداہنت کی پالیسی اختیار کرتا ہے ۔عقائد کی ناپختگی انسان کو ہر جائز و ناجائز سے بے نیاز کردیتی ہے ۔ملا جلا سماج ہونے کی وجہ سے کبھی اپنے بزنس کے تئیں انسان تعلقات بڑھاتا ہے ،دوستیاں بڑھاتا ہے اور رفتہ رفتہ احباب کا خیال رکھتے ہوئے عقائد سے بے نیاز ہوکر شرک کے کاموں میں بھی شریک ہوجاتا ہے ،گرچہ یہ بات مستحضر رہتی ہے کہ یہ شرک ہے اور شرک روئے زمین پر سب سے بڑا ظلم ہے۔ قرآن نے اسے ظلم عظیم کہا ہے۔
آپ ﷺ نے فر ما یا : ’’ سات ہلاک کر دینے والے گناہوں سے بچو‘‘
صحابۂ کرام نے عرض کیا: ’’اللہ کے رسول وہ کیا ہیں؟‘‘
آپ نے فر مایا:’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، جادو کرنا،کسی جان کو قتل کرنا جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ جائز ہے، سود کھانا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا ،لڑائی کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن اہل ایمان ، بھولی بھالی خواتین پر زنا کی تہمت لگانا ۔‘‘ (صحیح البخاري، الوصايا، حديث: 2766)
سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑی خطا اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ شرک کرنا ہے، اس لیے اس کو تمام حرام کردہ امور میں سرفہرست رکھا گیا ہے،لیکن اکثردنیاوی مفاد یا انسانی تعلقات انسان کو اس ظلم کے سرزد ہونے سے بے خبر کردیتے ہیں ۔اللہ رب العالمین نے شرک و کفر کے معاملے میں نرمی سے روکا ،اتنا کفر کے آگے نہ جھکا جائے کہ آپ ان کی عبادتوں میں شامل ہونے لگیں ،لیکن اللہ رب العالمین نے مداہنت کی ممانعت فرمائی ۔مداہنت کے معنی جیسا کہ اوپر بیان ہوا، کفر سے سمجھوتہ اور دنیاوی مفاد کی خاطر نرمی برت لینا ہے۔
عبد اللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں:
رسول الله ، کعبۃ اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ مکے کے سردار اسود بن مطلب، ولید بن مغیرہ، امیہ بن خلف اور عاص بن وائل سہمی آپ کے سامنے آئے اور یہ پیش کش کی کہ اول تو یہ کہ ہم آپ کو اتنا مال دے دیں گے کہ آپ مکے کے امیر ترین شخص بن جائیں گے۔دوم یہ کہ آپ جس حسین و جمیل عورت سے نکاح کرنا چاہیں، اسے ہم آپ کے نکاح میں دے دیں گے۔ اس کے بدلے میں آپ ہمیں یہ رعایت دیں کہ آپ ہمارےخدائوں کو برا نہیں کہیں گے یا یہ کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔سیرت ابن ہشام میں ہےکہ جناب ابو طالب کفار کی یہ پیش کش لے کر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے چچا جان اللہ کی قسم اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں لاکر رکھ دیں کہ میں دعوتِ دین کو ترک کردوں، تو ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، میں اپنا مشن جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اللہ اپنے دین کو غالب کر دے یا میں اِس راہ میں شہادت پالوں۔‘‘ اس موقع پر رسولﷺ کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے اور آپ روئے۔ ( جلد : 1، صفحہ : 240)
کفارکےیہ دعوےتو لاحاصل دعوے تھے، لیکن اگر وہ یہ سب ممکن کر بھی سکتے تو دین کے معاملے مفاہمت کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ ‘‘
آپ ﷺ کو بادشاہت ،حسین و جمیل خاتون ،دنیا کی ہر وہ متاع جس کی انسان کو طلب ہوسکتی ہے ،اس کی پیش کش کی گئی۔ اس پیش کش کو رد کرنے کے لیے سورۃ الکافرون نازل ہوئی، دراصل یہ مداہنت ہی کا صاف جواب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ آپ کہہ دیجیے کہ اے کا فرو میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو، اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو، جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں، جن کی تم نے عبادت کی ہے اور نہ ہی تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔‘‘ (الکافرون)
پس دین کا اصل الاصول توحید ہے اور اس معاملے پر مفاہمت نہیں ہو سکتی،ان حالات میں جب کہ سوشل میڈیا اپنی عفریت کو نسلو ں کے کچے ذہنوں میں پھیلا رہا رہے، ہم یہ اقدام کریں :
(1) گھروں میں توحید اور عقائد پر گفتو کریں، سمجھائیں کہ مفاہمت عقائد اور دین کے معاملے میں نہیں ہوگی ۔دوستانہ تعلقات بھی غلط فہمی کے ازالے کے لیے قائم کیے جائیں گے۔
(2) بچپن سے ہی بچوں میں حلال حرام کی تمیز اور حدوداللہ کا خیال رکھنے کا مکمل شعور پیدا کریں ،اور عملاً بتائیں کہ لقمہ ٔحرام سے پہلے تحقیق کرلیں ۔
(3) انھیں سود کی قباحت گھروں میں سمجھائی جائے ،کیوں کہ لقمۂ حرام ہی توحید کی حرمت کو پامال کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ مادی دنیا میں انسان اپنے دین اور ایمان کا بھی سودا کرلیتا ہے۔ یاد رہے اسلام ،اللہ رب العالمین کا عطاکردہ دین ہے ،یہ غفلت ہمیں خائن نہ بنادے ۔
(4) دنیاوی ترقی کریں،ماڈرن اسکول میں بچوں کوتعلیم دلوائیں لیکن خیال رہےکہ ہماری نسلیں دین کے لیے تقویت کا سبب بنیں ،دین کے سوداگر نہ بنیں۔اللہ سےانسان کو اپنے گمان کے مطابق ملتا ہے ۔ہم جیسا سوچیں گے ویسا ہی کائنات میں واقع ہوگا ۔کفر کے آگےہماری نسلوں کے سرنگوں ہونے میں ہمارے ارادے کا دخل ہے۔
(5) دینی حمیت پیدا کرنے کے لیے والدین کا شعور ، خاندان اور سماج کا دباؤ لازم ہے۔ جس طرح مضمون میں مذکور امیر شریعت کی حکمت نے کئی نوجوانوں کو متوجہ کیا، ہم بھی اپنا فریضہ ادا کریں، اپنے دین پر اعتماد کرنا نسلوں کو سکھائیں ۔
(6) بچوں کے اسکول دوران تدریس نصابی مجبوری کی وجہ سے پڑھایا جاتا ہے کہ دیوالی اور دسہرا یہ ہندوستانی تہوار ہیںسبھی ہندوستانی اسے منائیں گے، اسی طرح گنیش چترتھی کے زمانے میں میلہ لگتا ہے اور سبھی بچے والدین کے ساتھ اس میلے میں شرکت کرتے ہیں، انھیں اس کی حرمت کا احساس نہیں ہوتا اور بڑے ہوکر بھی وہ اس کی قباحت سے ناآشنا رہ جاتے ہیں۔
سیدنا ابو واقد لیثیؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ حنین کی طرف نکلے تو مشرکوں کے ایک درخت ( جس سے تبرک حاصل کرتے تھے ) کے پاس سے گزرے جسے ذات انواط (لٹکتی چیزوں والا ) کہا جا تا تھا۔ وہ اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے۔ کچھ لوگ کہنے لگے: ’’اے اللہ کے رسول ہمارے لیے بھی ذات انواط مقرر فرمادیجیے، جس طرح ان لوگوں کا ذات انواط ہے۔‘‘
اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:
سبحان الله هذا كما قال قوم موسى:اجعل لنا إلها كما لهم آلهة،والذي نفسي بيده التركبن سنة من كان قبلكم
(سبحان اللہ )حیرت کی بات ہے یہ تو ایسے ہے جیسے موسی علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا: ’’ہمارے لیے بھی الہ (معبود ) مقرر کیجیے جیسا کہ ان کے معبود ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کا طرزعمل اختیار کرو گے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الفتن، حديث : 2180 )
اس حدیث میں اللہ کے دشمنوں کی مشابہت اختیار کرنے اور غیر اللہ، یعنی کسی پتھر ، درخت یا انسان سے امید یں پوری ہونے کا عقیدہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور کفار و مشرکین کی مشابہت سے بھی روکا۔
(7) بچوں کے عقائد کے معاملے میں والدین ، اساتذہ ، بڑے بھائی،بڑی بہنیں ،
پھوپھیاں؛ سبھی کو چاہیے کہ گفتگو کا موضوع بنائیں اور گھروں میں بیداری کا عام ماحول بنائیں ،تاکہ بچے دوست واحباب کے درمیان بھی عقائد سے کوئی مفاہمت نہ کریں۔

Normal

Normal

English Text

Arabic Text

Urdu Hightlight

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

5 Comments

  1. Taiba

    بیدار کرنے والی تحریر….

    Reply
  2. سیدہ سلمیٰ

    ماشاءاللہ بہترین تحریر ہے.
    کئی گورنمنٹ اسکول کے اساتذہ کا ان مشکلات سے سامنا ہے. جو اساتذہ دینی فہم و شعور رکھتے ہیں ان کیلیے یہ صورتحال بڑی چیلنجنگ ہے،اور بڑی حد تک وہ لوگ struggle بھی کررہے ہیں.اللہ تعالیٰ انھیں ثابت قدمی اور مقصد میں کامیابی عطا کرے.
    آپ کی تحریر ایسے لوگوں کیلیے کڑی دھوپ میں پھوار کا کام کرے گی ان شاءاللہ.

    Reply
  3. سیدہ سلمیٰ

    تحریر کے آخر میں شرک سے روکنے اور رک جانے اور اس کیلیے مشکلات کا سامنا کرنے اور ڈٹے رہنے والوں کیلیے دنیا و آخرت میں کیا انعامات ہیں اس کا بھی تذکرہ کیا جاتا تو یہ اس راہ میں کام کرنے والوں کیلیے ہمت افزائی اور حوصلہ بخشنے کا ذریعہ بھی بنتی.

    Reply
  4. سلمیٰ

    تحریر کے آخر میں شرک سے روکنےاور رک جانے والے اور اس کیلیے ثابت قدمی سے مصائب و مشکلات کاسامنا کرنے والوں کیلیے دنیاوآخرت کے انعامات کا بھی تذکرہ کیا جاتا تو اس راہ میں جدوجہد کرنے والوں کیلیے ہمت و حوصلہ کا باعث ہوتا.

    Reply
  5. Naseem Sultana

    Alhumdulilah padh kar bahut taqweet Meli k humere writers bahut hi qabeel hain aur is topic ko bahut accha explain kiyaAllah aap ko iss ka bhtreen ajer de Ameen summa ameen ?

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے