أكتوبر ۲۰۲۳

فیشن کے لفظی معنی وضع قطع ، طور طریقہ یا رواج کے ہیں، اور اس سے مراد وقتی طور پر اختیار کیا گیا کسی بھی کام کا وہ طریقہ ہےجو مشہور ہو جائے،اور نفسیات وہ علم ہے جس میں دماغ اور اس کے کام کرنے کے طریقے کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔انسان کے ہر ارادے کا آغاز اس کے مرکز دماغ سے ہوتا ہے ، اور اس کے ہر فعل کے اثرات اس کی نفسیات پر مرتب ہوتے ہیں۔
آیئے! دیکھیں کہ انسانی نفسیات یا اس کی شخصیت پرفیشن کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟انسان کو کائنات میںموجود چیزوں کی خوبصورتی کا احساس ہو نہ ہو، لیکن خود کے حسن و جمال کا تو وہ قائل ہے، اور نہ صرف قائل ہے بلکہ دوسروں کو قائل کروانے، اس کےذریعہ پیسہ کمانے ، تجارت چمکانے، اپنے نظریات کو پھیلانے ، جذبات کوبہکانے یا بھڑ کانے کےلیے وہ ’’حسن‘‘ کا بہت زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ اس کے لیے باضابطہ ایک میدان فیشن کی دنیا (Fashion Industry) وجود میں آگئی ہے، جو ہزاروں رسالوں، سیکڑوں ٹی وی چینلز ، انٹرنیٹ، اخبارات اور اشتہارات کے ذریعہ پھل پھول رہی ہے۔ فلمی دنیا، حسن کے مقابلے اور فیشن شوز اس کو اور غذا فراہم کر رہے ہیں۔ یہ فیشن کا جادو آج نوجوانوں کے سرچڑھ کر بول رہا ہے،اور فیشن انڈسٹری کا اصل ہدف نوجوان ہی ہیں۔ وہ انھیں مصنوعات کی جانب راغب کرنے کےلیےماڈلس، ادا کاروں یا کھلاڑیوں کا سہارا لےکر ان مصنوعات کو نیوٹرنٹس میں شامل کرتے ہیں، اور اس طرح نوجوان (Fashionable) اور ترقی یافته (Modern)کہلانے کے جوش میں ان مصنوعات کو خریدتے ہیں، اور اس طرح نوجوانوں کی خواہشوں اور آرزؤں کا استحصال کر کے صنعت کار، اداکار، ٹیلی ویژن، رسائل و اخبارات دولت سمیٹ رہے ہیں۔
جہاں نوجوان فیشن انڈ سٹری کے اہم صارف بنے ہوئے ہیں، وہیں اس نے ان کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔آج کا نوجوان اپنے آپ کو منفرد کہلانے کی چاہ میں طرح طرح کی حرکتیں کرتا ہے، کبھی وہ کپڑے اتنے چھوٹے پہنتا ہے کہ ستر نظر آنے لگتا ہے، یا اچھے کپڑوں کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر یہ آرزو پوری کرلیتا ہے۔ کبھی وہ اتنے باریک کپڑے پہنتا ہے کہ اندر کا جسم نظر آنے لگتا ہے ،یا نہیں تو یہ آرزو بہت ہی تنگ کپڑے پہن کر پوری کر لیتا ہے۔ کبھی مرد عورتوں کی طرح خوش رنگ لباس پہن کر، لمبے بال رکھ کر کان یا ناک میں بالی پہن کر مرکز توجہ بنناچاہتا ہے، تو کبھی عورتیں اپنے احساس کمتری کو دور کرنے کے لیےمردوں کے چال ڈھال اپناتی ہیں۔
نوجوانوں میں فیشن کی وجہ سے تقلیدی اور مرعوب ذہنیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ کسی ادا کار، کھلاڑی یا ماڈل کو دیکھ کر اس کی تقلید کو باعث فخر سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، وہ اپنے آئیڈیل کے رنگ و روپ ہی نہیں حرکات و سکنات کی بھی نقالی کرتے ہیں،اس کو اپنے ذہن پر سوار کر لیتے ہیں، اور ایک تصوراتی دنیا آباد کر لیتے ہیں۔ اس طرح وہ خود سے اور حقیقت سے دور ہوتے چلےجاتے ہیں۔
فیشن پرستی سے نوجوانوںکی نظریںظاہر ہی پر لگی رہتی ہیں۔ وہ کسی چیز کا گہرائی سے تجزیہ (Analysis) کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ وہ ساحل سمندر پر ہی اچھل کو دکر کے اتنا مسرور ہوتے ہیں کہ ان کو سمندر میں غوطہ زن ہونے اور موتیوں کےنکالنے کا خیال بھی نہیں آتا، سطحیت اور ظاہر پرستی ان کا خاصہ بن جاتی ہے، گہرائی اور سنجیدگی سے وہ دور بھاگتے ہیں۔ فیشن پرستی میں مبتلا نوجوان زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ہونے والی فیشن کی تبدیلیوں کو تیزی کے ساتھ قبول کرتے جاتے ہیں، جس سے ان میں ماحول کو رخ دینے اور رجحان گر (Trend Setter) بننے کی قابلیت نہیں پیدا ہوتی، بلکہ ماحول کے دھارے میں بہنے کی صفت پیدا ہوتی ہے۔
فیشن پرستی میں مبتلا نوجوان اپنے لباس اور اسٹائل کے سلسلے میں اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان کو بار بار اپنے نقش و نگار پر توجہ دینی پڑتی ہے۔ وہ اپنی ذات کے اتنے گردیدہ ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کے چہروں پر بھی اپنے ڈیکوریشن کے تاثرات تلاش کرتے رہتے ہیں۔سادگی پسند افراد کو حقیر نظروں سے دیکھنا اور احساس برتری کا شکار ہونا ، نئے فیشن کو اختیار کیے ہوئے لوگوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنا اور ان پر رشک کرنا اور احساس کمتری کا شکار ہونا ان کاشیوہ بن جاتا ہے۔لباس شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے، اگر کوئی اپنے لباس یا اسٹائل میں اپنے ذوق اور پسند کو نظر انداز کر کے دوسروں کے ذوق اور پسند کو خود پر مسلط کر لیتا ہے تو اس کی عقل و فہم کی خیر منانی چاہیے ۔ مستعار لی ہوئی پسند، ادھار لیے ہوئے ذوق ،نقل کیے ہوئے اسٹائل اور تقلید کیے ہوئے لباس کے ساتھ انسان خود اپنی شخصیت اور پہچان کہاں منوا سکتا ہے؟ وہ اپنی خود کی رائے اور خیال کیسے قائم کر سکتا ہے؟
شخصیت کی ارتقاء کے لیے خود کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے۔ اگر اس کو ظاہری پردوں میں چھپایا جائے تو شخصیت کی ارتقاء ممکن نہیں، اور اس طرح انسان دوہری شخصیت کا مالک بن جاتا ہے۔ کسی بھی کام کو کامیابی تک پہنچانے کے لیےمستقل مزاجی (Consistancy) بہت ضروری ہے۔ فیشن کے بار بار بدلتے ہوئے رجحانات (Trends) نوجوانوں میں تلون مزاجی پیدا کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اندر سے مستقل مزاجی رخصت ہو جاتی ہے۔فیشن پرستی کا دائرہ، نئی اصطلاحات اور نئے میدانوں کے ساتھ اور وسیع ہوتا جا رہا ہے ، اس کی پہنچ اخلاق و کردار سے لے کر سوچ ، فکر اور معیار زندگی تک ہے۔ آج اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں کو عین ترقی کی علامت، بے راہ روی کو روشن خیالی، منشیات کے استعمال کو اونچے لوگوں کی پسند، بے شرمی و بے حیائی کو بے باکی، فحاشی و انار کی کو آزادی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ فیشن کے نام پر ان خباثتوں کا طوفان نہ جانے کیا گل کھلائے گا؟
پاکی ، صفائی اور خوبصورتی فطری چیزیں ہیں۔ اسلام نے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے :
’’پاکی آدھا ایمان ہے۔‘‘ (مسلم)
’’ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔‘‘(مسلم)
قرآن شریف میں ہے :
’’اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔‘‘ (سورۂ مدثر )
’’نماز کے وقت اپنی زینت سے آراستہ رہو۔‘‘ (سورۂ اعراف)
اسلام کا تصورحسن(Sense of Beauty)ہیجان انگیز نہیں ،بلکہ پر مسرت اور پر سکون ہے۔ اس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور قلب کوراحت ملتی ہے۔ اسلام میں زیبائش و آرائش کامقصد بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مسرت واطمینان کا حصول بھی ہے۔ یہ نمود و نمائش، تکبر وریا کاری کا ذریعہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار یہ ہے۔ یہ دعوت گناہ یا بے راہ روی نہیں ،بلکہ جائز راستوں سے فطری جذبات کی تسکین میں معاون ہے۔غرض اسلام نے اچھے کپڑے پہننے اور پاکی و خوبصورتی اختیار کرنے سے روکا نہیں ،بلکہ اس کی تلقین فرمائی ہے۔ انسان اپنی منفرد خصوصیات کو قائم رکھتے ہوئے پاکیزگی و خوبصورتی اختیار کرے، زیب وزینت کا خیال رکھے اور غیر ضروری فیشن پرستی سے اپنے اخلاق وکردار، اپنی شخصیت اور ماحول کو آلودہ نہ ہونے دے۔

٭ ٭ ٭


نوجوانوں میں فیشن کی وجہ سے تقلیدی اور مرعوب ذہنیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ کسی ادا کار، کھلاڑی یا ماڈل کو دیکھ کر اس کی تقلید کو باعث فخر سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، وہ اپنے آئیڈیل کے رنگ و روپ ہی نہیں حرکات و سکنات کی بھی نقالی کرتے ہیں،اس کو اپنے ذہن پر سوار کر لیتے ہیں، اور ایک تصوراتی دنیا آباد کر لیتے ہیں۔ اس طرح وہ خود سے اور حقیقت سے دور ہوتے چلےجاتے ہیں۔
فیشن پرستی سے نوجوانوں کی نظریں ظاہر ہی پر لگی رہتی ہیں۔ وہ کسی چیز کا گہرائی سے تجزیہ (Analysis) کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے