أكتوبر ۲۰۲۳
زمرہ : النور

  أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِیُّ حَدَّثَنَا جَدِّی حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنِی مَالِکٌ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- أَنَّہُ قَالَ : مَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ مَظْلَمَۃٌ لأَخِیہِ فَلْیَتَحَلَّلْہُ مِنْہَا فَإِنَّہُ لَیْسَ ثَمَّ دِینَارٌ وَلاَ دِرْہَمٌ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُؤْخَذَ لأَخِیہِ مِنْ حَسَنَاتِہِ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ لَہُ حَسَنَاتٌ أُخِذَتْ مِنْ سَیِّئَاتِ أَخِیہِ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی أُوَیْسٍ.

( حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیے کہ اس سے معاف کروائے؛اس لیے کہ آخرت میں درہم و دینار نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو (مظلوم ) کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔)(صحیح بخاری2449۔3534)

’’ظلم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ۔عربی لغت میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے:

الظلم،وضع الشیٔ علی غیر موضعہ

 یعنی ظلم کا مطلب ہے کسی بھی چیز کو اسک کی اصل جگہ سے ہٹاکر رکھنا ۔ظلم کے اصطلاحی معنی یہ ہے کہ کسی بات یا معاملات میں کمی بیشی جو حق و انصاف کے خلاف ہو،زبردستی کسی کی کوئی چیز لے لینا ،کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوز کرنا ،گم راہی ،غلط کاری۔
پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہےکہ ظلم حرام ہے ۔نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے ارشاد فرمایا اے میرے بندو، میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے، لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو (صحیح مسلم ، باب تحریم الظلم)
علماء کرام نے ظلم کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
1. شرک، یعنی اللہ کے ساتھ اس کی عبادت وصفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔یہ ظلم کی سب سے سنگین قسم ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:

 ان الشرک لظلم عظیم (سورہ لقمان: 13)

ایسا سنگین جرم کہ اگر انسان شرک سے توبہ کیے بغیر مر جائے تو قیامت کےدن اس جرم عظیم کے لیے معافی نہیں ۔اللہ کا فرمان ہے:

 ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء ومن یشرک باللہ فقد افتری اثماًعظیماً °

(بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا جو اس کا شریک ٹھہرائے اور شرک کےعلاوہ دوسرے گناہ جسے چاہے بخشتاہے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا، اس نے بڑا ہی گناہ کیا ۔)(سورہ نساء : 48)
2.حقوق اللہ میں کوتاہی کرنا ۔گناہ کا ارتکاب کر کے اپنے اوپر ظلم کرنا۔یہ ظلم کی وہ قسم ہے جس کی بخشش ہو سکتی ہے ۔
3.تیسری قسم کا ظلم حقوق العباد کی حق تلفی ہے ۔اس ظلم کی معافی نہیں ۔چنانچہ قیامت کے دن ظالموں سے مظلوموں کے حق دلوائے جائیں گے، یہاںتک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلہ دلوایا جائےگا ،اگر اس نے بغیر سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا ہوگا۔ (صحیح مسلم : 2582)
ظلم کی پہلی دو قسموں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ،اور تیسری قسم کا تعلق حقوق العباد سے ہے ۔اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے متعلق اپنا اصول بیان کیا ہےکہ اگر ان میں کوتاہی ہو جائے اور اگر بندہ ان کو ادا نہ کرسکے تو صرف توبہ واستغفار سے معاف نہیں ہوتے ،جب تک کہ ان حقوق کو ادا نہ کرے یا جس بندے کے حقوق میں کوتاہی کی ہے ،وہ معاف نہ کردے ۔لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی انسان پر کسی بھی حال میں ظلم نہ کرے ۔
اگر ظلم ہوگیا ہے تو دنیا میں اس کی تلافی کی کوشش کرے ۔ظلم نہ کرنا اور ظالم کو ظلم کرنے سے حکمت کے ساتھ روکنا بھی ہماری شاندار روایات کا حصہ ہے ۔
نبی کریم محمد صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایاکہ اپنے بھائی کی مدد کرو ،خواہ وہ ظالم ہو مظلوم ۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ،ہم مظلوم کی مدد تو کر سکتے ہیں، لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپﷺ نے فرمایا اس کاہاتھ پکڑلو (یعنی اسے ظلم کرنے سے روک دو) (صحیح بخاری ،باب :اعن اخاک ظالماً او مظلوماً )
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ حقوق العباد میں کوتاہی نہ صرف یہ کہ آخرت میں سخت باز پرس کا سبب بنے گی بلکہ اللہ تعالی ٰکے ادا کیے ہوئے حقوق بھی اکارت ہو جائیں گے ۔ ان عبادتوں کا ثواب ان مظلوم بندوں کو دے دیا جائےگا ،جن کے حقوق ان عبادت گزار بندوں نے پامال کیےہوں گے، اگر ظلم و زیادتی کی تلافی ظالموں کی نیکیوں سے نہ ہوسکی تو مظلومین کے گناہوں کا بوجھ ظالموں کے سروں پر ڈال دیا جائےگا ۔ارشاد نبوی ہےکہ نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے صحابہ ٔکرامؓ سے فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو فقیر کون ہے؟ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا کہ فقیر تو وہ ہے جس کے پاس پیسہ کوڑی نہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں در اصل فقیر وہ ہے، جو کل قیامت کے دن نماز، زکوٰة اور حج کی عبادتیں لےکرحاضر ہوگا لیکن دنیا میں کسی کو گالی دی تھی ، کسی پر جھوٹا الزام لگایا تھا ،کسی کا ناحق مال لیا تھا، کسی کی عزت پر حملہ کیا تھا، کسی کو ظلماً مارا تھا ، کسی کو ناحق قتل کیا تھا ۔اب قیامت کے دن ہر مظلوم آدمی اس ظالم کی نماز ،روزہ ، حج اور زکوٰة کے ثواب سے اپنا حق لےگا، سب کا حق ادا ہوگیا تو ٹھیک ہے، ورنہ باقی مظلوموں کے گناہوں کو سمیٹ کر اس ظالم پر ڈال دیا جائےگا اور جہنم میں دھکیل دیا جائے گا ۔(صحیح مسلم، باب تحریم الظلم)
قرآن و حدیث میں حقوق العباد تفصیل سے بیان کیے گئے اور ان کی حق تلفی پر سخت باز پرس کی وعید بھی سنائی گئی ۔افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب اتنے روشن احکام کے باوجود مسلم معاشرے میں حقوق العباد کی حق تلفی کو گناہ شمار ہی نہیں کیا جاتا ۔مسلم معاشرے کی اکثریت نے دین کو بس نماز ، روزے اور حج تک سمیٹ دیا ہے ۔حقوق العباد کی حق تلفی کی ایک لمبی فہرست ہے ،تاہم یہاں ان چند حقوق کا ذکر کر دینا مناسب ہوگا جن کی حق تلفی کثرت سے ہو رہی ہے :

1.زمین پر قبضہ جمانا

زمین پر ناحق قبضہ کرنا یا کسی کی مینڈ کاٹنا ہمارے معاشرے میں عام ہے ۔نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم کا فرمان ہےکہ جو شخص ایک بالشت بھی زمین ناحق غصب کرےگا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا اتنا حصہ اس کے گلے کا طوق بنا دیں گے ۔(صحیح مسلم: 1610)
اس حدیث کے ضمن میں مسلم شریف میں ایک انتہائی عبرتناک واقعہ ذکر کیا گیا ہے، اس حدیث کے راوی حضرت سعید بن زیدؓ کے خلاف اروی نامی عورت نے ایک زمین کے بارے میں مقدمہ کردیا ،تو حضرت سعیدؓ نے فرمایا زمین کو اس عورت کے ساتھ چھوڑ دو، کیونکہ میں نے رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ جس نے کسی کی ناحق زمین غصب کی تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ساتوں زمینوں کا اتنا حصہ اس کےگلے کاطوق بنادیں گے (پھر بددعا دی)اور کہا کہ اے اللہ،اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کو اندھا کردے اور اس کی قبر اس کی زمین میں بنادے ۔حضرت سعیدؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو اندھا دیکھا ،وہ دیواروں کو پکڑ کر چلتی تھی اور یہ کہتی تھی مجھے سعید کی بددعا لگ گئی ۔ایک دن وہ اپنے احاطے کے کنویں کے پاس سے گزر رہی تھی کہ کنویں میں گر گئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا (صحیح مسلم: 1610)

2. یتیم کا مال کھانا

یتیم کا مال ناحق کھانا گناہ کبیرہ اور سخت حرام ہے ۔عموماً یتیم بچے اپنے تایا اور چچا کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ۔اللہ کا فرمان ہے :

ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلماً انما یاکلون فی بطونھم ناراً وسیصلون سعیراً ٠

(بے شک جو لوگ ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، در حقیقت وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔) (سورہ نساء : 10)
نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم کا فرمان ہےکہ مسلمانوں کے گھروں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے اچھا سلوک کیا جائے، اور مسلمانوں کے گھروں میں سب برا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے برا سلوک کیا جائے۔ (ابن ماجہ ،باب حق الیتیم : 3679)

3. بہنوں اور بیٹیوں کو میراث سے محروم کرنا

اسلام سے پہلے عورت کو میراث میں حق نہیں ملتا تھا ،لیکن اسلام نے عورتوں کو بھی میراث کا حق دار بنایا ،اور ا س حکم کی اطاعت پر جنت اور فوز عظیم کا وعدہ فرمایا ہے اور نافرمانی و حدود اللہ کی پامالی کی صورت میں ہمیشہ کی آگ اور عذاب مہین کی سزا سنائی ہے ۔بیٹیوں یا بہنوں کو جہیز یا عیدی کا پیسہ دےکر یہ باور کرایا جاتا ہےکہ تمہاری جائےداد کا حصہ اس میں ختم ہو گیا ۔ یہ سراسر اللہ کے وضع کردہ ضابطۂ میراث کی کھلی نافرمانی ہے ۔جہیز اسلامی شریعت کا حصہ نہیں، لہٰذا جہیز وراثت کا بدل نہیں ہوسکتا ۔

قرآن کا ارشاد ہے:ادخلوا فی السلم کافة

(اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ ۔)(سورۃ البقرہ)
بہنوں ،بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنا قطع رحمی بھی ہے اور غصب مال تو باطل طریقے سے مال کھانے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔(سورۃ البقرہ : 188)
نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم کا فرمان بھی ہےکہ یقیناً تمھارے خون،تمھارے مال و دولت اور تمھاری عزتیں تم پر (یعنی ایک دوسرے پر)حرام ہیں ۔(صحیح بخاری : 6043)

4. عہدے میں خیانت

امانت کی بات ہو تو لوگوں کاذہن صرف اس طرف جاتا ہےکہ اگر کسی نے کچھ روپیہ یا مال واسباب یا دیگر کوئی اور چیز ہمارے پاس رکھ چھوڑی ہے تو ہم اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے تو بلاکسی کمی کے ہم اسے واپس کر دیں ۔بلا شبہ یہ بھی امانت داری ہے، لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور یہیں تک محدود نہیں ،بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے ۔
امانت داری کا اطلاق سیاسی اور انتظامی امور میں بھی ہے ۔ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے ۔وزیر اعظم سے لےکر گاؤں کے پردھان تک سب امانت دار ہیں۔ایک کلرک سے لےکرصدر مملکت تک ہر چھوٹا بڑا حاکم ، رءساووزراء سب امانت دار ہیں ۔ان پر لازم ہےکہ جو عہدے انھوں نے اپنے ذمہ لیے ہیں، ان سے عوام کے جو حقوق وابستہ ہیں، ان کا خیال رکھیں، ان میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں ۔بروز جزا اللہ رب العزت ایک ایک عہدہ اور ذمہ دار سے اس کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں حساب لینے والا ہے ۔
نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم کا فرمان ہےکہ تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ما تحتوں کے بارے میں سوال ہوگا ، لوگوں کا حکمراں ان کا نگراں ہے، اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگراں ہے۔ اس سے ان کےبارے میں سوال کیا جائےگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولاد کی نگراں ہے۔ اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائےگا اور آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، پس تم میں سے ہر ایک شخص نگراں ہے، اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا۔ (صحیح مسلم : 1201)
ایک دوسری حدیث میں ان سوالات کی نوعیت کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ہر نگراں سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال کرےگا کہ کیا اس نے اس کی حفاظت کی ہے یا اسے ضائع کر دیا ہے ۔
(صحیح ابن حبان، کتاب السیر)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہےکہ سیاسی حکمران اپنی رعایا کے متعلق جواب دہ ہوں گے کہ آپ نے اپنے عہدہ کے مطابق اپنی رعایا کے لیے کیا کام کیا؟موجودہ دور میں سیاسی عہدوںکی امانت میں سراسر خیانت کی جا رہی ہے ۔
رعایا ظلم کی چیختی تصویر نظر آرہی ہے، جسے ہر سیاسی لیڈر نظر انداز کرکے دھاندلی میں مصروف ہے ۔نتیجہ یہ ہےکہ آج بھی بہت سے گاؤں بجلی سے محروم ہیں ،علاج آج بھی ان کےلیے ایک مسئلہ ہے،اعلیٰ تعلیم کے لیے بچوں کو درو دراز شہروں میں بھیجنا ان کی مجبوری ہے ،کچی سڑکیں اور نالیوں کا بہتا گندا پانی علاقے کے ذمہ داران کا منتظر ہے ،مگر عہدیداران ان سب سے بے خبر اپنی جیبیں بھرنےمیں مصروف ہیں۔ اپنی مقرر تنخواہ سے زیادہ لینا یا متعلقہ شعبہ کے اشیاء و اموال جو در حقیقت عوام کا سرمایہ ہیں ،ان کو اپنے مقصد میں استعمال کرنا عوام پر صریح ظلم ہے اور عہدہ سے خیانت بھی ہے۔
نبی کریم محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایاکہ ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیں اور ہم اس کی تنخواہ مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقررہ حصہ سے جو زیادہ لےگا وہ خیانت ہے ۔(سنن ابی داو‘د، کتاب الخراج و الفی والامارة)
یہ حقوق العباد کی حق تلفی کی محض ایک جھلک تھی ۔ضرورت اس بات کی ہےکہ حقوق العباد سے لاپرواہی اور ان کی حق تلفی کے تعلق سے عوام کو بیدار کیا جائے۔یہ پیغام عام کیا جائے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرے، کہیں ایسانہ ہوکہ ہم ان کے حقوق ادا نہ کر سکیں اور کل بروز قیامت وہ ہماری نیکیوں کے حق دار ٹھہریں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہی اسلام کی منشاء اور دنیوی و اخروی کامیابی کی ضمانت ہے ۔اسلام اپنے معنی کے اعتبار سے بھی ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے ،اور دسروں کو بھی امن و سلامتی ، اعتدال و توازن کی تعلیم دیتا ہے۔اس میں کسی بھی فریق پر کسی بھی پہلو سے ظلم کا تصور ہی نہیں ہے ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


امانت کی بات ہو تو لوگوں کاذہن صرف اس طرف جاتا ہےکہ اگر کسی نے کچھ روپیہ یا مال واسباب یا دیگر کوئی اور چیز ہمارے پاس رکھ چھوڑی ہے تو ہم اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے تو بلاکسی کمی کے ہم اسے واپس کر دیں ۔بلا شبہ یہ بھی امانت داری ہے، لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور یہیں تک محدود نہیں ،بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے ۔امانت داری کا اطلاق سیاسی اور انتظامی امور میں بھی ہے ۔ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے ۔وزیر اعظم سے لےکر گاؤں کے پردھان تک سب امانت دار ہیں۔ایک کلرک سے لےکرصدر مملکت تک ہر چھوٹا بڑا حاکم ، رءساووزراء سب امانت دار ہیں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے