أكتوبر ۲۰۲۳
زمرہ : النور

 أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَاۤ اِكۡرَاهَ فِى الدِّيۡنِ‌ۙ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَىِّ‌ۚ فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا‌‌ ؕ وَاللٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞

(دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ہدایت گم رہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔ تو جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا، اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں ،اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔)
(سورۃ البقرہ : 256)

چونکہ قرآن شریف کی آیات ایک دوسرے سے باہم متصل اور متواتر وابستہ ہوتی ہیں ،چنانچہ درج بالا آیت کی تفسیر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سورہ ٔبقرہ کے موضوع بیان پر ایک نظر ڈال لیں۔
لا اکراہ فی الدین …
اس آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کا ایک سامان بھی ہے کہ ہدایت وضلالت دینے کا کام آپ کا نہیں، نہ ہی کسی بندۂ مومن کا ۔اللہ تعالیٰ نے حق و باطل سب کے سامنے واضح کر کے رکھ دیا ہے، اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے اس سے انکار کرے۔
ہم سورۂ بقرہ کے اسلوب پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ انداز بیان رکوع 32 سے ایک تقریر کے طور پر چل رہا ۔پہلے مسلمانوں کو دین حق کے قیام کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرنے پر اکسایا گیا ہے اور ان کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی، جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے تھے ۔پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں،بلکہ ایمان،صبر وضبط اور پختگی عزم پر ہے ۔پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،یعنی یہ کہ دنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیےوہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفاع کرتا رہتا ہے ،ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ واقتدار کا دائمی پٹہ مل جاتا ،تو دوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا ۔
پھر اس شبہ کو دفع کیاگیا ہے ،جو ناواقف لوگوں کے دلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغمبر اختلافات اور نزاعات کا سد باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے، اور ان کی آمد کے باوجود اختلافات نہ مٹے ،نہ نزاعات ختم ہوئے تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اس نے ان خرابیوں کو دور کرنا چاہا اور نہ کر سکا؟اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیت ہی میں نہ تھا، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اس کی مشیت کے خلاف چلتا ۔جو اسے مان لے گا وہ خود ہی فائدہ میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ آپ نقصان اٹھائے گا۔
مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر میں بڑے اچھے پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ’’ لا اکراہ‘‘ سے مراد یہاں پر جبر فطری کی نفی ہے ،نہ کہ جبر قانونی کی۔جیسا کہ بعض کم سواد آج کے زمانے میں اس سے مراد لیتے ہیں کہ چونکہ اسلام میں جبرواکراہ نہیں ،اس وجہ سے اسلام کے نام پر جو حدودوتعزیرات قائم ہیں ،یہ مولویوں کی من گھڑت ہیں ۔اس گروہ کے استدلال کو اگر مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی شریعت حدود وتعزیرات سے خالی شریعت ہے، جس میں ہر شخص کو چھوٹ ہے کہ جو چاہے کرے ،حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام میں حدودو تعزیرات کا ایک پورا نظام ہے ۔
اگر ایک شخص نماز نہ پڑھے ،روزے نہ رکھے تو اسلامی حکومت اس کو سزا بھی دے سکتی ہے ۔یہ چیز’’ لا اکراہ فی الدین‘‘ کے خلاف نہیں ہے ۔فتنہ وفساد کو خدا کی زمین سے مٹانے کے لیےاسلام نے اہلِ اسلام پر جہاد بھی واجب کیا ہے ،یہ چیز بھی ’’لا اکراہ فی الدین ‘‘کے منافی نہیں ہے ۔اس امر میں شبہ نہیں ہے کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے ،لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کے بعد بھی جو جی میں آئے کرتا پھرے اور اس پر گرفت نہ ہو ۔
لا دینی نظاموں میں مذہب کو نجی زندگی سے متعلق مانا جاتا ہے ۔جیسا کہ ہم آج کے ماڈرن دور میں آزادی ٔاظہار رائے کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برپا دیکھتے ہیں ۔یہاں حکومتوں کی نافرمانی پر سزائیں اور تعزیرات ہیں ،لیکن مذہب اور خدا سے بغاوت کی مکمل آزادی ہوتی ہے ۔اسلام میں مذہب کے پرائیویٹ زندگی سے مخصوص ہونے کا کوئی تصور نہیں ،بلکہ اسلامی حکومت اصلا ًخدا ہی کی حکومت ہوتی ہے اور ریاست کا سیاسی ادارہ صرف خدا کے احکام وقوانین کے اجراء ونفاذ کا ایک ذریعہ ہوتا ہے، بعض لوگ اس آیت کے ذریعہ جہاد کی نفی کرتے ہیں کہ اسلام میں جبرواکراہ نہیں ہے ۔یہاں بتاتے چلیں کہ جہاد اصلا ًفتنہ وفساد کے مٹانے کے لیے شروع ہوا ہے، اگر یہ چیز کہیں پائی جاتی ہے تو اہلِ اسلام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ استطاعت رکھتے ہیں تو اس فتنہ وفساد کو مٹانے کے لیے جہاد کریں ۔خاص طور پر اس فتنے کے لیےجو اہل کفر کے ہاتھوں اس لیے برپا کیا جائے کہ اہل ایمان کو ان کے دین سے پھیر دیا جائے اور اسلامی نظام کو برباد کیا جائے ۔اس فتنے کے استیصال کے بعد اسلام اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔

قد تبین الرشد من الغی …

آگے اس آیت میں مذکورہ آیت جبرو اکراہ کی نفی کی وجہ بیان ہوئی ہے ،کہ خدا کی طرف سے اتمام حجت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس نے اپنے نبی کے ذریعہ حق و باطل کو الگ الگ کر دیا ،اب اس کے بعد ذمہ داری لوگوں کی اپنی ہے ۔البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیےکہ جو لوگ اس وضاحت کے بعد بھی باطل سےچمٹے رہیں گے، ایک دن آئے گا کہ خود یہ باطل ان کا ساتھ چھوڑ دے گا ۔نہ ٹوٹنے والی رسی صرف ان کے ہاتھ میں ہوگی جو آج طاغوت (غیر اللہ) سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف یک سوہو جائیں ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


لا دینی نظاموں میں مذہب کو نجی زندگی سے متعلق مانا جاتا ہے ۔جیسا کہ ہم آج کے ماڈرن دور میں آزادی ٔاظہار رائے کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برپا دیکھتے ہیں ۔یہاں حکومتوں کی نافرمانی پر سزائیں اور تعزیرات ہیں ،لیکن مذہب اور خدا سے بغاوت کی مکمل آزادی ہوتی ہے ۔اسلام میں مذہب کے پرائیویٹ زندگی سے مخصوص ہونے کا کوئی تصور نہیں ،بلکہ اسلامی حکومت اصلا ًخدا ہی کی حکومت ہوتی ہے اور ریاست کا سیاسی ادارہ صرف خدا کے احکام وقوانین کے اجراء ونفاذ کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے