أكتوبر ۲۰۲۳

 اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

شام کی چائے لیے صحن میں بیٹھی شفق کی زبان پر بار بار یہ مصرع آرہا تھا ، لیکن اس کے ذہن کی رسائی اس شعر کی حقیقی مفہوم تک نہیںہو پا رہی تھی۔ تبھی اس نے اپنے بابا سے پوچھا:’’ بابا اس شعر کا مطلب کیا ہے؟‘‘
اس کے بابانے مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہنے لگے: ’’ فلا اقسم بالشفق‘‘ ( قسم ہے شفق کی ) شفق بیٹی! اِس وقت آسمان پر نظر آتی جو شفق ہے ،وہ آغازِ شب کی تاریکیوں کی آمیزش رکھتی ہے ، جس میں خدا نے اپنی مخلوق کو رات کی طرف لوٹنے کا حکم دیا، تاکہ وہ آرام و سکون حاصل کر سکے۔ بس بیٹا! اسی طرح خود کی ذات کو اُس خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہوئے تھکا دینا ہے، تاکہ ایک سکون کی آخرت مل سکے۔‘‘ شفق بہت انہماک سے یہ سب باتیں سن رہی تھی ،گویا اس کی سمجھ میں آرہی ہوں۔
شفق کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی تھی ، اس کے والد معلم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین داعی تھے ، یہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ، گھر میں بہت لاڈ پیار کے ساتھ ساتھ اسے ہر طرح کے آسائش میسر تھی۔ لیکن شفق نے کبھی اس کا بے جا فائدہ نہیں اٹھایا ، وہ بچپن سے ہی اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی رہی اور بڑی ہو کر ان کی طرح ایک داعیہ بننے کی خواہشمند تھی ، کیونکہ اسے ہمیشہ قرآن کی یہ آیت بہت خوف دلاتی تھی:
’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضرور ہے کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کام کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے لوگ پورے کامیاب ہوں گے۔‘‘(سورہ آلِ عمران:104)
تعلیم کے ساتھ ساتھ شفق ہر طرح سے تحریر و تقریر میں متحرک رہتی ، محلے میں چھوٹے چھوٹے پروگرام کرنا ، ہر چھوٹی بڑی جگہ پر شرکت کرنا ، گاہے بگاہے اپنے دوستوں کو دین کی باتوں سے آشنا کرتی رہنا ، اُس کا پسندیدہ معمول بن گیا تھا۔
یوں ہی دن گزرتے گئے اور شفق کی شادی ایک پڑھےلکھے طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں ہوئی۔ سسرالی زندگی بھی بڑی خوشحالی سے گزر رہی تھی ، لیکن جب شفق نے آہستہ آہستہ دین کا کام کرنا شروع کیا تو سسرالی لوگوں کو ناگوار گزرنے لگا، گھر والوں نے یہ اعتراض کرنا شروع کر دیا ، ان کے دل میں یہ خدشہ تھا کہ کہیں تحریک و دعوت کے کاموں میں مصروف ہوکر گھر کی ذمہ داریوں سے فرار نہ ہو جائے،اور ساس وغیرہ اس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔

 یہ شفق کی زندگی کا پہلا ایسا مرحلہ تھا جس میں خدا کی راہ میں خلل واقع ہوا اور اُسے چند مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ایسے ہی وہ وقتاً فوقتاً اس کو باتیں سناتیں تاکہ شفق گھر کی ذمہ داریاں پوری کر ے۔یہ وقت شفق پر بہت دشوار گزرنے لگا اور اس کو یہ غم کھانے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے دین کے کاموں سے پیچھے ہٹ کر دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جاؤں اور دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر مقصد حیات سے منہ موڑ لوں۔
لیکن اس نے سوچا کہ دنیا کی زندگی تو چار دن کی ہے، اور دائمی زندگی کی خوشی پانے کے لیے مجھے ’’ واستعینوا بالصبر ‘‘ پر گامزن ہوتے ہوئے ہر مشکل کا سامنا کرکے خود کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہوںگی ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ ان مع العسر یسرا .‘‘
بہرحال، شفق بہت خوش اسلوبی اور صبر و شکر کے ساتھ اپنے سسرالی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے دعوت کے کاموں کےلیے کوشاں رہی ، کبھی بھی خدا کی راہ میں خود کو تھکنے نہیں دیا ، ہمت نہیں ہاری ، دنیاوی آسائش کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا ، وہ سب کچھ سہتے ہوئے خاموشی کے ساتھ ’’ ادعوا الی اللہ ‘‘ میں رغبت حاصل کرتے ، خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کے لیے چمٹی رہی۔

کچھ عرصے بعد ساس کا انتقال ہو گیا ۔سسرالی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کے بعد شفق اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ الگ مکان میں رہنے لگی ،لیکن جیسے ہی وقت گزر رہا تھا شفق کے لیے یہ جملہ بھی ہمیشہ کانٹے کی طرح راہ میں حائل ہونا ہوگیاکہ شوہر کے حقوق پامال نہ ہو ں۔ حالانکہ وہ جانتی تھی کہ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ایک بیوی کی ذمہ داری ہے ، بشرطیکہ شوہر سبیل اللہ میں روکاوٹ کا سبب نہ بنے۔
خیر ،وقت کے ساتھ بچے بڑے ہوتے گئے ۔شفق بہت خوش ہورہی تھی کہ اب گھر کے کچھ کاموں میں بچے مدد کر سکیں گے، تاکہ میں اپنے دین کے کاموں کو بہترین طریقے سے جیسا کہ اس کا حق ہے، انجام دے سکوں گی،لیکن بعض اوقات جب شفق بچوں کو کسی بھی قسم کے گھریلو کاموں کا حکم دیتی تو غصہ کرتے اور وہ کہتے کہ آپ صرف ان ہی کاموں میں لگی رہتی ہیں ، ہمیں وقت نہیں دیتیں ، ہمارے ساتھ بیٹھتیںنہیں وغیرہ۔ اور ان باتوں سے شفق کو اپنی ساری امیدوں پر پانی پِھرتا نظر آتا، اوروہ سوچتی کہ زندگی تارِ عنکبوت ہے۔یہ آیت اسےبارہا یاد آتی :
’’تمہارے مال و اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں ۔‘‘
لیکن شفق کو اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا ، بچوں کو حکم نہ دے کر ، اُن کی ناراضگی کے خوف سے گھر کے کاموں کو اس نےخود سنبھالنا شروع کر دیا، تاکہ کہیں بچے غصے میں آکر دین کے کاموں سے بدظن نہ ہونے لگیں۔
الغرض شفق کی زندگی کا مقصد ہی خشیت الٰہی کے ساتھ رضاءالٰہی کا حصول تھا۔
خدا کی کتاب اور نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر خود چلتے ہوئے لوگوں کو اس کی طرف مدعو کرنے اور آخرت کی فکر میں گزرتا تھا۔
وہ جانتی تھی کہ عورت کی ذمہ داری صرف امور خانہ داری ، شوہر اور بچوں کی خدمت تک ہی محدود نہیں ہے ، بلکہ فریضہ ’’ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ‘‘ میں وہ مرد کے ساتھ یکساں شامل ہے۔ جیسا کہ فروغِ دعوت میں امہات المومنین اور صحابیات حضرت خدیجہ ، عائشہ صدیقہ ، فاطمۃ الزہراء ، سمیہ ، صفیہ ، اسماءرضی اللہ عنہن کا شمار صفِ اول میں ہے۔
ہر دور میں دین کے لیے لوگوں نے پریشانیاں جھیلیں ، طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں ، ہر قسم کی آزمائشوں سامنا کیا ، دین کی خدمت میں رکاوٹ کا حیلہ لگایا گیا‌، لیکن دین حق کی راہ میں تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، اپنے قدموں کو دین حق کے لیے پیچھے نہیں ہٹایا اور نہ ہی اپنے جذبے کو اسلام کی محبت سے عاری ہونے دیا،اور اسی پر تو علامہ اقبال نے قوم کو مخاطب کیا :

 اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن ، اپنا تو بن

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے