احکامِ پردہ قرآن وسنت کی روشنی میں(قسط:۲)
گھر سے باہر پردے کا حکم
اسلامی حجاب کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں قید کر دیا کہ وہ ہمیشہ اندر ہی رہیں اور کبھی باہر نہ نکلیں۔ جیسا کہ آج کے نام و نہاد روشن خیال اور جدید تہذیب کے علم برداروں کا خیال ہے۔ گزشتہ تفصیل سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ عام حالات میں عورت کے لیے گھر سے باہر نکلنا اسلام نے پسند نہیں کیا ہے، صرف کسی خاص ضرورت ہی کے لیے اس کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس خاص حالت میں بھی اگر گھر سے باہر قدم نکالنے کی اجازت دی ہے تو اس کے ساتھ کیا قید لگائی ہے؟ ایسی صورت میں عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے اوپر بڑی چادر ڈال لے اور اس کا گھونگھٹ چہرے پر لٹکا لے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَهُ غَفُورًا رَّحِيمً
( الاحزاب:۵۹)
’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے۔‘‘(13)
اس آیت مبارکہ میں گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں عورتوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اوپر جلباب ڈال لیا کریں۔ حجاب اور پردہ کی ہیئت ’’يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ‘‘میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکالیں۔ عربی زبان میں ’جلباب‘ اس بڑی چادر کو کہتے ہیں کہ جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور يُدْنِينَ جس کا مادہ ادنائی اور ادنیٰ ہے، کے معنی قریب کر لینے اور لپیٹ لینے کے ہیں ۔یہ لفظ جب حرف جر’ علیٰ‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی محض لپیٹ لینا نہیں ہوتا، بلکہ اس میں ہم اپنی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مرادگھونگھٹ نکالنا یا پلولٹکانا ہے۔ اس آیت کے اندر صرف چادر کو ڈال لینا مراد نہیں ہے، بلکہ چادر سے پورے جسم اور چہرے کو لپیٹ لینا مراد ہے۔ کیوں کہ جب پلو لٹکانے کی بات آتی ہے تو گھونگھٹ چہرے پر ہی لٹکایا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے یہ بات بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ چہرے کو ڈھانپنا ہی چہرے کا گھونگھٹ ہوتا ہے اور اس سے ہی چہرے کو ڈھانپنے اور اس کا حجاب کرنے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
یہاں اس آیت میں’’ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جس کا معنی محض چادر کا لپیٹ لینا ہی نہیں، بلکہ اسے جسم ولباس کے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ زینت وسنگھار وغیرہ بہت اچھے طریقے سے چھپ جائے اور اگر اس کی ضرورت کو دیکھا جائے کہ آج کل کے دور میں عورتوں کے مختلف اداروں، دفاتر، کالج وغیرہ میں مردوں کے ساتھ عام ڈیلنگ ہوتی ہے تو ہمیں اس آیت کی حکمت واہمیت کا اندازہ ہو جائے گا کہ ہمیں وہ سلیقہ سکھایا جارہا ہے، جسے اگر ہم اپنائیں تو یہ ہر طرح کے شروفساد سے محفوظ رہ سکیں گے اور معاشرے میں سکون و عافیت رہے گی اور ہماری شرم و حیاء، تقویٰ وطہارت اور پاکیزگی بدستور قائم رہے گی۔
اس سلسلے میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ اپنی تفسیر ’معارف القرآن‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :’’ اس آیت نے بصراحت چہرہ کے چھپانے کا حکم دیا ہے، جس سے اس مضمون کی مکمل تائید ہوگئی جو اوپر حجاب کی پہلی آیت کے ذیل میں مفصل بیان ہو چکا ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاں اگرچہ فی نفسہ ستر میں داخل نہیں، مگر بوجہ خوف فتنہ کے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔ صرف مجبوری کی صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ ‘‘(14)
مولا نا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفسیر تفہیم القرآن میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے، بلکہ یہ بھی فرمارہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں، کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصودگھونگھٹ ڈالنا ہے، تا کہ جسم ولباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چپ جائے۔‘‘(15)
مولانا امین احسن اصلاحیؒ ’ تدبر القرآن‘ میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی ہے کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تا کہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت نہ آئے، یہی جلباب ہے جو آج بھی دیہات میں شریف بوڑھی عورتیں لیتی ہیں۔ جس نے بڑھ کر برقع کی شکل اختیار کر لی ہے۔(16)اس آیت میں نبی کے گھرانوں کے علاوہ عام مسلمان عورتوں کو بھی چہرہ کے پردہ کا حکم دیا گیا ہے۔
ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ….

یعنی جب عورتیں اپنے چہرے کا پردہ کر یں اور چادر اوڑھیں گی تو اجنبی معلوم ہو جائیں گی۔ باہر نکلتے وقت معمولی لباس کے اوپر ایک بڑی چادر ڈال لینے کا رواج جس طرح ہمارے دیہات کے شریف گھرانوں کی بڑی بوڑھیوں میں رہا ہے، اسی طرح عرب کے باعزت گھرانوں میں بھی اس کا رواج تھا۔ یہ چادر سر سے پاؤں تک پورے جسم کو چھپالیتی تھی اور عورت لباس، اس کی زینتوں اور اس کے جسم کے محاسن کو ڈھانک لینے کے لیے مروجہ برقعوں سے زیادہ موزوں تھی۔ قرآن مجید نے یہ ہدایت کی کہ گھر سے باہر نکلنے کی نوبت آئے تو عورتیں بڑی چادر اپنے اوپر ڈال لیا کریں اور اس کا کچھ حصہ گھونگھٹ کی شکل میں چہرہ پر لٹکا لیا کریں۔ اس گھونگھٹ کی شکل حضرت عائشہ کے ایک بیان سے واضح ہوتی ہے۔ وہ حجۃ الوداع کے موقع کا ذکر کرتی ہوئی فرماتی ہیں:
كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله محرمات .فاذا حاذو ابنا سدلت احدا نا جلبابها من رأسها على وجهها . فاذا جاوزونا كشفناه. ’’حجاج کے قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھے، جب قافلے ہمارے سامنے آتے تو ہم سر کی طرف سے بڑی چادر کا کچھ حصہ چہرہ پر لٹکا لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو اس کو اٹھا دیتے۔‘‘(17)
یہی جلباب ہے، جس نے تمدن کی ترقی کے ساتھ مختلف قسم کے برقعوں اور نقابوں کی شکل اختیار کی اور مختلف مسلمان ملکوں میں اس کی مختلف شکلوں کا رواج ہوا۔ قرآن مجید کے اس حکم کے بعد نبی کریمؐ نے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں عورتوں کو ضمنی ہدایات دیں اور روزمرہ کی عملی زندگی میں مسلمان بیویوں نے بے چون و چرا ہدایات کی تعمیل کی۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد اسلامی سوسائٹی میں جوفوری تغیرات رونما ہوئے، اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے: عـن ام سلمه،قالت : لما انزلت يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ خرج نساء الانصار كان على رؤوسهن الغربان من الاكسية.’’حضرت ام سلمہ ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب قرآن کا حکم (وہ اپنے اوپر اپنی بڑی چادروں کے گھونگھٹ لٹکا لیا کریں ) نازل ہوا تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلیں کہ معلوم ہوتا تھا چادروں کے لٹکانے کی وجہ سے ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوئے ہیں ‘‘۔(18)
سورۂ النور میں بھی احکام حجاب بیان ہوئے ہیں۔ ان کا آغاز غض بصر کے حکم سے ہوا ہے۔ غض بصر کے معنی میں نگاہیں نیچی رکھنا اور نامحرمات پر نظر نہ ڈالنا۔ سورۂ النور میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ وَيَحْفَظُواْ فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرٌۢ بِمَا يَصْنَعُونَ(النور:۳۰)
’’اے نبی ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پا کیز ہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔(19)
نگاہ کی آوارگی زنا اور بدکاری کی طرف لے جاتی ہے۔ غض بصر بدکاری سے بچنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔اس سے تقوی ٰو طہارت اور نیکی کی راہ آسان ہوتی ہے۔ اس وجہ سے غض بصر کے ساتھ حفظ وفروج، یعنی شرم گاہوں کو بد کاری سے بچانے کا حکم ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں میں گہرا تعلق ہے۔ غض بصر کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے۔ چنانچہ مردوں کے بعد عورتوں کو اس کا حکم دیا گیا۔اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ وہ اپنی زیب وزینت کا اظہارسوائے قریب ترین افراد کے، کسی کے سامنے نہ کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ (النور :۱۳)
’’اوراے نبی ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ ‘‘
حواشی و مراجع
۱۳۔ نفس مصدر، جلد چہارم ،سورۃ الاحزاب، آیت ۵۹، ص۱۲۹۔۱۳۱۔
۱۴۔ مفتی محمد شفیع صاحبؒ، تفسیر معارف القرآن، جلد ہفتم،ص۲۳۴۔
۱۵۔ تفسیر تفہیم القرآن، جلد چہارم ص ۱۲۹۔۱۳۰۔
۱۶۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ، تفسیر تدبر قرآن، جلد ششم، فاران فاؤنڈیشن لاہور، پاکستان،۲۰۰۹, ص۲۶۹۔
۱۷۔ سنن ابی داؤد، کتاب المناسک، باب فی المحرمتہ تعظی وجھھا، حدیث نمبر ۱۸۳۳ ۔
۱۸۔سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ تعالی
( یدنین علیهن من جلا یبھن )، حدیث نمبر۴۱۰۱۔
۱۹۔ تفسیر تفہیم القرآن، جلد سوم سورۂ النور، آیت ۳۰ ،ص ۳۷۹۔
۲۰۔ نفس مصدر، سورۃ النور، آیت ۳۱،ص۳۸۳۔

’’ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے، بلکہ یہ بھی فرمارہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں، کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصودگھونگھٹ ڈالنا ہے، تا کہ جسم ولباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چپ جائے۔‘‘

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے