بھلا بتاؤ!
’’فرید بیٹا! آپ سے میں نے ایک کام کہا تھا !؟‘‘
بابا نے ضعیف العمری کے سبب، کپکپاتی آواز میں بیٹے سے پوچھا۔
’’ہوں…..کیا بابا؟‘‘ فرید نے موبائل سے نادیدہ گرد ہٹاتے ہوئےسوال نما جواب دیا۔
’’بیٹا میرے لیے چمڑے کے موزے…..مسح کرنے کے واسطے بولے تھے۔‘‘
بابا نے دھیرے دھیرے، کتنے وقفوں کے بعد بات مکمل کی۔
’’ہوں…..اچھا…..ٹھیک ہے…..میں کہہ دوں گا فاخر کو۔‘‘ہینڈ فری کانوں میں ٹھونستے ہوئے، بے ترتیب جملوں سے جواب کا تکلف کیا گیا تھا۔
بابا نے سر ہلا کر قرآن پاک کھول لیا۔
موسمِ سرما آچکنے کے بعد تیزی سے کھسکتا جارہا تھا، مگر بابا کے موزوں کی خرید ابھی تک التوا کا شکار تھی۔ اب تو لگتا تھا کہ سردیوں کے دن یوں ہی ٹھٹھرتے، سنسناتے گزر جائیں گے اور بابا یوں ہی تہجد کے لیے وضو کرتے ہوئے کھانستے رہ جائیں گے۔
شدید کھانسی، ایسی گویا انتٹریوں کو جکڑنے کے بعد اب کبھی لمحہ بھر کے لیے نہ چھوڑے گی۔ وہ تو ڈاکٹر نے نجانے کیوں مشورہ دے ڈالا تھا کہ بابا جی! آپ مسنون موزے خرید لیں، جن پر مسح کرنا جائز ہوتا ہے۔ یوں آپ ٹھنڈے پانی سے بچتے ہوئے موزوں پر مسح کرسکیں گے۔ لیکن شاید اب بابا یہ سوچتے ہوں کہ کاش ڈاکٹر صاحب دوا کی بجائے موزے ہی دے دیتے۔ کیوں کہ ایسی دوائی بھلا کس کام کی۔ جس کی آغوش میں پرہیز نام کی شئے نہ ہو؟ اور یہاں بابا نے بیٹوں پر کوئی لمبی چوڑی فرمائش تو نہیں لادی تھی ناں؟ کہ تکمیل کرنے میں کوئی پہاڑ سرکا نہ ہو۔
یہ تو بابا کی خودداری واحساس تھا کہ انھوں نے بھی سینہ کہا:
’’بیٹو! گیزر چلا دیا کرو، کیوں کہ اب تو ہلکے ٹھنڈے میٹھے موسم میں بھی میری ہڈیاں لرزی جاتی ہیں۔ یا گیزر نہ ہی سہی ، لوٹا بھر پانی ہی گرم کر دو کہ وضو میں کچھ آسانی ہو جائے گی ۔‘‘
کہہ بھی دیتے تو یہ کوئی ایسا ناممکن العمل کام تو نہیں تھا نا، لیکن یہاں بات باباکی ہورہی ہے….. بابا ! جو شاید محبت و الفت کا پہلا نام ہے۔وہی بابا جس سے لفظ سائبان کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ وہی بابا کہ بچوں کے تھوڑا بڑے ہوتے ہی جن کی اولین خواہش تھی کہ اب کارلینی ہے، تا کہ سردیوں میں اسکول جاتے ہوئے ، بچے بیمار نہ ہوں ۔
موسم بدلتے ہی بابا اپنے ہاتھوں سے گجریلا ، سوہن حلوہ ، پنجیری اور نہ جانے کن کن ذائقوں کو ڈبوں میں بھرے رکھتے تھے۔ اجازت عام ہوتی کہ چاہے بچے مٹھیاں بھریں یا پلیٹیں ۔
بابا مجسم ایثار و قربانی تھے اور شاید قربانیوں اور ایثار کا دور ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ نا قابل برداشت سردیوں میں وہ اپنے بیٹوں کے رحم وکرم پر تھے۔ بقول ان کے ایک ضروری’’ ضرورت‘‘ نے بلا وجہ انھیں آن گھیرا ہے۔
موزے….. جو جانے کون سا بیٹالائے؟
فرید نے فاخر سے کہا….. فاخر نے فاران پر حکم چلایا….. تو بیٹھے بیٹھےفاران نے اپنے سے چھوٹے فرہاد کے ذمے لگا دیا۔
حالاں کہ فریضہ یہ تھا کہ سب بچے بغیر کہے بابا کی ضرورت تو کیا ہر خواہش پوری کرتے ، کیوں کہ اب بابا بوڑھے ہو چکے تھے۔ قرآن کی زبان میں بچوں کی طرح ہوگئے تھے۔ لیکن یہاں دستور کی طرح بڑوں نے بالترتیب چھوٹوں پر حکم صادر کیا تھا اور نتیجتاً کام اب تک نہ ہوا۔
مگر …..بابا…..بیٹھے بیٹھے اس خیال سے مسکرا اٹھے کہ سب نے ایک دوسرے کو کہہ رکھا ہے….. کہیں ایسا نہ ہو کہ چاروں ہی موزے اٹھا لائیں۔ اس بے ضرر خیال کی وجہ سے بابا دیر تک سوچتے رہتے کہ ماشاءاللہ چار بیٹوں کا کتنا فائدہ ہے۔ لیکن بتاؤ بھلا موزوں کے چار جوڑوں کا میں کروں گا کیا؟ ہوں، چلو ایسا کروں گا کہ دو دامادوں کو اور ایک کسی ضرورت مند کو دے دوں گا، جس کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ بس اللہ کرے آج کسی بچے کو بابا کا یہ کام یاد آہی جائے!
لحاف میں لپٹے بابا شدید کہر پر نظر دوڑاتے ہوئے دعا کرتے۔
لیکن قارئین! ہمارے خیال میں تو بابا کو نقصان ہی اس بات کا تھا کہ ان کے چار بیٹے تھے ، ایک دوسرے کے آسرے پر جنت کمانے کی دھن مدھم ہوچکی تھی۔
آپ کو چار کا مطلب پتا ہے؟
یعنی ایک کام کی عرضی چار جگہوں پر پیش کرنے کے باوجود سراپا انتظار بنے رہنا۔مگر بابا کو تو ایک ہی بہا نہ ملتا ہے کہ بچوں کے لاپروائی و غفلت ہو ہی جاتی ہے اور ویسے بھی بھول چوک انسان ہی کا خاصا ہے۔
یہ بابا بھی ناں…..گویا مثبت سوچ کا مستحکم پہاڑ ہیں۔
خیر بابا کا اپنے پر بے پایاں یقین ہی تھا کہ آج جانے کیسے فاران موزے لے ہی آیا۔
’’بابا! آپ کے پاؤں کا نمبر نو ہے ناں؟ فاران نے سوال کیا۔
جواباً بابا نے ڈھیلی مسکراہٹ سے دائیں بائیں نفی سر ہلایا۔’’نہیں بیٹا! جو ناپ تمہارا ہے، وہی میرا ہے۔‘‘
نجانے کیوں بابا کے لہجے میں آج رنج کی آمیزش تھی۔ اُدھر فاران کو ذرہ بھر حیرت نہ ہوئی۔ کیوں کہ اس کے خیال کے مطابق تو بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا دھیان باپ کو رکھنا ہی ہوتا ہے۔
’’افوہ…..آٹھ نمبر…..اور یہاں میں نمبر نو اٹھالایا۔‘‘
فاران نے جھنجھلاکر پیکٹ ایک طرف پٹخا۔
اور یہاں بابا احساس مروت کے مارے فوراً تلافی کے لیے بولے:
’’کوئی بات نہیں بیٹا! کام چلا لوں گا۔ ویسے بھی مجبوری کی وجہ سے پہننے ہیں، کوئی فیشن تھوڑی ہے۔ آٹھ نہیں تو نو سہی۔‘‘
فاران نے ٹھوڑی کھجاتے ہوئے، فقط ہمم کہہ کر گویا رضا مندی دی۔
کمرے کے پاس سے گزرتے فاخر نے شاید بابا کی آخری بات سن لی تھی، تبھی چوکھٹ میں کھڑے کھڑے بولا:
’’بابا! آپ ایسا کریں مجھے دے دیں۔ صبح کو تو میرے لیے بھی وضو کرنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ کے لیے فرید بھائی صحیح ناپ کے موزے لے آئیں گے، جس سے آپ کمفرٹیبل محسوس کریں گے اور…..‘‘
ادھر بابا فاخر کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے شفیق ہاتھوں سے موزوں کا پیکٹ اسے تھما چکے تھے اور وہاں فاخر نے یوں لیا، گویا اس نے اپنا کام کروا کے الٹا اپنے تئیں بابا پر کوئی احسان کر دیا ہو۔
فاران ہلکا سا گھورنے کے بعد اتنا بولا:
’’ابا سے ضرور لینے تھے تم نے؟ پہلے بمشکل وقت نکال کر میں خرید پایا تھا۔ حد ہوتی ہے ۔‘‘
کوفت سے کندھے اچکا کر وہ باہرنکل گیا۔
بابا نے تسلی آمیز انداز میں فاخر کی پیٹھ تھپکی اور محبت سے بولے:
’’ارے اس کی تو عادت ہے بگڑ نے کی۔ تم دل چھوٹا مت کرو، فرید لے آئے گا ناں!‘‘
منہ بسور کر فاخر نے’’اٹس اوکے‘‘کہہ کر بابا پر گویا ایک اور احسان کیا اور وہاں سے اٹھ گیا۔
اور ادھر سادہ لوح امید میں پالنے والے بابا ایک بار پھر بیٹھے بیٹھےمسکرا اٹھے۔ ایسے ہی فاران خار کھا رہا تھا، حالانکہ میں جانتا ہوں، شام ہونے سے پہلے خود ہی موزے لے آئے گا اور فاخر کا انداز بتارہا تھا کہ تلافی کے لیے وہ بھی خرید لائے گا۔
’’افف میں نے فرید اور فرہاد کونہیں بتایا کہیں وہ بھی لے کر نہ آجائیں۔‘‘
پھر اس خوش گمانی بھرے خیال پر بابا پہروں یہ سوچتے رہے کہ بھلا بتاؤ ؟ میں اکیلی جان موزوں کے چار جوڑوں کا کروں گا کیا…..؟‘‘

فرید نے فاخر سے کہا….. فاخر نے فاران پر حکم چلایا….. تو بیٹھے بیٹھےفاران نے اپنے سے چھوٹے فرہاد کے ذمے لگا دیا۔
حالاں کہ فریضہ یہ تھا کہ سب بچے بغیر کہے بابا کی ضرورت تو کیا ہر خواہش پوری کرتے ، کیوں کہ اب بابا بوڑھے ہو چکے تھے۔ قرآن کی زبان میں بچوں کی طرح ہوگئے تھے۔ لیکن یہاں دستور کی طرح بڑوں نے بالترتیب چھوٹوں پر حکم صادر کیا تھا اور نتیجتاً کام اب تک نہ ہوا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے