اسلاموفوبیا اسباب اور حل

مسلمان بحیثیتِ مجموعی دنیا کی بہترین جماعت ہیں۔ وہ شراب اور منشیات سے پرہیز کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔ اجتماعی طور پر دنیا کی سب سے زیادہ خیرات (Charity) بانٹنے والی جماعت، مسلمانوں کی ہے۔لیکن یہ مغربی دنیا کی چشمک بینی ہے کہ وہ چند بد دیانت، دھوکہ باز اور بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو یوں پیش کرتے ہیں گویا دنیا بھر کے مسلمان ایسے ہی ہیں ۔ ایسے میں حسنِ فکر اور حکمت کی تلوار ہی سب سے بڑی تلوار ہے ۔ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو فتح کرنے والی تلوار در حقیقت حکمت اور دانش کی وہ قاطع تلوار ہی ہے، جس کے زور سے اسلام اشاعت پذیر ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کرو لوگوں سے ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔ بے شک تیرا رب ہی خوب جانتا ہے اس کو جو بھٹک گیا اس کے راستے سے اور ان کو جنہیں ہدایت میسر آگئی۔‘‘ (النحل:125)
قرآن مجید نے مسلمانوں کو ’خیر امت‘ کہا ہے اور بلاشبہ مسلمان کو ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنا وقت خیر و بھلائی کے کاموں میں گزاریں، جو اسے انحراف و الحاد سے روکتے ہیں ۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ اخیر عہد کے مسلم قائدین و حکام اور اسلامی تحریکوں و جماعتوں کے ذمہ دار بھی مغرب کی تہذیبی و فکری یلغار اور
غیر اسلامی ذہنیت و تربیت سے متأثر ہوکر درد مند اور انسان دوست اسلامی تعلیمات کا لحاظ نہیں رکھ پائے۔ حیرت تو یہ ہے کہ انسانی زندگی کے ان روشن پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں داعیوں کی جانب سے بھی کوتاہی پائی گئی ہے، جس کی وجہ سے عالمی تناظر میں اسلام دین فطرت کی بجائے دہشت گرد مذہب کے پیرائے میں پیش ہوا۔ اس کے نتیجے میں اسلام دشمن عناصر نے ان اخلاق و معاملات کو اسلام کے خلاف پروپگنڈہ میں استعمال کیا ۔ نتیجتاً اسلام سے ڈر اورخوف کا ماحول روز بروز عام ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا میں اس وقت جو مسائل و مشکلات ہیں، وہ مغربی تعلیم کا نتیجہ ہیں۔ جب تک خارجی تسلط باقی ہے، تب تک امن و سلامتی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی امید کرنا فضول ہے۔ عالم اسلام میں غیر اسلامی افکار و نظریات کو ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔
عالم اسلام کو درپیش بے شمار مسائل میں سے چند مسائل ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں:
اسلاموفوبیا
مسلمانوں سے یہ خوف و نفرت مغربی میڈیا کی دین ہے، جو مسلمانوں کے ہر عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مغربی میڈیا کے اس معاندانہ رویہ کی وجہ سے قرآنی درس گاہیں، مساجد، دینی مدارس، مذہبی اجتماعات و مذاکرے اور اسلام کی روز افزوں مقبولیت یورپ میں بے چینی کا سبب بن گئے ہیں ۔ حکومتوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ان کی دینی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ حالاں کہ اپنے مذہب پر عمل کرنا ہر شہری کا جائز حق ہے۔ اکثر ممالک میں، جہاں جمہوری نظام قائم ہے، وہاں مسلمانوں کی تمام کوششیں اپنے جائز حقوق کی حصول یابی کے لیے ہیں، نہ کہ ملک پر قبضہ کر نے کے لیے جیسا کہ بعض عناصر اس طرح کا پروپگنڈہ کرتے ہیں۔
مسلمان اپنے عقیدے اور تصورات کی روشنی میں زندگی گزارنا اور اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش اور مطالبہ ملک کے نظام اور وہاں کی زندگی سے ٹکراتا بھی نہیں ہے ۔ اگر یورپ اس حقیقت کو قبول کرلے، مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے تو مو جودہ دنیاکے لیے ایک عمدہ نمونہ اور تہذیبی قیادت کا ایک اہم عنصر ہوگا،یورپ اور عالمِ اسلام کے درمیان مضبوط رشتے استوار ہوں گے، نئی راہیں کھلیں گی، خوف و دہشت کا ماحول ختم ہوگا اور باہمی احترام اور تعاون کا ماحول بنے گا، جو وقت کی ضرورت ہے ۔
اسلام دشمنی کا مقابلہ کیسے کریں؟
1۔ ہم حقیقی معنی میں مسلمان ہوں اوراپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کرکے دوسروں کے سامنے اسلامی اخلاق کا نمونہ پیش کریں۔ جیسا کہ ماضی میں اسلاف نے کیا۔ بہت سے ممالک صرف مسلم فاتحین کے اخلاق کی وجہ سے فتح ہوئے۔
2۔ طاقتور اور مؤثر میڈیا کے قیام کو عمل میں لا یا جائے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اسلام کو پیش کیا جائے ۔
3۔ مختلف عالمی زبانوں پر قدرت رکھنے والے داعی تیار کیے جائیں۔
4۔ دنیا بھر میں قائم اسلامی ادارے آپسی ٹکراؤ کے راستے کو چھوڑ کر خدمتِ دین کے لیے مشترک لائحہ عمل طے کریں ۔ آپس میں اتحاد و تعاون کی روح پیدا کریں اور ایک ہی میدان پر توجہ کی بجائے مختلف میدانوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں۔ زمانے کے تقاضے، خطرات اور چیلنجز کا لحاظ کرتے ہوئے حکمت و دانائی پر مبنی حکمتِ عملی تیار کریں۔
اس سے پہلے مسلمانوں نے مستشرقین کے سلسلے میں غفلت سے کام لیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مستشرقین کی تحریروں اور کتابوں کی وجہ سے دماغوں میں اسلام کے ماضی کی طرف سے بد گمانی، اس کے حال کی طرف سے بے زاری، اس کے مستقبل کی طرف سے مایوسی، اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ اور اسلامی مآخذ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ۔
معاشرے میں اسلامی تعلیمات کا عملی نفاذ دعوتِ اسلامی کا پہلا زینہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے مسلمانوں میں تحریک پیدا فرمائے، آمین ۔

قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کرو لوگوں سے ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔ بے شک تیرا رب ہی خوب جانتا ہے اس کو جو بھٹک گیا اس کے راستے سے اور ان کو جنہیں ہدایت میسر آگئی۔‘‘ ( النحل :۱۲۵)

Comments From Facebook

1 Comment

  1. عمر فاروق ندوی

    عمدہ تجزیہ اوربہترین مشورہ ، اگر اسلام کے بارہ میں پھیلی اور پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا مؤثر طریقہ اپنایا جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو ئیں

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے