جذبۂ دعوت کی آبیاری۔کیوں اور کیسے ؟
کتاب ’’جذبۂ دعوت کی آبیاری۔ کیوں اور کیسے؟‘‘ کے مصنف جناب محمد اقبال ملا ہیں۔ آپ نے دعوتِ دین اور اقامتِ دین کے میدان میں مہارت حاصل کی ہے اور اس شعبے میں کئی سال کا عملی تجربہ بھی آپ کو حاصل ہے۔آپ تحریک اسلامی ہند کے شعبۂ دعوت میں سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانا نے چند کتابیں دعوت دین کے سلسلے میں لکھی ہیں، ’’جذبۂ دعوت کی آبیاری۔ کیوں اور کیسے؟‘‘ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ مولانا نے یہ کتاب بہت ہی آسان زبان اور سادہ انداز میں لکھی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے سے آپ نے امت کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ دعوتِ دین کا کام مسلمانوں پر فرض ہے اور اس ذمہ داری کے بارے میں ہر مسلمان سے قیامت کے دن حساب ہوگا۔ اس لیے جس طرح ایک مسلمان نماز، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی ادائیگی کی پابندی کرتا ہے۔ اسی طرح دعوتِ دین کی ادائیگی اور اس کے فریضے کو سمجھنا اور انجام دینا بھی ضروری ہے۔
موصوف نے اس کتاب میں مضمون بہ مضمون دعوت دین کی اشاعت اور اس کی اہمیت بتانے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھایا ہے کہ دعوت دین کیوں ضروری ہے؟ قرآن مجید کی روشنی میں یہ بات سمجھائی ہے کہ یہ کام ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہےاور اس سے نجات کی کوئی راہ نہیں۔ ہر مسلمان کو اس ذمہ داری کا احساس اور اس کے لیے قیامت کے دن جواب دہ ہونے کا ڈر ہونا چاہیے۔
اس کے بعد مصنف نے بہت ہی آسان انداز میں قرآن و حدیث کے حوالات کے ذریعے سے دعو ت دین کی اہمیت اور فضیلت بتائی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والے دنیا اور آخرت کے فوائد پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ یہ کام انبیاء کرام کی سنت ہے اور اس کام میں تمام انسانوں کی بھلائی ہے۔ دعوتِ دین کی اشاعت سے ہی سماج میں امن اور خوشحالی آئے گی۔ اس کے بعد ایک بہت ہی اہم نکتہ کو آخری رسول محمدﷺ کی زندگی کی مثالیں دے کر سمجھایا گیا ہے کہ آپؐ کی بعثت کا مقصد اور دعوتی جدوجہد سے ہم کیا اسباق حاصل کر سکتے ہیں؟ آپ نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح آپؐنے دعوتِ دین کی اشاعت کے لیے مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور کس طرح آپ ؐکو طرح طرح سے ستایا گیا اور ان پر ظلم وستم کیا گیا۔ لیکن آپ ؐنے کبھی اس ذمہ داری سے منہ نہیں پھیرا ،بلکہ اللہ کی خاطر سب کچھ برداشت کیا۔ طائف کا واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپؐنے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس فریضے کو انجام دینے کی کوشش کی ہے۔
رسول اللہﷺکے نقشے قدم پر چلتے ہوئے صحابہ کرام ؓنے بھی اس فریضہ کا خوب حق ادا کیا۔ آج انہیں کی انتھک کوششوں اورجدو جہد کا نتیجہ ہے کہ دین ِاسلام دنیا کے ہر کونےکونے میں موجود ہے۔ آپؐکے ساتھ ساتھ صحابۂ کرامؓ نے بھی اس راہ میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں۔
اس کے بعد مولانا نے دعوتِ دین اور انسانیت کے تعلق کے سلسلے میں چند باتیں پیش کی ہیں۔ کئی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات سمجھائی ہے کہ دینِ اسلام ہی اصل دین ہے اور اسی میں انسانیت کی بھلائی اور کامیابی ہے اور اس کی اشاعت کے لیے مسلمان کا اس پر قائم ہونا ضروری ہے۔ مسلمان اپنے اخلاق و کردار سے دین کی بہترین تبلیغ کر سکتا ہے۔ اس بات کو ہم آپؐکی زندگی کے واقعات سے بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح آپ ؐکے اخلاق سے متاثر ہوکر ک کثیر تعداد میں لوگ اسلام لے آئے۔
اس کے بعد مصنف نے دعوتِ دین سے مطلق چند عام غلط فہمیاں اور ان کے ازالے کا ذکر کیے ہیں۔ اگر ایک مسلمان کو ان غلط فہمیوں اور ان کے وجوہات کا علم ہوجائے تو دعوتِ دین کا کام اور آسان ہو جائے گا۔ مصنف نے عام طور پر پائی جانی والی غلط فہمیوںکا ازالہ کرنے کے سلسلے میںبھی رہ نمائی کی ہے۔
آگے دعوتِ دین کی اشاعت کے لیے عملی تدا بیر کا ذکر کیا گیا ہے اور بعض بہت مفید اور کارآمد تدابیر کا ذکر کیا ہے۔ قرآن و حدیث سے جو اہم نکات اس سلسلے میں حاصل کیے جا سکتے ہیں، ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی آسان اور کارآمد تدابیر کا ذکر کیا ہے، جیسے انٹرنیٹ کا استعمال، مساجد اور گھروں میں اس کا شعور پیدا کرنا، اس سلسلے میں ورکشاپس کا انعقاد کرنا وغیرہ۔
کتاب کے آخری حصے میں اقامتِ دین کے سلسلے میں چند باتیں پیش کی گئیں ہیں۔ تمام انبیاء کرام کے بعثت کا مقصد دین کی اشاعت اور اقامت تھا۔ آج جب کہ قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا تو یہ ذمہ داری اب امت مسلمہ کی ہے۔ نبیوں کے واقعات سے ہمیں قدم قدم پر رہنمائی ملتی ہے کہ دین کی اشاعت و اقامت کا کام کیسے کیا جائے اور اس میں کامیابی حاصل کرنےکے کیا تدابیر ہیں۔ان پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے اس فرض کو بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔
ہر اس مسلمان کے لیے جو اپنے اندر اقامت دین کا جذبہ رکھتا ہو ، کے لیےیہ ایک بہت اہم اوررہ نما کتاب ہے، جوبہت جامع اور آسان زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی قیمت 28 روپےہے اور اس کو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئ دہلی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تمام انبیاء کرام کے بعثت کا مقصد دین کی اشاعت اور اقامت تھا۔ آج جب کہ قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا تو یہ ذمہ داری اب امت مسلمہ کی ہے۔ نبیوں کے واقعات سے ہمیں قدم قدم پر رہنمائی ملتی ہے کہ دین کی اشاعت و اقامت کا کام کیسے کیا جائے اور اس میں کامیابی حاصل کرنےکے کیا تدابیر ہیں۔ان پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے اس فرض کو بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے