اکیسویں صدی کا حصہ بننے کے بے شمار فائدے لوگوں نے اٹھائے ہیں۔ اب پہلے کی طرح نہ عشق کی مشقتیں رہیں، نہ ہی ملاقاتوں کے لیے میلوں کا فاصلہ رہا۔ جدید سواریوں نے گھوڑوں کو صرف ریس کے میدانوں اور باراتوں تک سمیٹ دیا ہے۔ ایسے دور میں جہاں گھر بیٹھے ایمازون(Amazon) آپ کو دنیا جہان کی مصنوعات فراہم کر سکتا ہے، زومیٹو (Zomato) اور سویگی(Swiggy) آپ کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کر سکتے ہیں، لیکن یہ آپ کو اصلی شریکِ حیات نہیں مہیا کراسکتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ایک آسٹریلوی شخص کا ہوا۔
جیف کیلگر 10 سال تک اپنی شریکِ حیات کا انتظار کر تے رہے اور ایک کتے کے ساتھ انہوں نے تنہا زندگی گزاری اور پھر انسانوں سے امید ختم کرتے ہوئے انہوں نے اپنے لیے ایک روبوٹ آرڈر کر دیا۔ ٹیکنالوجی نے ان کا اتنا ساتھ نبھایا کہ انہیں انسانوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
آرڈر کے بعد انہیں اپنے اس مصنوعی ساتھی کا چھ (6)ہفتے انتظار کر نا پڑا۔ ستمبر 2019 کو آخر کار جیف کو اپنی دلہن ایک ڈلیوری باکس میں پارسل کے ذریعہ ملی۔ آپ یقیناً خود کو خوش قسمت جانیں گے کہ آپ کو زیب و زینت سے آراستہ ایک مکمل بیوی کمرے میں ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’جب میں نے ایما (روبوٹ) کو پہلی بار دیکھا تو اس کا سر اس کے جسم سے الگ تھا اور مجھے اسے جوڑنے میں چند منٹ لگے۔‘‘
ہمارے یہاں جہاں مرد مہر کے چند ہزار بھی بیوی کی شکل دیکھتے ہی بھول جاتے ہیں، وہیں جیف نے ایما کو ملا قات سے پہلے ہی ایک لاکھ پینسٹھ ہزار روپے اس کے آرڈر میں صَرف کیے۔ اور مزید فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے ایک ہیرے کی انگوٹھی بھی ایما کو پہنائی ہے۔
شوہر یا بیوی ایک دوسرے کو سمجھنے میں کافی وقت لگاتے ہیں اور پھر عمر کے آخری حصے پر پہنچ کر بھی انہیں ملال رہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پائے۔ لیکن جیف اس معاملے میں خوش ہیں کہ وہ چند ماہ کے اندر ہی ایما کو سمجھ گئے ہیں۔ ہاں، ایما نے جیف کو کتنا سمجھا؟ نہیں کہا جا سکتا۔ جیف کہتے ہیں کہ ایما ان کی قانونی بیوی نہیں ہے، لیکن وہ اسے اپنی بیوی ہی مانتے ہیں اور اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے۔
جیف اس قطار میں اکیلے نہیں ہیں جنہیں تنہائی نے اس قدر بے حال کیا۔ برطانیہ کے محمد ملک نے اپنے ہم سفر کی تلاش کے لیے بر منگھم کی سڑکوں پر بل بورڈز لگا دیے اور اس میں لکھا کہ انہیں ارینج میرج سے بچایا جائے اور مزید دوسروں کا بھی بھلا کرتے ہوئے انہیں ایک موافق رشتہ مل جائے گا۔
ان عجیب و غریب واقعات سے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ انسان واقعی سائنس و ٹکنالوجی میں بہت ترقی کرچکا ہے۔ اتنا کہ اپنے لیے ایک عدد’’انسانی‘‘ شریکِ حیات فراہم کرنے سے بھی قاصر ہے۔ بلا شبہ دور جدید کا انسان زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے بام عروج پر پہنچ چکا ہے،لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا ازدواجی شعبہ بھی ترقی کی اس بیش بہا نعمت سے محروم رہے۔ ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ وقت بھی دور نہیں جب ایک شخص کے ’ترقی یافتہ‘ اور’سویلائزڈ‘ کہلائے جانے کے لیے یہ ضروری ہوجائے گا کہ اس کے پاس ایک عدد روبوٹ بیوی یا روبوٹ شوہر بھی موجود ہو۔
روبوٹ بیوی
زمرہ : طنز و مزاح
Comments From Facebook
2 Comments
Submit a Comment
اپریل ٢٠٢٢
Extremely thrilled with such humor and narration of the story! Kudus to writer!
بہت شکریہ!