حجاب سب کے لیے

حجاب، حکمتوں سے معمور شریعت کا حکم ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے خدا کا عطیہ ہے، جو اُس کی آخری شریعت پر ایمان رکھیں اور اس پر عمل پیرا ہونا اپنے لیے ضروری سمجھیں۔
حجاب شریعت کے ان احکام میں سے ہے، جن کی صرف تعمیل کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ان کی حکمت و مقصد کو بھی بتادیا گیا ہے۔ حجاب کا مقصد انسانوں کے دلوں میں پاکیزگی اور معاشرے میں امن و تحفظ کا نظام قائم رکھنا ہے۔ حجاب محض ایک اسکارف نہیں، بلکہ پورا ایک نظام ہے ، جس کا مقصد اس پاکیزہ رشتے کی حفاظت ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان رکھا ہے۔ حجاب سے بے گانہ معاشروں میں شیطان کے بہکاوے اور حیوانی خواہشات کے نشے میں گرفتار ہوکراس رشتے کا تقدس پامال کردیا جاتا ہے۔ اس رشتے کا احترام دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے مفاد میں ہے۔
حجاب کا سب سے بنیادی عنصر نگاہوں کی حفاظت ہے۔ بدنگاہی، نہ مرد کو زیب دیتی ہے اور نہ عورت کو۔ حجاب کا دوسرا بنیادی عنصر عورت کے حسن کا پردہ ہے۔ اللہ نے عورت کو خصوصی طور پرحسن وکشش کی دولت سے نوازا ہے۔ اس کی فطرت میں زینت و آرائش کا شوق ودیعت کیا ہے۔ لیکن یہ سب اس لیے ہے تاکہ وہ مرد کے ساتھ مل کرخوش گوار ازدواجی زندگی گزارے۔ اس لیے نہیں کہ وحشی درندے اس کے جسم سے کھلواڑ کریں اور اس کی زندگی کو اجیرن کردیں۔عورت اور مرد کے بیچ کشش چند لمحوں کا لطف حاصل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ زندگی بھر کا سکون و راحت پانے کے لیے ہے۔ حجاب کا نظام اس مقصد کا محافظ ہوتا ہے۔
جاب کے فائدے بہت نمایاں ہیں اور نقصان کچھ بھی نہیں ہے۔ حجاب کے اوپر تنقید کرنے والوں کی طرف سے کبھی بھی حجاب کا کوئی قابلِ لحاظ نقصان پیش نہیں کیا جاسکا۔ البتہ بے حجابی کے نتیجے میں رونما ہونے والے سانحے بے حجابی کے نقصانات کی کھلی دلیل بنتے ہیں۔ جس طرح شراب پر پابندی کا کوئی نقصان ثابت نہیں کیا جاسکتا اور شراب کے نتیجے میں واقع ہونے والے حادثے شراب کے خلاف واضح دلیل بنتے ہیں۔
جاب دراصل لباس کا تتمہ ہے۔ لباس کا مقصد جسم کی ستر پوشی اور زینت وآرائش ہے۔ جب کہ حجاب کا مقصد جسم ولباس کی زینت وآرائش کا پردہ ہے۔
لباس مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے ہے۔عورتوں کا ضروری لباس یہ ہے کہ وہ پورے جسم کو مستور رکھیں۔ عورت کا سر ڈھانپنا بھی اس کے لباس کا حصہ ہے۔ مردوں کا ضروری لباس شرم گاہ کا ستر، یعنی ناف سے گھٹنے تک ہے۔ اس کی وجہ ان کے جسم کی ساخت اور ان کے کاموں کی نوعیت ہے۔ جب کہ پسندیدہ یہ ہے کہ وہ بھی جہاں تک ہوسکے پورے جسم کو ملبوس رکھیں۔اسلامی رواج بھی یہی رہا ہے۔مرد گھر کے باہر سخت محنت ومشقت کے کام کرتا ہے، لباس کے سلسلے میں کچھ رعایت اسے باہر ملتی ہے، جب کہ عورت گھر کے اندر رہتی ہے، تو گھر کے اندر اسے لباس کے سلسلے میں رعایت ملتی ہے۔ لباس کے سلسلے میں قرآن مجید نے خبردار کیا ہے کہ شیطان تمھیں لباس سے عاری کرنے کی کوشش کرتا رہے گا،تم اس کے جھانسے میں نہ آنا۔ شیطان کا انسان کے خلاف سب سے پہلا حملہ لباس کے اوپر تھا۔جب کہ  انسان ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں تھا۔
دورِ حاضر میں شیطانی رواجوں کا نشانہ عورت کا لباس ہے۔ ایک طرف اسلامی تہذیب ہے جس میں لباس تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ حجاب کا نظام بھی موجود ہے اور لباس و حجاب کی حفاظت کے لیے تقوی کا باطنی لباس بھی ہے۔ جب کہ دوسری طرف شیطانی رواجوں میں سب سے پہلے انسانوں کے باطن کو تقوی کے لباس سے محروم کیا گیا اور پھرانھیں لباس سے عاری کردیا گیا۔ انجامِ کار انسان انسانیت کے مقام سے نیچے گرتا جارہا ہے۔
لباس کی طرح حجاب بھی مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے۔ مردوں کا حجاب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غضّ بصر سے کام لیں۔ وہ دوسروں کے گھروں میں جائیں تو اطلاع دے کر جائیں، گھر کے باہر سے بات کرنا ہو تو اوٹ میں رہ کر بات کریں اور گھر کے باہر کسی خاتون کا سامنا ہو تو اسے گھورنے کے بجائے نگاہیں نیچی رکھیں۔ کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ رہیں۔
عورتوں کا حجاب یہ ہے کہ وہ نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی زینت وآرائش کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں اورغیر مردوں کی خلوت سے اجتناب کریں۔ اپنی آواز میں لوچ نہ پیدا کریں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ مردوں کا نگاہیں نیچی رکھنا کافی ہے، عورت کو حجاب کی زحمت میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کے احکام مثالی مفروضوں سے زیادہ عملی صورت حال کے لیے ہوتے ہیں۔یہ فرض کرتے ہوئےکہ مردوں کی ذمے داری اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنا اور جذبات پر قابو رکھنا ہے، عورتوں کو پردے کی ذمے داری سے بری کردینا حکیمانہ بات نہیں ہے۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ ایک ایسے انسانی معاشرے میں جہاں سب لوگ اللہ کی شریعت کے سختی سے پابند نہیں ہوتے ہیں اور جہاں شیطان کے بہکاوے کبھی بھی کوئی آسکتا ہے ، عورتوں کے حق میں بہتر حجاب ہے یا بے حجابی ؟
حجاب ایک آسان اور عملی طریقہ ہے۔ یہ شریعت کا حسن ہے کہ اس نے عورت کو ایسے حجاب کی تعلیم دی ،جس سے وہ گھر کے اندر آرام سے رہ سکتی اور گھر کے باہر کسی زحمت کے بغیر اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے نقل وحرکت کرسکتی ہے۔اس حجاب میں عورت کی آسانی کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور اس کے پردے کا بھی۔ حجاب میں رہتے ہوئے عورت آزاد بھی رہتی ہے اور محفوظ بھی۔
ور کیا جائے تو بے حجابی عورت کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حجاب اس کی ترقی میں معاون ومددگار ہوتا ہے۔ بےحجابی کے ماحول میں حسن وآرائش کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ جو عورتیں اپنے آپ کو زیادہ حسین و پرکشش ثابت کرسکیں وہ زیادہ مواقع پاتی ہیں۔ اور جو عورتیں حسن و آرائش میں کم تر ہوں، وہ یا تو پیچھے رہ جاتی ہیں یا انھیں بہت زیادہ محنت کرکے اپنی قابلیت کو منوانا پڑتا ہے۔ جب کہ جہاں حجاب کا ماحول ہو وہاں اصل قدر صلاحیت کی ہوتی ہے۔تمام عورتوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع ہوتے ہیں۔ بے حجابی کے ماحول میں عورت کو شدید ذہنی اذیت سے اور سخت نفسیاتی اہانت سے گزرنا پڑتا ہے۔ظاہری شخصیت میں ذرا سی کمی اسے زمانے کے معیار سے نیچے گرادیتی ہے۔ جب کہ حجاب کے ماحول میں تمام عورتوں کو ذہنی سکون اور احترام ملتا ہے۔ حجاب کے ماحول میں اس کا موقع ہی نہیں آتا ہے کہ عورت کو حسن کے کسی امتحان یا مقابلے سے گزرنا پڑے۔
اس کی ایک مثال شادی ہے۔ بے حجابی کے ماحول میں ہر شخص خوب صورت لڑکی سے شادی کرنے کا شوق پالتا ہے۔ اس کے خوابوں کی رانی وہ نہایت حسین لڑکی ہوتی ہے جسے وہ اسکرین پر دیکھتا ہے۔ جو مصنوعی طریقے سے حد سے زیادہ حسین دکھائی جاتی ہے۔ لڑکوں کے سلسلے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عام لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے شادی کا عمل دشوار ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی اپنی شادی سے مطمئن نہیں رہتا۔ یہ بے اطمینانی بے حجابی سے پیدا ہوتی ہے۔کاسمیٹک سرجری اور بیوٹی پارلر بھی اس بے اطمینانی کو دور نہیں کرپاتے۔ حجاب کے ماحول میں جہاں حسن وجمال اور زینت و آرائش کا اخفا ہو انسانوں کے ارمان حدِّ اعتدال میں رہتے ہیں اور انھیں ہر حال میں اطمینان کی دولت حاصل رہتی ہے۔
جن تقریبات میں حسن اور دولت کی نمائش ہوتی ہے، وہاں صرف حسن اور دولت والے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ باقی لوگوں کو سوائے حسرت کے اُن اور سے کیا ملتا ہے۔وہ جھوٹی خوشی کے لیے حسن و دولت کی مصنوعی نمائش کرتے ہیں، حقیقت میں ان کے سینوں پر حسرت ویاس کے سانپ لوٹتے ہیں۔ ایسی تمام تقریبات انسانی کردار کو پست کرنے والی اور انسانیت کے لیے باعثِ عار ہوتی ہیں۔
رحمان و رحیم کی رحمت کے جلوے ہمیں کائنات کے نظام میں بھی نظر آتے ہیں اور شریعت کے احکام میں بھی۔ حجاب کے سلسلے میں جتنا بھی غور کریں ، یہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ حجاب اللہ کی رحمت کا بیش قیمت عطیہ ہے اور بے حجابی اللہ کی رحمت سے محرومی ہے۔
آئیے ہم دنیا بھر کے تمام مردوں اور عورتوں کو حجاب کی قدر و قیمت سے واقف کرائیں۔ انھیں بتائیں کہ اس دنیا کو امن وسکون اور راحت و مسرت کا گہوارہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بے حجابی اور بے لباسی سے لباس و حجاب کی طرف دوبارہ کوچ کیا جائے۔ یہی فطرت کا تقاضا ہے۔ اسی میں خیر وفلاح ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے