أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَهُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهۡرًا۔ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيۡرًا ( الفرقان :۵۴)
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سُسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔‘‘
ایک سلسلۂ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چل رہا ہے، جو دوسرے گھروں کی بہوئیں لاتے ہیں اور ایک دوسرا سلسلۂ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے، جو دوسرے گھروں میں بہوئیں بن کر جاتی ہے ۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورا ملک ایک نسل اور تمدن سے وابستہ ہوجاتا ہے ۔
ہر خاندان کی تکمیل کے لیے بہو کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بہوؤں کا کردار بہتر ہو تو سسرال (خوشگوار اسلامی خاندان) بن جاتا ہے ۔ سسرال میں ساس، سسر، جیٹھ، جیٹھانی، دیور، دیورانی، نند اور ان سب کے بچے وغیرہ رہتے ہیں ۔
اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں فرماتے ہیں:’’ پس جو صالح عورتیں ہیں، وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔
رشتے اور خاندان اللّٰہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہیں، چاہے سسرال کے ہو ںیا میکے کے۔ ان تمام رشتوں کا اللّٰہ کی حفاظت اور نگرانی میں حق ادا کر نا چاہیے۔ رشتوں کو نبھانا اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے بڑا امتحان ہے۔ ہرانسان کا پرچہ مختلف ہوتا ہے ۔رشتوں کو نبھانے کے تعلق سے سب کے مزاج مختلف ہوتے ہیں ۔
اسلام حقوق حاصل کرنے کاحکم نہیں دیتا ہے، بلکہ فرائض ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بہو کو چاہیے کہ فرائض ادا کرنے پر دھیان دے اور تقویٰ اختیار۔تقویٰ، ساس، بہو، نند اور بھاوج جیسے سارے ہی رشتے داروں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے اور نفرت بانٹنے سے روکتا ہے ۔
اپنے قرابت داروں سے عدل و احسان کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے قصور کو اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے معاف کر دینا چاہیے۔ اخلاقاً سسرالی رشتے داروں کی خدمت کریں، الگ رہنے کا مطالبہ نہ کریں۔ بچوں کے تعمیری کردار کے لیے ان کو ماں باپ کا پیار کافی نہیں ہوتا، پورے خاندان کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاندان کیسا بھی ہو، اس کو بحث کا موضوع بنانے کے بجائے افرادِ خاندان کے حقوق اور فرائض پر توجہ دینی چاہیے۔ نیک بیوی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اگربہو چاہے تو گھر کوجنت کا نمونہ بنا سکتی ہے ۔گھر کو صاف ستھرا رکھیں، خانہ داری احسن طریقے سے انجام دیں، بہترین پکوان بنا کر بھی سسرالی رشتے داروں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔
جس طرح عورت کے لیے سسرال ہے، اسی طرح مرد کو بھی داماد کے کردار میں سسرال ملتا ہے۔ سسرال سے دامادوں کا رشتہ عام طور پر مہمان والا ہوتا ہے۔ اس لیے دامادوں کو اپنی سسرال میں پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ زیادہ تر مسائل بہوؤں کے لیے پیش آتے ہیں ۔کچھ داماد آگے بڑھ کر سسرال کے ذمہ دار افراد میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں۔وہ سسرال کی بہت سی ضرورتوں کی تکمیل میں اور بہت سے مسائل کے حل میں اچھا رول ادا کرتے ہیں۔ یہ عام دامادوں سے مختلف مثالی داماد ہوتے ہیں۔
داماد کے ساس سسر کے لیے تو یہ بڑی بات ہے کہ وہ ان کی بیٹی کو خوش رکھے۔
حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ والدین کے بعد سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق بیوی ہوتی ہے۔
چاہے داماد ہو یا بہو دونوں کی کوشش یہ ہو کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے بنیں، نہ کہ نقصان پہنچانے والے۔ تاکہ آگے چل کر ان کی اولاد کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔
قرآن حکیم کو دیکھئے اس کی عظمت کو جانئے،اسے سینے سے لگائیے، آ نکھوں سے لگائیے، اسے چومیے، لیکن سب سے پہلے اسے دل میں اتارئیے، عہد کیجئے کہ اس کے ایک ایک حکم پر عمل کریں گے ، اس کے بعد دنیا کی امامت و قیادت آپ کے حوالے کی جائے گی ۔ اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
مولانا سید جلال الدین عمری
اسلام حقوق حاصل کرنے کاحکم نہیں دیتا ہے، بلکہ فرائض ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بہو کو چاہیے کہ فرائض ادا کرنے پر دھیان دے اور تقویٰ اختیار۔تقویٰ، ساس، بہو، نند اور بھاوج جیسے سارے ہی رشتے داروں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے اور نفرت بانٹنے سے روکتا ہے ۔
ماشاء اللہ.
مختصر اور بہترین مضمون.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت اور امہات المومنین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھما کی زندگی کے کچھ واقعات کا اضافہ ہو جاتا تو مزید بہتر ہو جاتا.