مارچ ۲۰۲۴

پچھلے مہینے ایک خبر نے سرخیوں میں جگہ پائی۔ ایک اٹھارہ سال طالب علم نے، جو اپنے ماں باپ سے سینکڑوں میل دور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے کوٹہ میں آئی آئی ٹی جی کی کوچنگ لے رہا تھا، اپنے روم کی چھت سے لٹکتا ہوا پایا گیا۔ اپنے ماں باپ کے نام خودکشی نوٹ میں وہ کہتا ہے :
’’ سور ی ممی پاپا! میں جی (JEE)نہیں کرپایا۔‘‘
لیکن یہ واقعہ پہلا واقعہ نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دس سالوں میں طلبہ کے درمیان خودکشی کا تناسب70%بڑھ گیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ امتحانا ت کا حد سے زیادہ دباؤ (پریشر)،والدین ، رشتہ داروں اور خود کی حد سے بڑھی ہوئی توقعات اس قسم کے انتہائی اقدامات کی وجہ بن جاتی ہیں۔
فروری تا مئی ہر جگہ امتحانات کا دور ہوتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں امتحانات کی تیاری طلبہ کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے۔ گرمیوں کے اس موسم میں جہاں سڑکیں اور گلیاں ویران ہوتی ہیں، وہیں تعلیمی اداروں اور امتحانی مراکز میں کافی چہل پہل ہوتی ہے۔ مختلف کوچنگ سینٹرز اور ٹیوشن انسٹی ٹیوٹس میں بڑی دھوم ہوتی ہے۔
طلبہ اسٹڈیز اور کتابوں کا بوجھ لیے ادھر ادھر پھرتے نظر آتے ہیں۔ وقت سے پہلے مناسب تیاری نہ ہونے کے سبب طلبہ ذہنی الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کچھ امتحان ترک کردیتے ہیں(Drop out)، کچھ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کچھ انتہائی اقدام کرتے ہوئے خودکشی جیسے عمل پر آمادہ ہوجاتے ہیں ،اور کچھ طلبہ تیاری نہ ہونے کے باعث امتحان میں کامیابی کے لیے کچھ نامناسب طریقے ڈھونڈنے لگتے ہیں ،جیسے نقل نویسی، پیپر لیک کروانا وغیرہ۔
اگر طلبہ وقت سے پہلے امتحان کی مناسب تیاری کرلیں اور امتحان کی صحیح منصوبہ بندی اور مناسب مواد اکٹھا کرلیں اور پلاننگ کے ساتھ اسٹڈی کریں تو ان کے لیےمفید ہوگا۔ ذیل میں کچھ نکات پیش کیے جارہے ہیں، جو طلبہ کی تیاری میں مددگار ثابت ہوں گے۔

(1) نوٹس کی تیاری

اگر آپ کے پاس الگ الگ 3 یا4 نوٹس ہوں (ہاتھ سے لکھے نوٹس یا کتابیں وغیرہ ) تو آپ ان تمام نوٹس کو اگر ممکن ہو تو پڑھ لیں، یا پھر اہم نکات کو نشان زد (Highlight)کرلیں ۔ یہ تمام نوٹس ہمارے لیے کافی کارآمد ہوں گے۔
خود کی سمجھ پیدا کریں۔ اندازہ کریں کہ آپ کو کس قسم کے نوٹس آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں اور کیسے آپ یاد کرسکتے ہیں؟ آپ کا اپنے لرننگ اسٹائل کی سمجھ آپ کو تیاری میں کافی مدد دے گا۔

(2)محاسبہ

ہرمضمون کا محاسبہ کرلیں کہ کس مضمون میں آپ کمزور ہیں اور کس موضوع پر آپ کو کس قدر فوکس کرنا ہے؟ اسی مناسبت سے اپنی منصوبہ بندی کریں۔
جن مضامین میں آپ کی اسٹڈی اچھی ہو، ان میں محض اعادہ (Revision)کافی ہوگا، البتہ جن میں آپ پراعتماد نہ ہوں یا آپ کو سمجھنے میں دقت ہو ،ان پر فوکس کرنا ہوگا۔کوشش کریں کہ خود سے سمجھاجائے۔ اگر یہ نہ ہوپائے تو پھر اساتذہ یا اپنے ساتھیوں سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ایسے مضامین کو آخروقت کے لیےنہ رکھیں، بلکہ امتحانات سے کچھ عرصہ ان کو سمجھنے کا مرحلہ مکمل کرلیں۔

(3)پلاننگ (منصوبہ بندی)

روزانہ نمازوں کے اوقات ہمیں پلاننگ میں مدد دے سکتے ہیں۔ ہر نماز ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے۔
مشکل اسباق اور یاد رکھنے والی چیزوں کو صبح کے اوقات میں ، نوٹس لکھنا،Diagrams بنانا،دوپہر کے اوقات میں اور اعادہ (Revision)اور Calculationsرات کے اوقات میں شامل کرسکتے ہیں۔
اپنے آپ کے لیے اہداف مقرر کریں۔ مثلاً فلاں سبق فلاں وقت تک مکمل کروں گا۔ فلاں سوال کو سمجھنے کی کوشش کروں گا اور اس کے بعد اس مضمون کی طرف متوجہ ہوں گا۔ کوشش کریں کہ یہ اہداف بہرصورت مکمل ہوں۔ اگر نہ ہورہے ہوں تو اندازہ کریں کہ آپ سے کہاں غلطی ہورہی ہے اور پھر اس کو اپنے اگلے ہدف میں درست کریں۔

(4)ٹائم ٹیبل

اوقات کی مناسب تقسیم بھی مطالعہ میں بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔سونے،جاگنے او ر ذاتی مطالعہ کے اوقات کا ایک خاکہ بنالیں۔ وقتاً فوقتاً ٹائم ٹیبل کی جانچ کرتے رہیں کہ آیا ہم اس پر عمل کر بھی رہے ہیں یا نہیں۔ٹائم ٹیبل قابل عمل ہونا چاہیے اور ساتھ ہی اس قد ر آسان بھی نہ ہو کہ آپ کی اسٹڈی مکمل نہ ہوپائے۔

(5)یاد رکھنے کا طریقہ

سبق کویاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھیں۔ اس طرح پڑھیں کہ ہر ایک نکتہ واضح ہو۔صرف رٹنے سے پرہیز کریں۔ رٹا ہوا سبق جلد بھول جانے کا امکان ہوتا ہے۔جو سبق آپ سمجھ کر پڑھیں گے، اس کے زیادہ عرصہ تک یاد رہنے کا امکان ہوتا ہے۔ رٹنے کے عمل میں آپ کے دماغ کو ضرورت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، جس سے انسان تھک بھی جاتا ہے اور یہ دیرپا نہیں رہتا۔لکھ کرPracticeکرنے کی عادت ڈالیں۔ اس طرح نکات جلد ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔

(6)وقفے لینا اور نیند پوری کرنا

اپنے ٹائم ٹیبل کو اس طرح ترتیب دیں کہ اس میں ہر دو گھنٹے بعد10 منٹ کا وقفہ (Break) ہو۔
گھر والوں سے بات چیت ، چہل قدمی ، ہلکا پھلکا ناشتہ، پانی اور جوس اس میں شامل ہو۔
یہ وقفہ اس قدر طویل بھی نہ ہو کہ اسٹڈی کا تسلسل ٹوٹ جائے۔

(7)اجتماعی مطالعہ (Combined Study)

امتحان کی تیاری میں اجتماعی مطالعہ بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
ایک دوسرےکے اشکالات (Doubts)اور سوالات کو حل کرنے سے موضوع ہمارے ذہن نشین ہوجاتا ہے۔
دھیان رہے کہ اجتماعی مطالعہ میں ہر طالب علم سنجیدگی سے اسٹڈی کرنے والا ہو۔ کوئی ایک طالب علم بھی اگر غیر سنجیدہ اور فضول باتوں نیز ہنسی مذاق میں وقت ضائع کرنے والا ہو تو پورے گروپ کا وقت خراب ہوجاتا ہے۔
اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ وقت کا ضیاع بالکل نہ ہو۔
مدد مانگنے میں نہ جھجکیں اور نہ ہی مدد دینے سے پیچھے ہٹیں۔ لینے اور دینے کا یہ عمل آپ کو بھی فائدہ دے گا اور آپ کے ساتھیوں کو بھی۔

(8)امتحان کے دوران تیاری


امتحان کے دوران نئے اسباق کو پڑھنے سے پہلے پرانے اسباق کا اعادہ کریں اور انھیں پکا کریں۔ ممکن ہو تو پچھلے سوالیہ پرچوں کو دیئےگئے وقت میں حل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ مقررہ وقت میں پرچہ حل کرنے کی مشق ہو۔
5تا6 گھنٹے کی نیند لازماً لیں، تاکہ امتحان کے دوران تازہ دم رہیں۔ Heavyغذاؤں اور ہاہر کے کھانوں سے اجتناب کریں، اس سے صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
ایک پرچے سے دوسرے پرچے کے دوران وقت بالکل بھی ضائع نہ کریں ۔ اگر ایک دن کا وقفہ ہو تو اس کا بھی ٹائم ٹیبل بنالیں اور ہر منٹ کا بھرپور استعمال کریں۔
تیاری کے دوران اپنے آپ کو Relaxرکھیں اور دباؤ (Pressure) کا بالکل بھی شکار نہ ہوں، البتہ جتنی محنت آپ کے لیےممکن ہو اتنی ضرور کریں۔
امتحان سے 2 گھنٹے قبل پڑھائی بند کردیں اور مطمئن ہوجائیں۔ گھر سے نکلنے سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھ لیں۔ امتحان کے لیے درکار تمام اشیاء کو یک جا کرلیں ۔
امتحان سے آدھا گھنٹہ قبل امتحانی مرکز پہنچ جائیں۔
سوالیہ پرچہ ہاتھ میں آتے ہی اللہ کے نام سے شروعات کریں اور پورا سوالیہ پرچہ تیزی سے ایک دفعہ پڑھ لیں۔
جن سوالات کی تیاری مکمل ہو اور جن کے جوابات میں آپ بہت زیادہ مطمئن ہوں ،انھیں پہلے حل کریں۔اس کے بعد مشکل سوالات کی جانب بڑھیں۔
گھڑی پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں، ادھر ادھر دیکھنے اور وقت ضائع کرنے سے اجتناب کریں۔ ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں۔
Diagrams، اشکال ، چارٹس وغیرہ سوالات کے جوابات کے ساتھ ہی بنالیں۔ بعد کے لیےنہ چھوڑیں۔
کوشش کریں کہ وقت سے کم از کم5 منٹ پہلے پیپر مکمل حل ہوجائے۔ آخری کے 5 منٹ میں پیپر کی مکمل جانچ کرلیں کہ کوئی سوال چھوٹ تو نہیں گیا۔ سوال نمبر، ہال ٹکٹ نمبر ، اور دیگر چیزیں صحیح ہیں یا نہیں۔
امتحان ہونے کے بعد مطمئن رہیں۔ اگر کوئی سوال چھوٹ جاتا ہے یا غلط ہوجائے تب بھی پریشان نہ ہوں۔ جو چیز ہوجائے اسے نہیں تبدیل کیا جاسکتا، لیکن اگلے امتحان کی تیاری میں مزید تیاری کی جاسکتی ہے۔
امتحان سے گھر آنے پر پرسکون رہیں ،اور اگلے پرچے کی تیاری میں جٹ جائیں۔

(9)پریشر نہ لیں

امتحان سے قبل بھرپور اور حتی المقدور تیاری کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ خدا بھی اسی وقت مدد کرتا ہے جب انسان اپنی طرف سے مکمل کوشش کرلے،لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ اگر آپ کی پوری تیاری اور محنت کے باوجود آپ کو مطلوبہ کامیابی یا نمبرز نہیں مل پائے تو اس میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ امتحان کو محض امتحان کی حیثیت دیں، اسے زندگی کی کسوٹی نہ بنائیں۔ تقدیر پر ایمان رکھیں، جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگر ہمیں مطلوبہ کامیابی نہیں مل رہی ہے تو یہ یقیناً اللہ کی مرضی ہے اور اس میں بھی ہماری ہی بھلائی پوشیدہ ہوگی۔ مایوس ہوئے بنا اپنے اگلے چیلنج کے لیے تیار ہوجائیں۔ آپ اپنے ذہن کو جس قدر ہلکا پھلکا اور پریشر سے آزاد رکھیں گے ، آپ اسی قدر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرپائیں گے۔

(10)سوشل میڈیا سے دور رہیں

سوشل میڈیا اسٹڈیز میں خلل اندازی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ مطالعہ میں فوکس کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کے خلل اندازی سے دور رہا جائے، جس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔ عام دنوں میں بھی یہ ضروری ہے کہ طالب علم سوشل میڈیا کا اسی قدر استعمال کرے جتنا ضروری ہو اور لایعنی و بے مقصد سرفنگ سے پرہیز کرے۔ امتحانات کے ایام میں یہ چیز اور بھی اہم ہوجاتی ہے۔ کوشش کریں کہ آپ ہر قسم کے سوشل میڈیا سائٹس سے اس دوران دور رہیں، الا یہ کہ کوئی انتہائی ضروری اور اہم کام درپیش ہو۔

(11) امتحان میں دیانت داری

کچھ طلبہ ایسے ہوتے ہیں جنھیں علم حاصل کرنے سے زیادہ صرف پاس ہونے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنا، علم بڑھانا اور سیکھنا ان کا مقصد نہیں ہوتا، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ اگلے سال میں داخل ہوجائیں۔ اس کے لیے وہ دوسرا طریقہ یعنی نقل نویسی یا اس طرح کی غلط حرکات کا سہارا لیتے ہیں، جو کہ سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
امتحان سے پہلے اور دوران امتحان دیانت داری کا مظاہرہ کریں۔
Guess Paper ڈھونڈنا اور اسے لیک کروانا جیسے طریقوں سے سختی سے بچیں۔
دوران امتحان بھی ہر طریقے کی نقل نویسی جیسے دیکھ کر لکھنے،کسی سے پوچھ کر لکھنےوغیرہ سے سختی سے پرہیز کریں۔
امتحان کے بعد بھی کامیاب ہونے کے لیےیا زائد مارکس حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر اخلاقی حرکت کا مظاہرہ نہ کریں۔
اپنے پراجیکٹ اور Assignment خود تیار کریں۔
اس قسم کی غلط حرکات سے ایک طالب علم دراصل ان مستحق طلبہ کی حق تلفی کرتا ہے ،جو اپنی محنت اور ایمان داری سے نمبرات حاصل کررہے ہیں۔ یہ امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔
امتحان میں نقل نویسی نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے ،بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح حاصل ہونے والے نمبرات انسان کو خوشی اور اطمینان کی کیفیت سے محروم کردیتے ہیں۔
اس طرح حاصل ہونے والی کامیابی عارضی ہوتی ہے۔ مستقبل میں یہ طلبہ ایک کامیاب انسان نہیں بن پاتے اور خوداعتمادی کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔
علم و فہم کی کمی، دیانت داری کی کمی اور خود اعتمادی کی کمی؛ یہ تمام کیفیات ایک انسان کو عملی زندگی میں ناکام بنانے کے لیے کافی ہیں۔
اگر یہ بیماری مستقل لاحق ہوجائے تو طالب علم سوچنے سمجھنے اور اس پر اپنا ذہن لگانے سے دست بردار ہوجاتا ہے، اور اپنی کامیابی کا پورا دارومدار نقل نویسی پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ چیز بھی عملی زندگی میں انسان کے لیے خطرناک ہے۔
یہ بیماری انسان کو کاہل اور ناکارہ بھی بنادیتی ہے۔ انسان شارٹ کٹس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے اور سخت محنت اور مشقت سے سبک دوش ہوجاتا ہے۔
عملی زندگی میں اگر ایسے شخص کو اپنے ڈگریز یا نمبرات کو ثابت کرنے کی نوبت آجائے (جیسے انٹریوز، Presentations وغیرہ) تب وہ نہیں کرپاتا، کیوں کہ اس نے اس قد ر لیاقت درحقیقت حاصل ہی نہیں کی تھی۔
مستقبل میں ہونے والے کسی بھی امتحان یا چیلنج میں انسان کامیاب نہیں ہوپاتا، کیوں کہ نقل نویسی کا امکان ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔
یاد رکھیے! کہ ان غلط حرکات سے نہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور ان تمام اعزہ کے بھی اعتماد کو ٹھیس پہنچتا ہے جو آ پ سے امیدیں وابستہ کیےہوئے ہیں۔
اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس قسم کی حرکات عام لوگوں کا سسٹم پر سے اعتماد مجروح کردیتے ہیں۔ اکثر یہ خبریں پڑھی جاتی ہیں کہ پیپر لیک کی وجہ سے پورے امتحانی نتائج کو رد کردیا گیا، اگرچہ اس میں ملوث طلبہ کی تعداد کافی قلیل ہوتی ہے لیکن یہ پورے امتحانی عمل کو ہی مشکوک بنادیتی ہے۔ سسٹم سے اعتماد کا اٹھ جانا ایک انتہائی خطرناک نقصان ہے اور اس نقصان کی بھرپائی میں کئی سال بیت جاتے ہیں۔

(12)دعا اور عبادات

اپنی طرف سے بھرپور تیاری کریں اور پھر اللہ سے خوب دعا کرتے رہیں۔
اللہ سے نافع علم اور فہم کے لیے خوب دعا کریں اور استغفار کریں۔
فرض نمازوں کا بھرپور اہتمام کریں اور ساتھ ہی رات کے آخری پہر (فجر سے پہلے) ممکن ہو تو تہجد پڑھیں۔ رات کے آخری پہر اور صبح کے ابتدائی حصہ کو ضائع نہ کریں اور نہ نیند کے حوالے کریں۔ یہ پڑھنے اور یاد کرنے کا سب سے قیمتی اور سنہرا وقت ہوتا ہے۔
امتحان سے پہلے اور امتحان کے دوران اس بات کا سختی سے خیال رکھیں کہ کوئی نماز ضائع نہ ہو۔
فرض نمازوں کے علاوہ امتحان سے قبل رات کے وقت نوافل کا اہتمام کریں۔
دعا مومن کا سے بڑا ہتھیار ہے۔ تیاری کے ساتھ مستقل دعائیں کرتے رہیں۔
امتحان ختم ہونے کے بعد بھی نماز سے غافل نہ ہوں۔ اور دعائیں بھی جاری رکھیں۔ ان شاءاللہ کامیاب ہوں گے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴