مارچ ۲۰۲۴

کئی تہذیبی گروہوں (Cultural Groups)کی ایک ہی جغرافیائی خطے میں موجودگی سے ایک کثیری معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ تہذیب پر رنگ ونسل، زبان، مذہب، ان سب کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سب بنیادوں پر الگ الگ تہذیبی گروہ وجود میں آسکتے ہیں۔ تہذہبی گروہ اپنی علیٰحدہ شناختیں رکھتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے طریقے، رسوم و رواج، عادات و اطوار وغیرہ مختلف ہوتے ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ سے ان گروہوں کے درمیان تناؤ کی کیفیت بھی اکثر پیدا ہو جاتی ہے۔ ان ہی مسائل کو حل کرنے کے لیے جدید عمرانیات میں تکثیری سماج سے متعلق مختلف نظریے پیش کیے گئے ہیں۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غیر مسلم اکثریت والے ممالک میں رہتی ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں بھی ایسے ممالک کی بڑی تعداد ہے جہاں غیر مسلموں کی بڑی آبادیاں پائی جاتی ہیں۔ ان احوال میں یہ سوال ہر جگہ زیر بحث ہے کہ تکثیری سماجوں کو مسلمان کس نقطۂ نظر سےدیکھیں اور ایسے سماجوں میں کیا کردار ادا کریں؟

تکثیری سماج اور اسلامی تاریخ

اسلامی تاریخ میں تکثیری سماجوں سے متعلق واضح نظریات بھی اول روز سے موجود رہے ہیں اور عملی تجربات بھی۔ اکثر انبیاء علیہم السلام نے اپنی دعوت کا آغاز مشرک معاشروں میں کیا اور ان کی دعوت قبول کر لینے کے نتیجہ میں ان کے پیروؤں کے ایسے گروہ تشکیل پائے ،جو عام سماج سے مختلف تھے۔ اس طرح تکثیری سماجوں سے متعلق بنیادی رہ نمائی تو اکثر انبیاء کی سیرتوں میں مل جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات تو ہندوستان اور دیگر جدید تکثیری معاشروں سے بہت زیادہ ملتے جلتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم یعنی بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے، جو مصر میں اقلیت میں بھی تھی اور محکوم بھی تھی، اور اکثریتی قبطیوں سے اس کی مستقل کش مکش بھی تھی۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں تین چار نمایاں تہذیبی گروہ وجود میں آگئے ۔ مدینہ اور اس کے اطراف میں مشرک قبائل بھی تھے اور ان کے علاوہ با اثر یہودی قبائل بھی تھے جن کی معاشرت ، تہذیب اور دین و طرز زندگی ، دیگر عربوں سے بالکل مختلف تھا۔ خود مسلمانوں میں مہاجرین و انصار کے رہن سہن اور تہذیبی طور طریقوں میں بڑا فرق تھا۔ خلفائے راشدین کے ادوار میں جب فارس و روم کے علاقے فتح ہوئے، اور اس کے بعد امویوں اور عباسیوں کے دور میں تو غیر معمولی تہذیبی تنوع (Cultural Diversity) علاقوں میں پیدا ہوگئی۔ مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ، یہودی، عیسائی، زرتشی، ہندو، مشرکین اور افریقہ وایشا کے بہت سے مقامی مذاہب کے ماننے والے اسلامی علاقوں میں رہنے لگے ۔ اسی طرح نسلی اعتبار سے، عرب، ایرانی، ترکی، بربر، پٹھان، مغل، وغیرہ درجنوں قبائلی شناختیں (Ethnic Identities) اسلامی حدود میں آزادانہ رہنے لگیں، چناں چہ کثیری سماجوں کے تجربہ کے معاملہ میں اسلامی تاریخ، بہت مالا مال ہے اور عہد وسطیٰ (Medieval Period) کی بہت کم تاریخیں اس معاملہ میں اتنے تجربات رکھتی ہیں جتنے اسلامی تاریخ کے پاس ہیں۔
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہد وسطیٰ کے عام رجحانات کے برعکس، اسلامی سماجوں میں اقلیتیں نہ صرف امن وسکون سے رہتی تھیں بلکہ ان کے مذہب کو بھی بھر پور تحفظ حاصل تھا۔ ملت کا نظام جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ موجود رہا اور خاص طور پر عثمانی دور میں بہت مستحکم بنیادوں پر قائم رہا، ایک بے نظیر نظام تھا۔ اس کے تحت غیر مسلموں کے پرسنل لا اور مذہبی قوانین کو حکومت نہ صرف تسلیم کرتی تھی بلکہ انھیں یہ حق بھی دیتی تھی کہ وہ متوازی طور پر اپنا عدالتی نظام چلائیں۔ اقلیتوں کو ایک طرح کا تہذیبی حق خود اختیاری حاصل تھا۔ جدید زمانہ کی لبرل ریاستوں میں بھی اقلیتوں کے حقوق کے تصور کو اتنی ترقی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
یہودیوں کو جو تحفظ مسلم ادوار حکومت میں حاصل رہا، وہ یہودیوں کی تاریخ کا سب سے اچھا دور تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائی حکومتوں کے مقابلہ میں مسلم حکومتوں میں یہودی زیادہ مامون و محفوظ تھے ۔ اس بات کو یہودی تاریخ کے کئی ماہرین، مثلاً برنارڈ لیوس(۱)، کلاوڈکیہن(۳) اور مارک کو ہن نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔

تکثیری سماج اور دور جدید

جدید دور میں تکثیری سماجوں کے باقاعدہ مطالعہ کا آغاز نو آبادیاتی دور کے محققین نے ہندوستان، جنوب مغربی ایشیا اور دیگر مشرقی ممالک میں اپنے تجربات کی بنیاد پر کیا۔ نوآبادیاتی دانشوروں کے لیے یہ ایک نئی صورت حال تھی ۔ ان کے نزدیک ان تکثیری سماجوں میں مختلف مذہبی، تہذیبی اور لسانی گروہوں کو جوڑنے والی کوئی اندرونی قدر موجود نہیں تھی اور صرف بیرونی حکومت کے جبر کی وجہ سے وہ ایک اکائی بنے ہوئے تھے۔ مثلاً فرنی وال نے تکثیری سماج کی تعریف اس طرح کی ہے:

“A society comprising two or more elements or social orders which live side by side yet without mingling, in one political unit.”

یعنی ایک ایسا سماج جس میں دو یا دو سے زیادہ عناصر یا سماجی نظام ایک دوسرے کے بازو رہتے ہیں، لیکن ایک سیاسی وحدت کا حصہ نہیں بن پاتے۔(۳)
فرنی وال نے اپنی تحریروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان سماجوں میں ہر فرقہ کی قدریں دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کے درمیان اتفاق رائے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ بلکہ کوئی مشترک سماجی طلب( Common Social Demand) بھی موجود نہیں ہے،اور اس وجہ سے ان سماجوں میں ہمیشہ پر تشدد ٹکراؤ کے خطرات لاحق رہتے ہیں،اور یہاں امن وامان کے لیے کسی بیرونی طاقت (یعنی نوآبادیاتی استعمار ) کی موجودگی ضروری ہے۔(۳)
فرنی وال کے بعد کے مغربی مصنفین کے پاس بھی اس طرح کے سماجوں کے لیے پر امن بقائے باہم کا کوئی وژن نہیں تھا۔ اسمتھ نے اس طرح کے سماجوں میں کسی ایک تہذیبی گروہ کے تسلط( monopoly)کو ضروری قرار دیا ہے ۔(۵)
ان خیالات میں اس وقت تبدیلی واقع ہوئی جب بیسویں صدی کے وسط میں ایک طرف نو آبادیاتی تسلط ختم ہوا ( اور بیرونی طاقت کے بغیر، ایشیا کے تکثیری معاشرے امن کے ساتھ رہنے لگے۔) اور دوسری طرف بڑے پیمانہ پر مہاجرتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور خاص طور پرامریکہ میں مہاجروں کا بڑا گروہ آباد ہوا۔
جدید عمرانیات (Sociology) میں ، تکثیری سماجوں کے تعلق سے دو طرح کے نظریے پائے جاتے ہیں ۔ ایک خیال وہ ہے جسے گدازدان کا نظریہ Maling Pot Theory کہا جاتا ہے۔ اس میں سماج کو دھاتوں کو پگھلانے والے برتن یا شربت ایک جار سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ شربت کے جار میں مختلف اشیاء پگھل کر ایک بن جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر شے کا جدا گانہ رنگ و مزہ ختم ہو جاتا ہے اور ان سب کے امتزاج سے ایک نیا رنگ اور نیا مزہ پیدا ہوتا ہے۔
جس چیز کی مقدار زیادہ ہو اس کا مزہ اور رنگ غالب ہوتا ہے۔ کم مقدار کی اشیاء بھی شربت کے رنگ اور مزہ پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن، ان کی علیٰحدہ شناخت اور تشخص باقی نہیں رہتا۔ ان سب کے رنگ و بو کے امتزاج سے ایک نیا رنگ اور ایک نئی بو کی حامل نئی چیز تیار ہو جاتی ہے ۔(۶)
روایتی طور پر یورپ کے اکثر ملکوں خصوصاً فرانس میں اس خیال کو قبول عام حاصل ہے۔
فرانس کے اکثر اہل علم اپنے ملک میں دوسری تہذیبوں سے متعلق افراد کو خوش آمدید کہنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ وہ فرانس کی تہذیب کا غالب اثر قبول کریں اور اپنی انفرادیت پر اصرار نہ کریں، بلکہ فرانسیسی جمہوریت کے اصول ثلاثہ et indivisibilité unité Etat de llaïcité (فرنیچ عوام کا اتحاد اور ان کا نا قابل تقسیم ہونا ) du peuple français ریاست کو سیکولر ہونا) اور nationale identité ( فرانس کی قومی شناخت ) خود اس تہذیبی یک رنگ پسندی کو ظاہر کرتے ہیں۔
امریکہ میں مقامیت پسندی (Nativism) کی تحریک بہت قدیم ہے۔ اس تحریک نے امریکہ میں انگریزی کے مقابلہ میں دوسری زبانوں کو پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ نئے عالمی منظر نامہ میں اب یہ تحریک اور زیادہ مضبوط ہوچکی ہے۔
ہندوستان میں احیاء پرست ہندو تحریک اسی خیال کی حامی ہے۔ ان کا بھی اقلیتوں سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ اپنی تہذیبی شناخت پر اصرار نہ کریں۔ قومی دھارے میں شامل ہو کر اس کے مشتر کہ رنگ پر اثر انداز بھی ہوں اور اسے قبول بھی کریں۔
دوسرا نظریہ وہ ہے جسے سلاد بول(Salad Bowl)نظر یہ کہا جاتا ہے، اس میں سماج کو سلاد کی ایسی پلیٹ سے تشبیہ دی جاتی ہے جس میں مختلف اشیاء شامل ہیں لیکن ہر ایک کا اپنا جدا گانه رنگ و مزہ برقرار ہے،اور سلاد کا حصہ بننے کے نتیجہ میں کسی کی بھی شناخت ختم نہیں ہوتی اور آپ صاف پہچان لیتے ہیں کہ یہ گاجر ہے، یہ ککڑی ہے اور یہ زیتون ہے۔ یعنی ہرا کائی اپنے تشخص اور علیٰحدہ شناخت کے ساتھ ایک وسیع تر اجتماعیت کا حصہ بنتی ہے۔(۷)
اس رنگارنگی کو مابعد جدید (Post modern) دور کی ایک خصوصیت باور کرایا جاتا ہے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پوسٹ ماڈرن مفکرین قومی شناخت پر اصرار اور کسی مخصوص نظریہ کو درست سمجھنے پر اصرار کو غلط سمجھتے ہیں۔ سماج میں طرح طرح کے خیالات، رویوں، رجحانات اور تہذیبوں کی موجودگی کو وہ تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ ان کےنزدیک مطلوب اور پسندیدہ ہے۔

اسلام کا موقف

اسلام نے تکثیریت کے معاملہ میں دین کے بنیادی اصولوں، احکام، رہن سہن، بود وباش اور زبان وغیرہ امور کے درمیان فرق کیا ہے۔ دین کے سوا اور دین کے اصولوں کے دائرہ میں رہن سہن اور طور طریقوں کا جو تنوع (diversity) ہے اس معاملہ میں اسلام سلاد بول پلورلزم کا قائل ہے اور اسے تحسین کی نگاہ سے بھی دیکھتا ہے۔ یعنی اسلام چاہتا ہے کہ یہ تنوع (diversity) باقی رہے اور سماج میں رنگارنگی موجودر ہے۔ اس لیے کہ اس تنوع کے انسانوں کوفائدے ہیں اور یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

وَمِنَ اٰیاتِہ خَلْقُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ السِنَتِكُمْ وَالْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لاٰيٰت لِلعٰلَمِینَ

(اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمھاری
زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف ہے۔)(۸)

يأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنٰكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ اكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ اتقٰكُم

(اے لوگو، ہم نے تمھیںایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور شعوب بنائے تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔)(۹)
اس آیت کریمہ میں قبیلوں اور شعوب کا مقصد تعارف یعنی شناخت (identity)بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان شناختوں کا وجود اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اہم تمدنی ضرورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی عرب کی قبائلی شناختوں کو ختم نہیں کیا،البتہ ان شناختوں کی بنیاد پر تفریق اور اوراو نچ نیچ کے نظریات کو ختم کیا۔
دین کے معاملہ میں، اسلام پہلے نظریہ یعنی Melting Pot گدزدان کے نظریہ کو نہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اور نہ دوسروں کے لیے ۔ یعنی نہ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اسلام کے ماننے والے دوسری تہذیبوں میں مدغم ہو جائیں اور نہ دوسروں کو اپنے اندر ملانے کے لیے اپنے رنگ اور یہ ان کے و بو میں کسی کمی کو وہ پسند کرتا ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں سے بے آمیز اور خالص اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔اسلام ہر مذہب کے ماننے والے کو آزادی دیتا ہے۔

لَا إِكْرَاهَ فِى الدِّينِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ

(دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔)(۱۱)

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُر

( صاف کہہ دو کہ یہ حق ہےتمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔)
اےاس طرح گویا مذاہب کے معاملہ میں ہر مذہب کے ماننے والے کو وہ یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ کے انسانوں کو اپنی جداگانہ دینی شناخت باقی رکھ سکیں۔ غیر مسلموں کے تعلق سے یہ قاعدہ کلیہ مقررفرمادیا گیا۔

فهم احرار في شهاداتهم ومناكحاتهم ومواريثهم و جميع احكامهم

( وه آزادہیں اپنے شادی بیاہ کے معاملات میں، گواہیوں وغیرہ کے قانون میں ، وراثت کے قانون اور ان سے متعلق قوانین میں۔)(۱۲)
حضرت عمر نے عجمی غیر مسلموں کے تعلق سے یہ اصول مقرر کیا۔

و ان نلزم زينا حيث ماکنا

( جو کچھ وہ پہنتے تھے وہی پہنیں گے ۔)(۱۳)
علامہ شبلی نعمانی نے حضرت عمرؓ کے بعض ان معاہدات کی عبارتیں نقل کی ہیں جو انھوں نے غیر مسلم رعایا کے ساتھ کیے تھے۔ مثلاً حذیفہ بن الیمانؓ نے ماہ دینار والوں کو جو تحریری ضمانت دی تھی اس کے الفاظ یہ ہیں:

لا يغيرون عن . ملة ولا يحال بينهم و بين شرائعهم

( ان کا مذہب نہ بدلا جائے گا اور ان کے ان امور میں جن کا تعلق ان کی شریعتوں سے ہے، کوئی دخل اندازی نہیں کی جائے گی ۔)(۱۴)
جر جان کی فتح کے وقت جو معاہدہ کیا گیا تھا اس میں یہ الفاظ بھی تھے:

لهم الأمان على انفسهم وأموالهم وشرائعهم لا يغير بشيء من ذالك

( ان کے لیے امان ہے، ان کی جانوں کے لیے، ان کے اموال کے لیے اور ان کی شریعتوں کے لیے اوراس میں سے کسی شے میں کوئی تغیر نہیں کیا جائے گا ۔)(۱۵)
اسلام کے نہ ماننے والوں کو دی گئی یہ مذہبی آزادی ، اسلام کا صرف ایک اصول نہیں ہے، بلکہ اسلامی فکر اساسیات میں شامل ہے۔ یہ آزادی اللہ کی مشیت کا حصہ ہے، اس لیے کہ اس اسلام کے نہ مانے آزادی سے اللہ تعالی انسانوں کو آزماتا ہے ۔

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ

( بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔اسی آزادی انتخاب واختیار کے لیے ہی تو اس نے انھیں پیدا کیا تھا۔)(۱۶)
دین کے معاملہ میں جبر نہ صرف اسلام کو پسند نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم میں خلل اندازی ہے۔

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَانْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِين

( اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے ۔ پھر ( جب رب نے ان کو جبراً مومن نہیں بنایا تو ) کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں؟)(۱۶)
لیکن اس رواداری کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام دین کے معاملہ میں اس رنگا رنگی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا (Celebrete) ہے اور چاہتا ہے کہ یہ مذہبی رنگا رنگی سماج میں باقی رہے۔ اسلام مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی ضرور دیتا ہے، لیکن اس کا مطلوب اور اس کی تمنا یہ نہیں ہے کہ سماج میں تہذیبی رنگارنگی کی طرح مذہبی رنگا رنگی بھی جوں کی توں باقی رہے۔ دین کا معاملہ اسلام کے نزدیک سچائی کا معاملہ ہے۔ اس سچائی کو قبول کرنے یا نہ کرنےکی آزادی انسان کو حاصل ہے، لیکن اسلام کی عین آرزو یہ ہے کہ لوگ اس سچائی کو قبول کریں۔

لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ امَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّور

( دین کے معاملے میں کوئی ززور زبردستی نہیں ہے۔صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ جس کا سہارا اس نے لیا ہے وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔)(۱۷)
اسلام چاہتا ہے کہ مذاہب کے ماننے والوں سے پر امن مکالمات اور ڈائیلاگ کا سلسلہ چلتا ر ہے۔ حق کی تلاش کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا جائے ، ان پر حق واضح کیا جائے اور لوگ بغیر کسی جبر و اکراہ کے اپنی آمادگی اور خوشی سے دین حق کی طرف مائل ہوں ۔
غیر مسلموں پر حق کو واضح کرنے کی اس کوشش کے سلسلہ میں بھی اسلام نے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ نہ صرف ان میں جبر و اکراہ کا کوئی پہلو موجود نہ ہو، بلکہ یہ مباحثے شائستگی کی حدود سے بھی متجاوز نہ ہوں اور ان میں غیر مسلموں اور ان کے معبودوں کی ناشائستہ تو ہین سے گریز کیا جائے ۔

 وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

( اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر احسن طریقہ سے ۔)(۱۸)

 وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدواً بِغَيْرِ عِلم

(اے ایمان لانے والو، یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں، انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کوگالیاں دینے لگیں ۔)(۱۹)
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کا غیر مسلموں سے رشتہ پر امن بقائے باہم کے ساتھ صحت مندمذاکرات کی بنیاد پر استوار رہا ہے۔ مسلمانوں نے غیر مسلموں سے اچھی اور قابل قبول چیزیں بغیر کسی تعصب کے قبول کیں۔ ان کے مذاہب کو جانا اور سمجھا اور ان سےڈائلاگ و مذاکرات کا تعلق قائم رکھا۔
ہندو ،کنفیوشس ، رومی اور یونانی تہذیبوں سے مختلف علوم مسلمانوں نے سیکھےاور ان علوم کو اپنی کوششوں سے اور مالا مال کیا۔ ابوریحان البیرونی پہلا محقق تھا جس نے کسی اور مذہب کا تفصیلی اور سائنٹفک مطالعہ کیا۔ اس کی کتاب ’’کتاب الہند ‘‘اس موضوع پر آج بھی ایک مستند کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس طرح اسلام جو تکثیری سماج چاہتا ہے، اس کی خصوصیات یہ ہوں گی:
(1)اہل اسلام کو اسلام پر عمل کرنے اور اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھنے کی پوری آزادی۔
(2) دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اپنی مذہبی شناخت برقرار رکھنے کی پوری آزادی۔
(3)مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان صحت مند مذاکرات ، اور قبول حق کی آزادی۔

امت مسلمہ کا مطلوب کردار

اس تکثیری سماج میں اسلام اپنے ماننے والوں کو اسلام کا نمائندہ بناتا ہے اور انھیںیہ مشن دیتا ہے کہ وہ معاشرہ پر اثر انداز ہوں۔ لوگوں کو اپنی پسند کے مطابق دین اور مذہب اختیار کرنے کی پوری آزادی ہو، لیکن مسلمان اپنے قول، مستقل ڈائلاگ و کمیونکیشن اور اپنے رویوں سے ایسی صورت حال پیدا کریں کہ لوگ اپنی آزادی کا استعمال اپنی رضامندی و خوشی سے حق کو قبول کرنے کے لیے کریں۔ اسلام کی اس نمائندگی کا کام ہی امت کا اصل مشن ہے۔اسی مشن کو ہم شہادت حق ، اقامت دین وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔اقامت دین کا یہ کام دو اہم کاموں سے عبارت ہے۔ حفاظت دین اور نصرت دین۔
تکثیری معاشروں میں دین کے جو کچھ اجزاء موجود ہیں ،ان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ حفاظت دین میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مسلمانوں کی مسجدیں محفوظ رہیں، ان کے قوانین کے جو کچھ اجزاء تکثیری معاشرہ میں قبول کر لیے گئے ہیں، وہ ( مثلاً ہندوستان کے احوال میں پرسنل لا) محفوظ رہیں۔ دین پر چلنے، دین کی تعلیم، تبلیغ اور دین کو قبول کرنے کی آزادی برقرار رہے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دین کے حاملین یعنی مسلمانوں کی حفاظت ہو، ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو اور یہ بھی کہ وہ قوانین جو دین کے مقاصد ، مزاج اور اخلاقی تصورات سے قریب ترہیں، ان کی حفاظت ہو ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ کام دعوت سے ہٹ کر یا الگ نہیں ہیں۔ تکثیری معاشرہ میں ان کاموں کی حیثیت دین کی حفاظت کے کاموں کی ہے،اور موجود اور محفوظ چیزوں سے صرف نظر کر کے صرف غیر موجود عناصر کے پیچھے بھاگنا عقل مندی نہیں ہے ۔ اس کام کو عدل و انصاف کے تقاضوں کی رعایت کے ساتھ اس طرح کرنا چاہیے کہ ان سے غیر ضروری قو می کش مکش نہ پیداہو لیکن کش مکش کے ڈر سے اس کام کو ہی نظر انداز کرنا، صحیح حکمت عملی نہیں ہوگی۔
دوسرا کام وہ ہے جسے نصرت دین کہا جاتا ہے۔ یعنی دین کے جو اجزاء قائم نہیں ہیں ان کو قائم کرنے کا کام ۔ اس میں غیر مسلموں میں اسلام کی اشاعت کا کام بھی شامل ہے اور اجتماعی زندگی میں اسلام کے چھوٹے ہوئے اجزاء کو قائم کرنا بھی۔
تکثیری سماج میں اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تین محاذوں پر کام ضروری ہے:
(1)اسلام کے حق میں مکالمہ، ڈائیلاگ اور دعوت
(2)اسلام کی عملی شہادت
(3)مسلمانوں کی اصلاح اور اہل اسلام کی قوت میں اضافہ
تکثیری سماجوں میں تحریک کی حکمت عملی کا اہم ترین جزو، دعوت کا کام ہے۔ مسلمان کی اصل حیثیت داعی ہی کی ہے،اور ایک ایسے ملک میں جہاں اکثریت اسلام پر یقین نہیں رکھتی، مسلمان دعوت کے کام سے بالکل غافل نہیں ہو سکتا، بلکہ بعض اہل علم کے نزدیک تو تکثیری سماجوں کی طرف مسلمانوں کی مہاجرت اسی وقت جائز ہو سکتی ہے جب وہ دعوت کو اپنا مشن بنا ئیں ۔ مولانا تقی عثمانی(۲۰)، خرم مراد(۲۱)، علامه ابن باز(۲۲) وغیرہ کئی اہل علم نے اس رائے کااظہار کیا ہے۔
عملی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے انفرادی و اجتماعی رویوں سے اسلام کی وضاحت کریں اور اس کا حق اور نفع بخش ہونا ثابت کریں۔ داعیوں کے عمل اور داعی گروہ کے اجتماعی رویوں سے اسلام سمجھ میں آنے لگے۔ یہی وہ بات ہے جسے قرآن کـــونــوا قـوامـیـن بالقسط اور شہداء للہ کے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ گویا انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہونے اور اللہ کے لیے گواہی دینے میں ایک تعلق ہے اور وہ تعلق ظاہر ہے، یہ ہے کہ عدل و انصاف کی جدو جہد سے اسلام کا Concern اور اس کے مقاصد لوگوں کے سامنے کھل کر آجاتے ہیں۔
مذکورہ مقصد کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں امت کا رویہ فعال، حرکی اور شمولیت کا Participative ہو ۔ امت تکثیری سماج کی عام زندگی سے الگ تھلگ ہو کر نہ ر ہے۔ نہ مسلم Ghetto میں خود کو مقید کر لے۔ انفرادی سطح پر بھی اور بحیثیت امت اجتماعی سطح پر بھی ، وہ اپنے سماج کو دینے والی بنے۔ اور اس کی دین Contributions سے اور انداز کار سے اسلام کے مزاج اور اس کی تعلیمات کا ابلاغ ہو۔
تیسرا کام یعنی مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی طاقت میں اضافہ کا کام مسلمانوں سے متعلق ہے۔ مسلمان تکثیری سماج میں اسلام کی علامت ہوتے ہیں۔ اپنے بگاڑ اور خرابیوں کے با وجود، اسلام کی طاقت مسلمانوں سے ہی drive ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی سماجی کمزوری اسلام کو بھی کم زور کرتی ہے۔ مسلمانوں میں اصلاح کا بنیادی کام بھی کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی قوت میں اضافہ کا کام بھی کرنا ہے، تا کہ اسلام کی قوت بڑھے اور اسلام زیادہ بہترطور پر سوسائٹی پر اثر انداز ہو سکے۔

حواشی و حوالہ جات:

1)Bernard Lewis, Jews of Islam
(New Jersey: Princeton University Press, 1987)
2)Mark R Cohen, Under Crescent and Cross, The Jews in the Middle East
(New Jersey: Princeton University Press, 1998)
3)J.S. Furnivall; Netherlands India, A Study of Plural Economy;
London; 1939; page 447
4)J.S. Furnivall, Colonial Policy and Practice (Cambridge:
Cambridge University Press, 1948)
5)M.G. Smith, “Institutional and Political Conditions of Pluralism,” in
Pluralism in Africa, ed. By L. Kuper and M.G. Smith (Berkeley: University of California Press, 1965), pp. 32-33
6)Encyclopedia Britannica; chapter on Multiculturalism; at, https://www.britannica.com/topic/multiculturalism; retrieved on 6-12-2017
7)Philip Q. Yang; Ethnic Studies, Issues and Approaches: State University of NewYork Press; New York; 2000; page 87

۸)سورۃالروم، آیت: 22
۹)سورۃ الحجرات ، آیت : 13
۱۰)سورۃ البقره : 256
۱۱)سورۃالکهف : 29
۱۲)ابن زنجو یہ ،کتاب الاموال ، رقم الحدیث : 447
http://ibrary.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=134&pid=29204&hid-447
retrieved on 6-12-2017
۱۳)شبلی نعمانی، الفاروق، دار الاشاعت مصطفائی ، دہلی ، صفحہ : 271 ،بحوالہ: کنز العمال، جلد ، 2 صفحہ: 30214
۱۴)ایضاً، صفحہ: 267بحوالہ: طبری، صفحہ: 2623
۱۵)ایضاً، صفحہ : 267 ،بحوالہ طبری، صفحہ: 2662
۱۶)سورہ ہود، آیت : 119
۱۷)سورۃالعنکبوت، آیت : 46
۱۸)سورۃ البقره : 256
۱۹)سورۃالانعام ،آیت : 108
۲۰)مفتی تقی عثمانی ، فقہی مقالات، جلد اول، میمن اسلامک پبلشرز، کراچی،2011 ،صفحہ233 تا237

21)Khurram Murad, Dawah Among Non Muslims in West, Islamic
Foundation, Leicester; 2007,

۲۲)عبدالعزیز بن عبدالله بن باز و دیگر ،فتاویٰ دار الافتاء سعودی عرب جلد دوم،دار السلام پبلشرز، ریاض ، صفحہ : 74,75

23)Tove Malloy and Francesco Palemrmo (Ed.),Minority Accomodation through Territorial and non Territorial Autonomy; see the Chapter ‘Non Territorial Millets in Ottoman History, Oxford University Press;
Oxford: 2015, pages 119-132

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴