مارچ ۲۰۲۴
زمرہ : ادراك

اکثر طالبات کے سامنے یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کس فیلڈ کا انتخاب کریں؟ کس فیلڈ میں ان کےلیے Scope ہے ؟عموماً ہوتا تو یہی ہے کہ طالبات ان ہی معروف شعبہ جات کاانتخاب کرتی ہیں، جہاں دوسری طالبات ایڈمیشن لے رہی ہوتی ہیں یا لیتی رہی ہیں۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے ملک و ملت کی ترقی میں تعلیم یافتہ فرد اس خلا کو پر کرے،جو موجود ہے ۔
ہندوستان میں خصوصاً مسلم طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کو مشن بنالینا چاہیے۔ بڑے پیمانے پر لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں، تاہم کوشش یہ ہو کہ وہ شعبہ جہاں اب تک خلا ہے یا مسلم طالبات سے جو محاذ بالکل خالی ہیں،ان کا انتخاب کیاجائے۔
اس حوالے سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے اپنی کتاب’’ اسلامی تحریکات اور خواتین ‘‘میں لکھا ہے کہ ہماری طالبات کو سوشل ویلفیئر سے متعلق شعبوں میں اسپیشلائزیشن کرنا چاہیے، خواتین کے سماجی فعالیت کے بہت سے میدان آج بھی خالی ہیں ۔
شعبۂ طب سے بڑے پیمانے پر لڑکیاں جڑ رہی ہیں یا شعبۂ تدریس اور انجینئرنگ کے شعبہ میں کچھ حد تک مسلم طالبات ہیں ۔عالمی سطح پر وہ مسلم طالبات جنھوں نے اپنے علاقے اور قوم و ملک کی ضرورت کا جائزہ لے کر ایسے شعبوں میں خود کو منوایا، جو اب تک بالکل خالی تھے ۔
یہاں ہم کچھ عالمی سطح کی مسلم طالبات کی مثالیں پیش کریں گے، ممکن ہے اس کوپڑھ اور جان کر اپنے ملک و قوم کے حالات، مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور اقدار سے خالی ہوتے جمہوری نظام کو بہتر بنانے میں ہماری طالبات ایک مضبوط کردار پیش کریں ۔
الہام القرضاوی مشہور عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کی دختر ہیں۔ انھوں نے تین پی ایچ ڈی کی ہیں۔نے قطر یونیورسٹی سے شریعت اور اسلامی قانون کی پروفیسر ہیں، اس کے بعد انھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری یونیورسٹی آف لندن سے Radiation physics (نیوکلیئر فزکس)میں حاصل کی ہے ۔الہام القرضاوی قطرمیں رہائش پذیر مصنفہ، مفکرہ، اور الجزیرہ ٹیلی ویژن کی مانی جانی شخصیت ہیں۔الہام القرضاوی نے متعدد کتابیں اور مضامین لکھے ہیں، اور وہ مختلف اسلامی ٹیلی ویژن چینلز پر باقاعدگی سے حاضر ہوتی ہیں۔
عموماً لڑکیاں ، قانون شریعہ یا نیوکلیئر فزکس جیسے شعبوں میں نہیں جاتی ہیں، لیکن اگر ایسے شعبے ملک و قوم اور ملت کے نشان راہ بن سکتے ہوں تو طالبات کابیسک سائنس کے شعبوں میں جانے اور ان میں ریسرچ و تحقیق کا رجحان بننا چاہیے ۔
معاشی سربلندی کے بجائےہمارے ملک میں مسلم مائنیریٹی کو بلند کرنے کا جذبے کی ضرورت ہے ،تاکہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا سلیقہ پیدا ہو،ذاتی مفاد سے ہٹ کر قوم اور ملک کے نقصان پہنچانے والے عوامل کا شعور بڑھانے کے لیے ایسے شعبوں سے منسلک ہونے کی ضرورت ہے، جن میں اب تک میدان خالی ہے ۔
دوسری شخصیت رشیدہ طالب کی ہے۔ یہ ایک فلسطینی نژادامریکن پالٹیشین خاتون ہیں ۔یوایس ہاؤس میں خواتین کی نمائندہ ہیں ۔ان کی تعلیمی شعبے ماحولیات کا تحفظ اور عدل انصاف کا قیام ہے، خصوصاً انھوں نے رفیوجی کیمپ کے بچوں میں معاشی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنےکو اپنا مشن بنالیا ہے۔ تعلیم اور اس تعلیم کے حصول کے ذریعہ سماجی کاز سے خود کو جوڑنے میں ان کا کام بے مثال ہے ۔
اسی طرح تیسری خاتون احد تمیمی ہے۔یہ فلسطینی لڑکی ایک جرنلسٹ ہے ،جو الجزیرہ پر اپنے ملک کے حالات سے آگاہی فراہم کرتی ہے۔تمیمی کایہ کام جرأت و بہادری سے جڑاہوا ہے۔ یہ جب گیارہ سال کی تھی تب اس نے ایک اسرئیلی فوجی کو اس کے ظلم کا جواب بڑی جرأت کے ساتھ دیا تھا، جس کی ویڈیو موجود ہے۔
یہ وہ لڑکیاں ہیں جو اپنے ملک کی اور عوام کی ضرورت کو سمجھتی ہیں ۔علم کا حصول وہی کارآمد ہےجو ملک و ملت کی ضرورت کو پورا کرے ۔

وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَهَ وَرَسُولَهُۥٓ ۚ أُوْلَٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَهُ إِنَّ ٱللَهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

(مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیں ،برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔یہ وہی ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ حکمت والا ہے ۔)
قرآن بھی جس طرح مومن مرد اور مومن عورتوں کی تصویر پیش کرتا ہے ،یہی ہے کہ وہ اپنی ذات کو لوگوں کی بھلائی کے لیے صرف کرتے ہیں، وہ قومیں جو صرف اپنے مادی ضروریات کے حصول ہی کو مطمح نظر بنالیتی ہیں ،اپنی ہی ضرورتوں کے حصول میں شب وروز گزارتی ہیں، وہ بلاشبہ وہ بے اثر ہوجاتی ہیں، قومی سطح پر وہ قعر مذلت کو اپنے لیے پسند کرلیتی ہیں ،اور جو اپنے زندگی کو پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے صرف کرتے ہیں اور نفرت پھیلانے والوں کے برعکس اپنی قابلیت سے دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں ،وہی باقی رہتے ہیں ۔
توکل کرمان ایک یمنی خاتون ہیں، جنھیں انٹرنیشنل امن کا ایوارڈ ملا ہے۔ اس خاتون نے مظلوم خواتین آواز بلند کرنے کے لیے جرنلزم کو ایک بے باک شعبہ بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ توکل کرمان ایک سوشل ورکر ہیں اور خواتین کے ایک گروپ کو لیڈ کرتی ہیں۔انھوں نے Women Journalists Without Chains, یمنی خواتین کی تبدیلی ،خصوصاً مظلوموں کی آواز بننے پر اپنی زندگی صرف کردی ۔
مصری کیمبرج یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ، جن کا نام عائشہ الصفتی ہے۔ انھوںنےAdHoc networkingمیں اسپیشلائزیشن کیا ہے ۔جن جنگ زدہ علاقوں میں نیٹ ورک بند ہوجاتا ہے وہاںسے مظلومین کی آواز یاان تک امداد کی خبر نہیں پہنچ پاتی ہے،وہاں یہ نیٹ ورک بند نہ ہوں اور ان کا رابطہ دنیا سے جڑا رہے اس حوالے سےانھوں نے کام کیا ہے۔ فلسطین کے جرنلسٹس نےاسرئیلی بربریت کے دوران ایڈہاک نٹ سرکنگ سے استفادہ کیا ہے ۔
ہمارے ملک میں مسلم طالبات کو بھی اسی طرح کی ضرورت کے مطابق شعبہ ہائے تعلیم کو اپنانا چاہیے، جو انسانیت کو درپیش مسائل میں سہارا بن سکے۔ اعلیٰ تعلیم سے بچیوں کوروک کر صرف بے مصرف زندگی کا خیال کار عبث ہے ۔آج جن حالات سے ہم ہندوستان میں گزر رہے ہیں، اس کا ازالہ صرف تعلیمی شعور ہی سے ممکن ہے ۔سماجی کاز کے علاوہ بھی ایک ماں کو نہ صرف یہ کہ تعلیم یافتہ ہونا چاہیے ،بلکہ اپنی نسلوں کی تربیت کے لیے عقابی نگاہ رکھنا چاہیے ۔
ہندوستان میں بھی اعلیٰ تعلیم کے بہت سے میدان تاحال خالی ہیں، جیسے معاشیات میں کوئی ماہر معاشیات خاتون ہو، آج بھی ایسی مسلم خاتون کی ضرورت ہے جو ہندوستان میں نرملا سیتا رمن بہن کے پیش کیے گئے بجٹ پر نظر ثانی کرسکے اور اس کا تجزیہ کرسکے انسانی ویلفیئر کے لیے کتنا اور تعلیم و صحت پر کتنا خرچ ہورہا ہے ۔
مجموعی اعتبار ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کا بڑھتا گراف واضح ہے جو آل انڈیا ایجوکیشن سروے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ہندوستان میں طالبات کی اعلیٰ تعلیم کی شرح کویہ اعداد وشمار واضح کرتے ہیں:
مجموعی اعلیٰ تعلیم کی شرح : % 27.3
مردوں کی اعلیٰ تعلیم کی شرح: % 30.2
عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی شرح: % 24.5
گریجویشن کی سطح پر طالبات کا تناسب: % 48.6
پوسٹ گریجویشن کی سطح پر طالبات کا تناسب : 47.2%
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان میں طالبات تیزی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں، تاہم مسلم طالبات کاان میں کیا فی صدہےیا ان کی اعلیٰ تعلیم میں موجود مزاحمتوں میں سب سے بڑی مزاحمت ہماری سوچ اور مزاج کا نہیں ہے ؟
کیا ہم علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کی طرح اس ضرورت کوپوری یا اس خلا کو دور کرنے کے لیے اپنی لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم سے متعلق اتنا ہی واضح موقف رکھتے ہیں؟ کیا ان حالات میں جو مایوس کن ہیں ،ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور لائحۂ عمل ہے کہ تعلیمی اعتبار سے ملک کی ضرورت بن جائیں؟کیا واقعی بڑے پیمانے پر اعلی ٰتعلیم کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. مدیحہ

    اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے????
    حالات کے پیرائے میں بہترین رہنمائی۔
    انشاءاللہ آ پ کی تحریر یوتھ کیلے مشعل راہ ثابت ہوگی۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴