مارچ ۲۰۲۴

علم میں وسعت ہو تو فکرو نظر میں وسعت ہوتی ہے، نیت صالح ہو تو سینے میں فراخی اور ظرف میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ (شیخ محمدالغزالی )
واقعی وسیع علم دور رس نگاہ بخشتا ہے، اور نیک نیت اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم کرتی ہے۔ اس سے ہی دنیا میں صالح اور عظیم انقلابات رونما ہوئے ہیں ، چاہے تبدیلیاں او ر اصلاحات مرد کے ذریعہ رونما ہوں یا عورتوں اور مردوں دونوں کے ذریعہ۔
قدرت نے عورت کو صنفی اعتبار سے مرد سے مختلف بنایا ہے، جسمانی ونفسیاتی اختلاف رکھا ہے، لیکن کئی خاصیتیں یکساں دونوں کو دی ہیں۔ عقل وفہم ، دانش مندی سیکھنے سکھانے کی صلاحیت بھی دونوں کو بخشی ہے اور ان صلاحیتوں کے نفع بخش استعمال کی بھی دین اسلام تلقین کرتا ہے۔

اسلامی تعلیمات

مدینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی خواہش اور حصول علم کے شوق کو دیکھ کر ان کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا تھا، اور ایک علیٰحدہ مقام پر علمی مجلس کا اہتمام فرما یا تھا،تاکہ آسانی اور سہولت کے ساتھ خواتین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرسکیں۔
ایک موقع پر حضرت عائشہ ؓنے انصار کی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ انصارکی عورتیں کیا ہی اچھی ہوتی ہیں کہ حصول علم میں شرم ان کے آڑے نہیں آتی۔ (صحیح بخاری)
تحصیل علم ہو یا انسانی سماج کو نفع پہچانے والے دیگر میدان ہوں، اسلامی تعلیمات نے مردو خواتین دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں فعال رول ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

خیرالناس من ینفع ا لناس

(انسانوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے نفع بخش ہو۔)
اس اعزاز کے مستحق مردوعورت دونوں ہیں، جو بھی انسانیت کے لیےفائدہ مند کاموں میں اپنی صلاحیت، وقت اور اثاثہ لگائے، اس کا شمار خدا کےپاس بہترین اور پسندیدہ افراد میں ہوگا۔
اسلامی تاریخ بھی بتلاتی ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ جن خواتین کو اپنے گھر اور معا شرہ کے تئیں ذمہ داریوں کا احساس ہوتا تھا۔ انھوں نے اسلامی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے مختلف میدانوں میں اپنے فعال کردار کے ذریعہ نمایاں کام
ا نجام دیئے۔

اسلامی تاریخ سے

امت مسلمہ پر ماں خدیجہ ؓکا وہ احسان ناقابل فراموش ہے کہ انھوں نے اپنی مستحکم تجارت ،مال واسباب اسلام کی اشاعت میں صرف کردیا۔ سب سے پہلے اسلام کی حقانیت کی گواہی دےکر آپ کی تصدیق کی ۔نبوت کے ابتدائی ایام میں نبی ﷺ وحی کے نئے اور بے قرار کرنے والے تجربے سے گزررہے تھے۔ اس وقت حضرت خدیجہؓ کی فہم وفراست ،محبت و درد مندی نبی ﷺ اور اسلام کےلیےمضبوط سہارا تھی۔حضرت عائشہؓ کا کردار علم الحدیث میں ،تجارت میں، سماجی بہبود (یتیموں کی کفالت ) میں،میدان سیاست میں قابل ذکر ہے۔
شعر وادب میں بھی آپ ؓ خاص دلچسپی اور کمال رکھتی تھیں۔حضرت شفاؓ کی سیاسی بصیرت اور میڈیکل سائنس سے وا قفیت و خدمت کا بھی تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے۔مشینوں کی ایجاد سے بہت پہلے دور نبوی میں ام المومنین حضرت زینبؓ اور حضرت اسماءؓ چمڑے کی ہاتھوں سے دباغت کے پر مشقت فن سے واقف تھیں، اس کے کسب سے صدقات دیا کرتی تھیں۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمیٰؓ، حضرت حفصہؓ بہترین محدثات تھیں، آپ ﷺ سے سیکڑوں مرد صحابہؓ نے علم حدیث سیکھا تھا۔تابعات میں بھی کئی ماہر علم حدیث و فقہ خو اتین کا نام ملتا ہے، جنھوں نے فقہ وحدیث اور اجتہاد کے میدان میں گراں قدر کارنامے انجام دئیے ہیں۔ جیسے زبیر بن عوامؓ اور حضرت اسماکی پوتی فاطمہ بنت منذر ،جو ممتاز عالمہ وفقیہہ تھیں،فاطمہ بنت یحییٰ اپنے دور کی معروف فقیہہ اور مجتہدہ تھیں۔بعد کے ادوار میں ہمارے ملک ہندوستان میں زیب النسا (اورنگ زیب کی بیٹی) کا ذکر ملتا ہے، جو نہ صرف علم حدیث وفقہ بلکہ علم نجوم، علم ریاضی ، عربی صرف ونحو ، منطق وفلسفہ میں بھی کمال رکھتی تھیں۔
یہ باکمال خواتین وہ تھیں جنھوں نے سماج میں مختلف میدانوں میں فعال کردار اداکیا، لیکن اس دوران اپنے خاندانی نظام کو بھی مستحکم رکھا، اس ذمہ داری سے کنارہ کش نہیں ہوئیں، بلکہ اس کواولین ترجیح دی اور بخوبی نبھایا۔
آج کی ضرورت

میدان صحافت میں

میڈیا عوامی مزاج کو بنانے اور بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ کس طرح میڈیا کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتیں عوام میں نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔دن بدن سماج میں بڑھتی تفریق کا اصل ذمہ دار یہی الکٹرونک اور پرنٹ میڈیا ہے۔ غیر مسلم خواتین کی بڑی تعداد اس میدان میں کوشاں ہے، لیکن یہاں مسلم خواتین کی قلت دیکھی جاتی ہے،یا پھر ایسی لبرل نام نہاد مسلم خواتین ہیں جو خود اسلام سے دور ہیں اور اسلامی تعلیمات کا غلط تعارف پیش کرتی ہیں۔
اسی لیے مرد وں کے ساتھ ساتھ مسلم عورتیں بھی مؤکدہ حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے اس میدان صحافت میں فعال کردار ادا کریں، تو یہ ملک وملت کے لیے بہت نفع بخش ہے۔

نفرتی ماحول کو مٹانے کا عزم

فرقہ پرست عناصر کی گھٹیا اور تباہ کن سوچ اور اس کے بھیانک نقصانات سے آگاہ کرنا
مثبت اور تعمیری کاموں کی طرف عوام کو راغب کرنا
مختلف مسائل کا اسلامی حل اور اس کے ثمرات (بشمول عورتوں کے مسائل)کو عوام کے سامنے لانا
اسلامی تعلیمات کی عام کی گئی غلط شبیہ (خصوصاًعورتوں کے متعلق احکام )کو درست کرنا اور حقیقی اور فائدہ مند تصویر سامنےلانا
ان اہداف کو مدنظر رکھ کر مسلم خواتین کو میدان صحافت میں قدم جمانا وقت کی لازمی ضرورت ہے۔

سماجی علوم اور سماجی تبدیلی میں ضرورت

سماج کے سنورنے اور بگڑنے میں خواتین بہت اثر انگیز ہوتی ہیں۔ خواتین کی سوچ اور فکر گھر اور خاندان سے ہوتے ہوئے پورے سماج پر اثر انداز ہوتی ہے۔شادی بیاہ کی کئی رسومات جو خالص عورتوں کی ایجاد کی ہوئی ہیں ،وہ تقاریب کا لازمی حصہ بن گئی ہیں، جن پر عمل پیراہونا مرد بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اکثر گھروں کے بیش تر سسٹم ،طور طریقے ،اصول خواتین کے بنائے ہوتے ہیں ،جس پر سارا خاندان عمل کرتا ہے۔
خاندانوں سے مل کر ہی سماج بنتا ہے، جیسے خاندانوں پر خواتین اثر انداز ہوسکتی ہیں، ویسے ہی سماج کی بھی تبدیلی خواتین کے فعال رول سے ممکن ہے۔مؤثرو مثبت تبدیلی کے لیے ضروری ہےکہ خواتین سماجی علوم سے گہری واقفیت حاصل کریں ۔جس طرح ڈاکٹر مریض کے علاج کے لیےمکمل تشخیص کرتا ہے، ساری ضروری ٹیسٹ ،اسکیننگ کرواکر مرض اور مریض سے مکمل واقفیت کے بعد اس کی بنیاد پر علاج کرتا ہے، اسی طرح معاشرہ کے علاج واصلاح کےلیے بھی اس سے گہری واقفیت سماج کی نفسیات کا وسیع علم اس کی بنیاد پر سماجی تبدیلی مؤثر اور دیر پا ہوسکتی ہے۔ساتھ ہی ہرسماجی تبدیلی و اصلاح و رفاہ کے عمل سے پہلے درجہ ذیل نکات پر منحصر مناسب منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔

اہداف کا تعین

کن اہداف کے لیے کس معاشرہ (محلہ )میں کام کرنا ہے؟ اس کی درجہ بندی سماج کے سرکردہ افراد (بلا تفریق مذہب وملت )کو پہلے ہم خیال بنانےکام کا تدریجی طریقۂ کار وغیرہ۔

آرٹ اورکلچر

کسی بھی معاشرہ کے کلچر اور طور طریقوں پر خواتین کے رویوں کا گہرا اثر ہوتا ہے، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ خواتین ہی کلچر وتہذیب کی بنانے والی ا ور محافظ ہوتی ہیں، اور اس بات کی تاریخ گواہ بھی ہے کہ غیر اسلامی استبداد کے درمیان بھی مسلمان خواتین نے اسلامی تشخص و تہذیب کی حفاظت کی اور اپنی نسلوں میں اس کے اثرات منتقل کیے۔ نتیجۃًان کی یہ کوشش اسلامی تہذیب کے احیاء کا سبب بنی۔
آج تو اسلامی تہذیب وتمدن کو چو طرفہ یلغار کاسامنا ہے، اس کو بدنام کرنے اور اس سے رشتہ توڑوانے کی شیطانی کوششیں زوروں پر جاری ہیں۔ ایسے وقت میں ہم خواتین کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے کہ ہم اپنی تہذیب کی بقا کےلیے کمربستہ ہوجائیں ۔اسلام کی شائستہ ونفع بخش تعلیمات کے دفاع و فروغ کےلیے ہم سارے ذرائع استعمال کریں۔

ادب اور لٹریچر

ہماری ادب سے دلچسپی رکھنے والی طالبات کو چاہیے کہ جس زبان میں مہارت ہو اس میں ناول نگاری ،افسانہ نگاری، شاعری اور ڈرامہ نویسی کے ذریعہ اسلامی تہذیب کی خوب صورت اور پر اثر تصویر پیش کریں۔
ناول نگار و کہانی کار مستقبل ساز ہوتا ہے۔ اپنے وژن کے ذریعہ وہ لوگوں کی ذہن سازی کرتا ہے۔ اسلامی دنیا کی عکاسی کرتے ہوئے ناول اورر ڈرامے اگر الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئیں تویہ اسلام کی عظیم خدمت ہوگی۔موجودہ حالات میں امت کو مایوسی اور قنوطیت سے نکال کر عزم وحوصلہ پیدا کرنے میں ادیبائیںاور شاعرات اہم رول اداکرسکتی ہیں۔ ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔

آرٹ

 فائن آرٹ میں مسلم طالبات کی قلت دیکھی جاتی ہے۔عموماً والدین ذہین بچوں کو صرف پروفیشنل کورس کرنے کی ہی طرف راغب کرتے ہیں، حالانکہ ہائی اسکول مین ہی ان کا رجحان چیک کروا کر فنی ذوق رکھنے والے بچوں کو آرٹس و فن کی تعلیم دلوانی چاہیے۔اس فیلڈ میں اعلیٰ تعلیم و مہارت کی سخت ضرورت ہے۔ڈرائنگ ، کیلی گرافی ، کشیدہ کاری کے ذریعہ ہم اپنی اسلامی تہذیب کی ترویج کرسکتے ہیں۔
بچوں کے لیے اصلاحی کارٹونس کی قلت نے تباہی مچارکھی ہے۔مشرکانہ تہذیب یا بے حیائی پر مشتمل مغربی تہذیب کو فروغ دینے والے کارٹونس ہمارے بچوں کے ذہنوں پر بہت برے اثرات ڈال رہے ہیں۔اسلامی قدروں کو دکھلانے والے اینیمیشنس، اصلاحی کارٹون فلمیںہماری نئی نسل میں اسلامی فکر پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔طالبات کو اس میدان میں بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

فقہ، حدیث اور اجتہاد میں

ہماری روشن تاریخ شاہد ہےکہ ہمارے اسلاف میں کئی خواتین تھیں ،جو وقت کی بہترین فقیہات و مجتہدات تھیں، جن سے کئی مرد علما سیکھا کرتے تھے ،کئی محدثات تھیں جن کی شاگردی میں کئی علماء شامل تھے، جن کی مثالیں اوپر دی جاچکی ہیں، لیکن آج ایسی فقیہات اور مجتہد ات نہیں ملتیں ،حالانکہ دینی مدارس سے ہر سال کثیر تعدادمیں طالبات عالمہ بن کر نکل رہی ہیں، لیکن ان ذہین طالبات کو حدیث و فقہ پر عبور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اجتہاد کی اہل ہوسکیں۔طالبات تحقیق وتخصص کے لیے کوشاں رہیں اوراپنے اپنے میدان میں کمال پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

سیاست میں

الیکشن میں خواتین کے لیے33% ریزرویشن کی مانگ کی جارہی ہے۔ جملہ تعدادمیں سے ایک تہائی تعداد خواتین کی رہے گی تو اس میں مسلم خواتین کی شمولیت بھی بہت ضروری ہے۔ ہماری خواتین سیاست سے دور رہیں گی تو مسلم خواتین کی آواز ایوانوں تک کیسے پہنچے گی؟ ہمارے حقوق ، ہمارے مسائل اور اس کا حل سیاست سے دور رہ کرمشکل ہے ۔سیاسی بگاڑ کی اصلاح کی ذمہ داری مردوںکے ساتھ اس میدان کی اہل خواتین پر بھی عائد ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ خواتین میں سیاسی شعور پیدا کرنا ،صحیح نمائندہ کا انتخاب اس کے لیے رائے عامہ کو ہم وار کرنا ، اپنے اسلامی اقدار کے مطابق سیاسی ماحول بنانا؛ یہ تمام کام بھی عورتیں بہت مؤثر طور پر کرسکتی ہیں۔غیر اسلامی نظام میں جو بھی اصول و نظریات بنائے جاتے ہیں، بنانے والا اپنے مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی بناتا ہے۔
مردوں کے تسلط والے موجودہ نظام میں عورتوں کے متعلق بھی جو نظریات اور قوانین بنائے جارہے ہیں، بظاہر بہت دل فریب پیش کیے جارہے ہیں، لیکن اس میں ذاتی خواہشات یا سیاسی مفادات کا حصول مقصود ہے۔خالق انسانیت ،جس نے مرد اور عورت دونوں کو پیدا کیا، اس کی نظر میں دونوں یکساں ہیں۔ عادل و منصف خدا کے بنائے گئے سارے حدود و حقوق مرداور عورت دونوں کے لیے نفع بخش ہیں ،اورا ن حقوق کو حاصل کرنا اور بروئے کار لانا یقیناً پسندیدہ عمل ہے۔

٭ ٭ ٭


پچھلے کچھ سالوں سے ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ کس طرح میڈیا کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتیں عوام میں نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔دن بدن سماج میں بڑھتی تفریق کا اصل ذمہ دار یہی الکٹرونک اور پرنٹ میڈیا ہے۔ غیر مسلم خواتین کی بڑی تعداد اس میدان میں کوشاں ہے، لیکن یہاں مسلم خواتین کی قلت دیکھی جاتی ہے،یا پھر ایسی لبرل نام نہاد مسلم خواتین ہیں جو خود اسلام سے دور ہیں اور اسلامی تعلیمات کا غلط تعارف پیش کرتی ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴