مارچ ۲۰۲۴

دنیا میں تیز رفتاری کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ کامیابی کے فن میں مہارت حاصل کیے بغیر ان تبدیلیوں کے ساتھ چلنا ایساہی ہے جیسے بوجھل قدموں کے ساتھ دوڑ کے مقابلے میں شرکت کرنا۔جس طرح سمندر میں گوہر کی تلاش کے لیے غوطہ زن کو اپنے فن میں مہارت کی ضرورت ہے، اسی طرح بندوں کو مایوسی اور پست ہمتی سے نکالنے کے لیے کامیابی کے فن سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
اکثر لوگ کامیاب زندگی گزارنے کی تلاش میں نکلتے ہیں، لیکن غلط سمت میں نکل جانے کی وجہ سے اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں،انھیں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملتا ،ان کے اعصاب ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، قوت جواب دے دیتی ہے، حیرانی کے عالم میں کچھ سجھائی نہیں دیتا، حسرت اور افسوس کے ساتھ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں کامیابی کا سراغ مل جاتا ہے اور وہ پختہ عزم و ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
زیر نظر کتاب:’’ اکیسویں صدی میں کامیابی کا سفر،کامیاب زندگی ‘‘،اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر طارق السویدان، کویت کے اسلامی سکالر ہیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں شائع ہوئی ہے، اس کتاب کا ترجمہ و تلخیص اشتیاق عالم فلاحی نے کیاہے۔
مصنف نے کتاب کا انتساب ان فاضل علماء، اساتذہ اور ان سبھی بھائیوں کے نام کیا ہے جو اکیسویں صدی میں کامیابی کی جستجو میں سرگرداں ہیں۔امیدوں کا یہ سفر ایسے وقت میں شروع ہو رہا ہے جب کہ روح انسانی شکست و ریخت سے دوچار ہے، ہر طرف افراد کی ناکامی کا شکوہ ہے، مایوسی اور شکست خوردگی کا عالم ہے۔
ہر نسل کو الگ الگ نوعیت کے بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی میں کامیابی کی تلاش میں نکلیں تو امت نور کے جلوے دیکھ سکتی ہے، جس کی رات طویل ہو چکی ہے، دنیا سے قحط الرجال کا دور ختم ہو سکتا ہے اور کامیابی کی نوید سنانے والوں کی کمی کا شکوہ دور ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم غفلت اور بے عملی کی دنیا سے باہر نکلیں اور موجودہ صدی میں امید و آرزو سے بھرپور نئے سفر کا آغاز کریں ،منزل کا راستہ نکالیں، خود ساختہ رکاوٹوں اور مصنوعی دیواروں کو توڑ ڈالیں، تاکہ امیدوں اور حوصلوں کی شمع روشن کرتے رہیں ،خود شناسی کے جوہر سے آراستہ ہوں ،اپنی کھوئی ہوئی قیمتی زندگی کو پھر سے پا سکیں اور روئے زمین پر ظاہر ہونے والے اس عظیم ترین انسان کے گروہ کا حصہ بن جائیں جس نے کامیابی کا سراغ پا لیا ہو۔
فاضل مصنف نے اس کتاب میں تین ابواب باندھے ہیں۔

پہلا باب:’’ بقا کی کشمکش‘‘

 اس باب میں مصنف بنیادی سوالات اٹھاتے ہیں اور اس کے جوابات بھی دیتے ہیں۔جیسے: کامیابی کیا ہے؟کیا کامیابی دولت کی فراوانی میں ہے؟ یا شہرت و نام و نمود میں؟
کامیابی وہ لفظ ہے ،اکیسویں صدی کا ہر انسان جس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ مال بعض صورتوں میں مطلوب ہونے کے باوجود اصل کامیابی نہیں ہے۔ کامیابی نہ شہرت کا نام ہے اور نہ اولاد اور جھوٹی تعریفوں کا، بلکہ لامحدود کامیابی کا راز تو انسان کے اندرون میں چھپا ہے۔ کامیابی ایسی معنوی چیز ہے جسے نہ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، نہ ترازو سے تولا جا سکتا ہے، نہ یہ خزانے میں پوشیدہ ہے، اور نہ اسے مال سے خریدا جا سکتا ہے۔
جب آپ کامیابی کی طرف پیش قدمی کریں گے تو اپنی ذات سے اور اپنے اطراف سے، بلکہ ہر جانب سے کشمکش شروع ہو جائے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کامیابی کے چار اصولوں کو برتنے کی مہارت پیدا کی جائے۔
پہلا اصول : اندرونی خوشی،سکینت اور اطمینان قلب میں کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
دوسرا اصول : سماجی ہم آہنگی، بحیثیت انسان ہم پر مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ اپنی ذات کی، گھر والوں کی، ملازمت کی جگہ، دوست احباب اور اولاد ؛ان سب کے سلسلے میں ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہر ذمہ داری کے سلسلے میں واضح طور پر اہداف کا تعین سماجی ہم آہنگی کو برتتے ہوئے کام کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتا ہے۔
بہتر سماجی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر پانچ اجتماعی اوصاف موجود ہوں۔

پہلی صفت : غیر مشروط محبت کریں!

اگر تعلقات سے ہم صرف فائدے اور نتائج ڈھونڈنے لگیں ،تو اس کا مطلب ہے ہم نے ایک گہری چیز کو سطحی چیز میں تبدیل کر دیا اور دوسروں کو بھول کر صرف اپنی ضروریات اور اپنی پسند ہمارے لیے توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس صورت میں دھیرے دھیرے تعلقات میں محبت کی گرمی ،آواز کی نرمی اور سچائی ختم ہونے لگتی ہے۔

دوسری صفت : حوصلہ افزائی کو ان کے دل کی آواز بنا دیں!
ہم انسانوں کے مالک نہیں بن سکتے ،ہاں ہم صرف ان کی محبت جیت سکتے ہیں۔
تیسری صفت : انسانی لمس (Human Touch) کے دس طریقوں کو اختیار کریں۔ انسانی لمس ہیومن ٹچ کے دس طریقے بڑے دل والے اور نرم انسان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ انگریزی میں ہیومن ٹچ کے دس حروف کو یوں دس جملوں میں پھیلائیں :

1) H – Hear him1) H – Hear him (2) U – Understand his feelings (3) M – Motivate his desire (4) A – Appreciate his efforts (5) N – News him (6) T – Train him (7) O – Open his eyes (8) U – Understand his Uniqueness (9) C – Contact him (10) H – Honour him

چوتھی صفت : آپ دوسروں کے لیے مفید تر بنیں!
جب دونوں طرف دینے اور مل کر کام کرنے کا جذبہ ہو تو طرفین میں مہربانی، شفقت، نوازش اور مدد کے جذبات پروان چڑھتے ہیں، اور اگر اس کے برعکس ہو تو نتیجہ بھی مختلف ہوگا۔ مزاج کی شدت اور رویے کی سختی سے، ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے سے اور ایک دوسرے کی ناقدری سے محبت اور ہم آہنگی کی فضا ختم ہونے لگتی ہے۔
تیسرا اصول : نقوش چھوڑ جائیں!
جسے بلندی و رفعت چاہیے وہ آگے بڑھے اور ایسے نقوش چھوڑ جائے جو دوسروں کی زندگیوں کے لیے خوشی کی نوید ہوں۔ یہ قول یاد رکھیں :’’بڑی بڑی کامیابیوں تک پہنچنے کے لیے ہم صرف کام ہی نہ کریں بلکہ خواب بھی دیکھیں، صرف منصوبے نہ بنائیں، ان کے پورا ہونے پر یقین بھی رکھیں۔‘‘
چوتھا اصول : آخرت کی کامیابی
اگر دوسروں سے آگے نکلنا ہے تو یک سوئی، تیز رفتاری اور راہ کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کا حوصلہ ضروری ہے۔ دنیا کی لذتوں کی حسرت اور آخرت فراموشی آپ کے قدموں کی بیڑی نہ بن پائے ۔
یہ چار بنیادی حقائق ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر آپ کامیابی کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ مضبوطی کے ساتھ آسمان کی بلندی کو پا لینے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

دوسرا باب:’’بھرپور تیاری‘‘

تیاری کے چار مراحل ہیں۔ کچھ لوگ کم وقت اور کم محنت کے ساتھ ہدف کو پا لینے کے لیے مختصر راستہ تلاش کرتے ہیں ،اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کامیابی کے لیے تدریجی پیش رفت ضروری ہے۔آئیے! ہم نشونما اور تدریجی ارتقا کے چار مرحلوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔

پہلا مرحلہ : دوسروں پر انحصار

بچہ جب اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کرتا ہے، تو اس کی زندگی کا انحصار مکمل طور پر دوسروں پر ہوتا ہے، اس مرحلے میں انسان دوسروں سے سیکھتا ہے ۔

دوسرا مرحلہ: خود اعتمادی

یہ خود اعتمادی اور خود انحصاری کا مرحلہ ہے، اس میں انسان کے اندر’’میں‘‘ کا تصور فروغ پاتا ہے۔اس مرحلے میں نو عمروں کو جو مسائل پیش آتے ہیں ان میں سے بیش تر کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ مرحلہ اپنی ذات کو ثابت کرنے اور خود کو تسلیم کروانے کا مرحلہ ہے ۔اس احساس کی نشوونما کے ساتھ سماج سے فرد کا ٹکراؤ شروع ہوتا ہے۔

تیسرا مرحلہ: اعتماد باہمی

یہ وہ مرحلہ ہے جہاں تعاون باہمی کی روح پھونکنے کے لیے اجتماعی جدوجہد اور ہر طرح کی صلاحیتوں اور لیاقتوں کا بھرپور استعمال مطلوب ہوتا ہے۔یہاں ’’میں‘‘ کے بجائے ’’ہم‘‘ کی فضا پروان چڑھتی ہے۔

چوتھا مرحلہ: اللہ پر توکل

یہ سب سے اونچا مرحلہ ہے۔ انسان اس حقیقت کو جان لے کہ انسان کے پاس کتنی ہی صلاحیتیں اور کتنے ہی مددگار ہوں، وہ ایک بندۂ عاجز ہے۔ اس کے دل و دماغ میں یہ صدا ضرور ہونی چاہیے کہ میری عاجزی ہی میرا خزینہ ہے۔توکل علی اللہ سے انسان کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے، پھر کوئی چیز بھی اسے بے چین، خوف زدہ اور مضطرب نہیں کر سکتی، وہ اس منظر کو یاد رکھتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے سمندر تھا اور پیچھے دشمن، لوگ چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے، لیکن موسٰی علیہ السلام نے پورے توکل کے ساتھ کہا:’’ ہرگز نہیں، میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ ضرور میری رہ نمائی فرمائے گا۔‘‘
اپنے اندر توکل پیدا کریں۔ ہر نفع بخش چیز کی خواہش اور تمنا اپنے دل میں رکھیں اور اس کے حصول کے لیے اللہ تعالی سے مدد طلب کریں۔
اقدام اور پیش رفت کے ضمن میں مصنف کامیابی کے چار وسائل کا تذکرہ کرتے ہیں :
(1)معرفت
اپنے راستے ،اپنے ارادوں کی معرفت، اپنی صلاحیتوں سے آگاہی اور علمی پختگی؛ یہ سب قوت کے ذرائع ہیں۔
(2) مہارت
(3) چاہت و آمادگی
(4) عقیدہ و فکر

سفر اور زاد راہ

کامیابی کی مثال ایک سیڑھی کی ہے، جس پر ہم زینہ بہ زینہ چڑھتے ہیں، یہ کوئی دروازہ نہیں جو یک بیک کھل جائے۔کامیابی کے زینے کو طے کرنے کے لیے تین چیزیں اپنے ساتھ رکھیں:

پہلی چیز : صدق و صفائے قلب

صدق کی مختلف صورتیں ہیں۔ اللہ کے ساتھ صدق، سچا ارادہ، لوگوں سے سچی محبت، لوگوں کی مخلصانہ رہ نمائی، اصول اور اقدار سے محبت۔

دوسری چیز : شخصیت کا توازن

پیداواری صلاحیت اور نتائج کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔نہیں کہنا سیکھیں۔اگر آپ ’’نہیں‘‘کہتے ہیں تو اس وقت آپ پوری شدت کے ساتھ اپنی مرضی کے کام کو ہاں کہہ رہے ہوتے ہیں۔اپنی زندگی کا مشن طے کریں، غور و فکر کی ایک نئی سطح بنائیں۔

تیسری چیز : صحیح اصول و اقدار کی آبیاری

اقدار سے محبت نہ ہو تو آپ روح اور زندگی سے خالی صرف ایک ڈھانچہ ہیں۔
تیسرے اور آخری باب میں کامیابی کے نو ستارے گنوائے گئے ہیں:
(1) میں زندگی بدل سکوں، یہ میرے بس میں ہے
(2) یہ تمہاری کشتی ہے تم ہی نہ خدا بھی ہو
(3) گھڑی اور قطب نما
(4) انسانوں سے محبت
(5) احساسات کی زبان
(6) سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں
(7) تخلیقیت کا جذبہ
(8) گفتگو اور مکالمہ
(9) ایک نئی زندگی شروع کریں
کتاب کے اختتام میں مصنف قاری کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تاریکی گہری ہو تو صبح کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ہاں، ہم صبح میں نمودار ہونے والے ستارے کے منتظر ہیں،وہ آپ ہیں۔ہم نے کامیابی کے نو ستارے بیان کیے ہیں، اس سلسلے کا دسواں ستارہ آپ ہیں، اکیسویں صدی کا ستارہ۔یہ وہ ستارہ ہے جس کا انتظار ہے، تاکہ وہ اٹھے اور انسانیت کے سامنے زندگی کا بہترین پیغام اور زندگی کا بہترین طریقہ پیش کرے ،لوگوں کو درد و کرب سے نکال کر انھیں امید کی طرف لے چلے، شکست اور غلامی سے نکال کر انھیں روئے زمین پر سیادت و قیادت کا سبق سکھائے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴