مارچ ۲۰۲۴

وقت ایک ایسی قیمتی شے ہے جس سے انسانی ترقی کی معراج مربوط ہے۔انسانی زندگی وقت کے دائرے کے ارد گرد گھومتی ہے،جہاں سیکنڈ منٹ میں اور منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہو کر دن کی تکمیل کرتا ہے اور اسی طرح دن اور رات کی آمدورفت کے ساتھ ہفتہ،مہینہ اور پھر سال اپنے اختتام کو پہنچتا ہے،اور زندگی کا سفر ماہ و سال میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ وقت کی اسی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے انگریز فلاسفر نے متعدد محاورے قلمبند کیے ہیں،جن میں سے چند ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں:

‏Time is more valuable than money, you can get more money but you can’t get more time.
( Jim Rohan)

(وقت کی اہمیت پیسے سے زیادہ ہے کیونکہ تم مزید پیسے حاصل کر سکتے ہو،لیکن مزید وقت حاصل نہیں کر سکتے۔)

Time is free, but it’s priceless. You can’t won it, but you can use it. You can’t keep it but you can spend it. Once you’ve lost it you can’t never get it back

(وقت آزاد ہے مگر انمول ہے۔تم اسے جیت نہیں سکتے مگر اسے استعمال کرسکتے ہو۔تم اسے رکھ نہیں سکتے لیکن اسے خرچ کرسکتے ہو۔ایک بار جو وقت ضائع ہوگیا اسے تم کبھی بھی واپس نہیں لے سکتے۔)

‏Lost time is never found again. ( Benjamin Franklin)

(گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔)
لیکن قرآنی آیات میں تدبر یہ حقیقت وا کرتا ہے کہ وقت اور تخلیق کائنات کا گہرا تعلق ہے ،چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ھو الذی خلق السماوات والأرض فی ستة ایام ثم استوی علی العرش(سورۃ الحدید: 4)

(وہی ہے جس نے آسمان و زمین کی تخلیق چھ دنوں میں کی پھر عرش پر متمکن ہوا۔)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق ارض و سماء کو ایک متعینہ مدت سے جوڑ کر یہ واضح کردیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز وقت سے جڑی ہے۔
اسی طرح اس روئے زمین پر بسنے والی سب سے افضل مخلوق کی پیدائش کا مرحلہ وار ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

و نقر فی الأرحام ما نشاءإلی أجل مسمی( سورۃ الحج: 5)

(اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں۔)
نیز اللہ رب العزت نے سورۂ فجر میں وقت فجر اور عشرۂ ذی الحجہ،سورۂ شمس میں دن ورات کی آمدورفت، سورۃ الضحی میں چاشت کے وقت اور رات کی تاریکی اور سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھاکر انسانی زندگی میں وقت کی اہمیت سے متعارف کروایا ہے کہ جس طرح یہ اوقات ایک منظم قانون قدرت کے مطابق چلتے رہتے ہیں،مگر گزرا ہوا لمحہ واپس نہیں آتا،اسی طرح انسانی زندگی بھی ایک ایک لمحہ گزار کر بالآخر اس فنا کی جانب گام زن ہوجاتی ہے، جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
علاوہ ازیں گردش لیل و نہار،وقت کی تعیین نیز تعظیم کا جو خاکہ پیش کرتی ہیں،وہ کسی دیدہ ور سے مخفی نہیں۔
وقت کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت کی قدر کی تاکید کی۔حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘
( بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، 5 : 2357، رقم : 6049)
( ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب الصحة والفراغ، 4 : 550، رقم : 2304)
حضرت مَعقل بن يَسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’اولاد آدم پر ہر نیا آنے والا دن (اسے مخاطب ہوکر) کہتا ہے : اے ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، میں کل (یوم قیامت) تمھارے عمل کی گواہی دوں گا پس تم مجھ میں عمل خیر کرنا کہ میں کل تمھارے حق میں اسی کی گواہی دوں،اگر میں گزر گیا تو پھر تم مجھے کبھی بھی دیکھ نہیں سکو گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی طرح کے کلمات رات بھی دہراتی ہے۔‘‘
(أبو نعيم أصبهاني، حلية الأولياء، 2 : 303)
نیز قرآنی آیات اس بات کی غماز ہیں کہ اسلام کا ہر حکم ایک خاص وقت کے تابع ہے،لہٰذا اسلامی شریعت کی تعمیر میں جس رکن کو اہم حصہ گردانا گیا ہے وہ وقت کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ ارشاد ہے:

ان الصلاة کانت علی المومنین کتبا موقوتا( سورۃ النساء: 103)

(بے شک نماز اپنے مقررہ وقتوں میں مسلمانوں پر فرض ہے۔)
اسی طرح اسلامی عمارت کا دوسرا ستون زکوٰۃ ہے جس کی فرضیت کی حد بندی ایک سال کی مدت سے کی گئی۔
نیز ارکان اسلام میں سے حج بیت اللہ بھی ’’الحج اشھر معلومات ‘‘ کے حکم تنفيذ کے تحت وقت کی وہ بہترین عکاسی کرتا ہے جس میں تغیر و تبدل کا شائبہ تک نہیں۔
اسلامی عمارت کے تیسرے ستون رمضان المبارک کے روزہ کو اگر وقت کی تنظیم کا قیمتی پیمانہ قرار دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ جہاں ’’ایاما معدودات‘‘کی بہترین ترجمانی اس طرز پر منظر عام پر آتی ہے کہ ایک مہینے کی مقررہ مدت کے ساتھ کی گئی تعیین ایک طرف سحر و افطار کے التزام کو وقت کے ساتھ جوڑتی ہے،تو دوسری جانب ’’انا انزلناہ فی لیلۃالقدر‘‘کا مژدہ جاب فزاوقت کی خاص مناسبت کی تعیین کرتا ہے۔
یہ مبارک مہینہ جس کی ہر ساعت ایک مؤمن کے لیےگوہر آبدار سے کم نہیں،لہٰذا بندۂ مؤمن اس کے ہر لمحہ کو بہتر انداز میں گزارنا چاہتا ہے۔
اس مبارک مہینے میں وقت کی تنظیم کچھ اس انداز سے کی گئی ہے جو خالق و مخلوق کے باہم رشتے کو استحکام بخشنے میں اپنی مثال آپ ہے۔جب بندہ اپنی صبح کا آغاز اس قادر مطلق کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنے جسم کو توانائی بخشنے کا سامان تیار کرتا ہے اور ساتھ ہی رب کی عطا کردہ نعمت پر شکر خداوندی کا برملا اظہار کرتا ہے،نیز تسبیح و تحمید کے ساتھ اپنی عاجزی و بے کسی کا دلچسپ مظاہرہ کرتے ہوئے طلوع فجر میں داخل ہوتا ہے اور وقت کی ترتیب کو عمل میں لاتے ہوئے نماز فجر میں سجدہ ریز ہو کر بندگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے۔ وقت کی اسی تنظیم کی آیت کریمہ عکاس ہے ۔ ارشاد باری تعالی ٰہے:

و کلوا واشربوا حتی یتبین لکم لخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر ثم اتموا الصیام إلى الليل( سورۃالبقرة: 187)

(اور کھاؤ اور پیویہاں تک کہ تمھارے لیے فجر سے سفیدی (صبح) کا ڈورا سیاہی(رات) کے ڈورے سے ممتاز ہوجائے پھر رات آنے تک روزوں کو پورا کرو۔)
وقت کی تنظیم کا بندہ خاص خیال رکھتے ہوئے نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے لیے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور عبدیت کی مثال پیش کرتے ہوئے غروب آفتاب کے وقت صدائے مؤذن کو پورے انہماک سے سنتا ہے اور پھر بحکم خداوندی ایک مطیع و فرمانبردار بندے کی مانند اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتے ہی ایک بار پھر مسابقت کی سعی کرتا ہے اور اپنے جسم کی روحانی و جسمانی غذا کا بندوبست کرلیتا ہے اور بلا تاخیر رب کے سامنے سر بسجود ہوکر ایک عبد مطیع ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے۔
یہی نہیں،بلکہ اس مبارک مہینے میں بندۂ مؤمن کا دل اس طرح سے نماز کی ادائیگی میں لگا رہتا ہے کہ مغرب کے ختم ہوتے ہی دن بھر کی تکان کو بھول کر عشاء کی ادائیگی اور قیام اللیل سے اپنی روح کو تازگی بخشنے پر مسلسل یک سوئی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے صائم دوسرے روز کی تہجد و سحر سے اپنے قلب کو منور کرتا ہے اور پھر دن بھر وہی عمل دہراتے ہوئے وقت کی پیمائش کا ایک خاص نمونہ پیش کرتا ہے جہاں دن و رات کی مسلسل آمدورفت سے ایک عشرہ اپنا سفر طے کر لیتا ہے جسے عشرۂ رحمت سے جانا جاتا ہے۔
دن اور رات کی اسی رفتار سے گزرتے ہوئے ایک صائم پھر ایک مرتبہ اپنے دس روز مکمل کرلیتا ہے ،جسے عشرۂ مغفرت کا نام دیا گیا ہے اور اس دوران بندہ اپنے ایک ایک منٹ کی قدر اس توجہ کے ساتھ کرتا ہے کہ اس مختصر سے وقفے کا کوئی لمحہ بغیر استفادہ کے گزرنے نہ پائے اور پھر اسی طرح وہ عشرۂ اخیرہ یعنی عشرہ نجات میں گناہوں کا بوجھ لیے احساس ندامت کے ساتھ اپنے قدم رکھتا ہے، جہاں جنت اس کا والہانہ استقبال کرتے ہوئے قدم بوسی کرتی ہے اور بندۂ عاصی بوجھل قدموں اور قلب مضطر کے ساتھ رب کی اس رحمت کو حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار چلا جاتا ہے اور خود کو مساجد میں محصور کرکے رب سے اپنی محبت کا اِظہار کرتا ہے اور رب کے بخشے ہوئے بخشش کے گراں قدر ثمرات پر شکر خداوندی بجا لاتا ہے ،جسے ہم اعتکاف کے نام سے جانتے ہیں۔
اسی طرح اس مہینے کے دن میں بھوک و پیاس کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے ہمدردی و مواسات کا خواہاں ہوتا ہے اور اپنا ہر لمحہ انفاق و صدقات کی فکر میں گزارتا ہے اور انسانیت کا وہ عظیم درس پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں اس مبارک مہینے کا ایک خاص پیکج جو تمام اسکیموں پر بھاری ہے وہ بھی وقت کے التزام سے مربوط ہے جسے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا جاتا ہے اور اسے لیلۃالقدر سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ پیکج ہے جو مغرب کے بعد سے شروع ہوکر طلوع فجر تک اپنی رحمت کے جلوے بکھیرتا ہے اور بندہ اس رات کے کسی بھی لمحہ کو ضائع کیے بغیر گزارنے کی فکر میں ہوتا ہے،تاکہ وہ اس نفع بخش اسکیم سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے۔
گویا رمضان المبارک کا یہ پورا مہینہ وہ قیمتی ورکشاپ ہے جہاں تعمیر شخصیت کا کورس بدرجۂ اتم کروایا جاتا ہے،جس میں کامیابی کے لیے وقت کی قدر کو اولین اہمیت حاصل ہے۔وہ اس لیے کہ کسی بھی کورس میں کامیابی کا دارومدار اصول و ضوابط کی پابندی پر ہے، جن پر عمل درآمد وقت کے التزام کے بغیر ممکن نہیں،کیوں کہ وقت وہ قیمتی سرمایہ ہے کہ جس کے جانے کے بعد واپسی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے :

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴