مارچ ۲۰۲۴
زمرہ : ٹی ٹائم

پدری زبان

جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اُردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انھوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوش نے انھیں لکھا:
’’جنابِ والا! میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا ،لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔‘‘

احسانات

عامرہ احسان لکھتی ہیں:
جب مولانا مودودی کا جسد خاکی نیویارک ایئرپورٹ سے پاکستان روانہ ہوا تو وہاں پرنو مسلم خواتین نے رخصت کرتے ہوئے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا:
’’بہن! وہ صرف تم لوگوں ہی کے تو نہیں تھے، ہم پر بھی ان کے احسانات کچھ کم نہیں۔‘‘

بیٹے کی تلاش

اقوامِ متحدہ کے جنرل سکریٹری’’اوتھانٹ‘‘ لاہور آئے۔ اُن کا استقبال کرنے والوں میں‌، میں بھی شامل تھا۔ اُنھوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔ اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔ وہ سوال پوچھتے رہے، اوتھانٹ ٹالتے رہے۔ میں دیکھتا اور سنتا رہا۔ یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔بے معنی جملے جو بے ایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔بےوزن باتیں جنہیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔بے وجہ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔
ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیرِ اعظم کہتے ہیں۔ یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں‌کر سکتا ہے۔ آٹوگراف بُک جیب میں‌ہی پڑی رہی اور دوسرے دن اُن کا جہاز جاپان کے شہر’’ ناگوما‘‘ چلا گیا۔بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گزر گئی۔
میں جاپان کے اسی شہر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔ میں نے جب اُسے کھولا تو اس میں‌اوتھانٹ کی تصویر تھی۔ وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔ یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔ تصویر میں‌ایک دُبلی پتلی سی بڑھیا اُونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے۔ معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں، سادہ سی صورت اور اُس پر بہت سی جھریاں۔ چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔ اُس کے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔
اس تصویر کو دیکھ کر میں سکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کو بھول چکا ہوں ،اور اب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں ،تاکہ وہ میری آٹوگراف بُک میں اپنادستخط کردے۔

کتاب:آواز دوست،از:مختار مسعود

لاجواب

ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا، سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا، جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔ میں نے اس سے پوچھاکہ تھال میں کیا چیز ہے؟
وہ بولی:
’’ اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
پس اس نے مجھے شرمندہ کر ڈالا۔
یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کی دانائی کی بات ہے۔کوئی بھی چیز چھپی ہو تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو۔کسی بھی شخص کا دوسرا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ بُرا ہے، یہی کافی ہے کہ اس نے تمھارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ تمہارے سامنے پیش کیا، بس اسی پر اکتفا کرو۔

تربیت

سنیما کی تاریخ کا سب سے بڑا مزاحیہ اداکار چارلی چیپلن اپنا ایک واقعہ بیان کرتا ہے:
بچپن میں ایک بار میں اپنے والد کے ساتھ سرکس کا شو دیکھنے گیا، ہم لوگ سرکس کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ہم سے آگے ایک فیملی تھی،جس میں چھ بچے اور ان کے والدین تھے، یہ لوگ دیکھنے میں خستہ حال تھے، ان کے بدن پر پرانے،مگر صاف ستھرے کپڑے تھے، بچے بہت خوش تھے اور سرکس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، جب ان کا نمبر آیا،تو ان کا باپ ٹکٹ کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور ٹکٹ کے دام پوچھے، جب ٹکٹ بیچنے والے نے اسے ٹکٹ کے دام بتائے،تو وہ ہکلاتے ہوئے پیچھے کو مڑا اور اپنی بیوی کے کان میں کچھ کہا،اس کے چہرے سے اضطراب عیاں تھا۔
تبھی میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی جیب سے بیس ڈالر کا نوٹ نکالا، اسے زمین پر پھینکا، پھر جھک کر اسے اٹھایا اور اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:’’جناب! آپ کے پیسے گر گئے ہیں، لے لیں۔‘‘
اشک آلود آنکھوں سے اس شخص نے میرے والد کو دیکھا اور کہا:’’شکریہ محترم!‘‘
جب وہ فیملی اندر داخل ہوگئی، تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑ کر قطار سے باہر کھینچ لیا اور ہم واپس ہوگئے،کیوں کہ میرے والد کے پاس وہی بیس ڈالر تھے، جو انھوں نے اس شخص کو دے دیے تھے۔
اس دن سے مجھے اپنے والد پر فخر ہے، وہ منظر میری زندگی کا سب سے خوب صورت شو تھا، اس شو سے بھی زیادہ، جو ہم اس دن سرکس میں نہیں دیکھ سکے!
اور تبھی سے میرا یہ ماننا ہے کہ تربیت کا تعلق عملی نمونے سے ہے، محض کتابی نظریات سے نہیں!

کتاب:مقالات احمد خالد توفیق، ترجمہ: نایاب حسن

ایمان دار جیب کترا

بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ ٹوٹل 9 روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: ’’ماں ! میری نوکری چھوٹ گئی ہے ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا۔‘‘
تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ نو روپیے جاچکے تھے۔یوں نو روپیے کوئی بڑی رقم نہیں تھی، لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہو اُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔
کچھ دن گزرے۔ماں کا خط ملا۔پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا،لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا،ماں نے لکھا تھا:
’’بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپیے کا منی آرڈر ملا۔ تو کتنا اچھا ہے رے!پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا۔‘‘
میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا: ’’بھائی! نو روپیے تمھارے، اور اکتالیس روپیے اپنے ملا کر میں نے تمھاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے ناں! وہ کیوں بھوکی رہے؟‘‘
تمھارا جیب کترا

ذہانت

’’ ذہانت بھی عجیب چیز ہے، بشرطےکہ اس کا استعمال محل ( اپنی جگہ) پر ہو، سلطان عبدالحمید سے کسی یورپین بادشاہ نے کہا تھا کہ آپ یورپ کے درمیان میں ایسے ہیں، جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان، اس میں تعریض ( طنز ) تھی عجز وضعف ( کمزوری) کی طرف، جس کو سلطان سمجھ گئے اور فرمایا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے، مگر قدرتی سنت یہ ہے کہ دانت فنا ہوجاتے ہیں، اور زبان باقی رہتی ہے۔
عجیب جواب ہے! آخر شاہی دماغ تھا۔‘‘

کتاب:ملفوظات حکیم الامت(مولانا اشرف علی تھانوی)

تعارف

 ٹالسٹائی نے ایک دن غلطی سےکسی کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا، تو اس شخص نے خوب گالیاں دیں ۔خاموش ہوا تو ٹالسٹائی نے معذرت کی اور کہا:
’’ میں ٹالسٹائی ہوں۔‘‘
وہ شخص شرمندہ ہو کر کہنے لگا کہ کاش آپ پہلے اپنا تعارف کرواتے !
ٹالسٹائی نے کہا:
’’آپ اپنا تعارف کروانے میں مصروف تھے، اس لیے مجھے موقع نہیں ملا۔‘‘

کانٹےدار

اخبارات اور ٹیلی ویژن بعض حلقوں میں ’’کانٹے دار‘‘ مقابلوں کی خبریں دیتے رہتے ۔کانٹے دار مچھلی اور کانٹے دار جھاڑیاں تو ہوتی ہیں ، یہ کانٹے دار مقابلہ سمجھ نہیں آیا۔شاید کانٹے کا مقابلہ کہنا چاہتے ہوں گے۔
ترازو وزن تولنے کے کام آتا ہے، لیکن بہت کم وزن یا ہلکی چیز مثلاً سونے چاندی کےزیور کا تولے ،ماشے ،رتی میں وزن کرنے کےلیےجو نازک سی ترازو استعمال کی جاتی تھی،اسے کانٹا کہا جاتا تھا۔
اس طرح کانٹے کے مقابلے کا مطلب ہوا ایسا مقابلہ جس میں بس رتی ماشے کا فرق ہو، اور شاید متذکرہ لکھنے والوں کی مراد بھی یہی ہوگی۔
کانٹے کی تول کا مطلب ہوتا ہے بالکل ٹھیک،نہ کم نہ زیادہ۔ کوئی دکان دار خست سے تولے تو کہتے ہیںکہ کیا کانٹے کی تول دے رہے ہو؟ کسی چیز کے بہت بیش قیمت ہونے کےلیے بھی کانٹے میں تلنا کہا جاتا ہے ۔

اسلم ملک

پچیس لفظوں کی کہانی
اِفطارکِٹ

علاقے کےغریب بناافطارکِٹ کےواپس ہوررہےتھے،صدیقی صاحب نےتقسیم کرنےسےمنع کردیاتھا،کیوں کہ سارےاخباری نمائندے سی ایم کی افطارپارٹی میں چلےگئےتھے۔

احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴