مارچ ۲۰۲۴

امیرِ جماعت کے لفظوں کا طلسم

سالِ نو کی شروعات ہی میں محترم امیرِ جماعت سعادت اللہ حسینی صاحب کا کتابچہ بعنوان: ’’ فلسطینی جہدوجہدِ آزادی نقاب کشا فرقان‘‘ شائع ہوا۔ حالاتِ حاضرہ میں بروقت صحیح رہنمائی کے ہم سب متلاشی ہیں اور ایسے میں امیرِ جماعت کی تحاریر گویا قائد کی عمدہ قیادت کی ضامن ہے۔ لہٰذا مجھے بھی کتابچہ خریدنے کی شدید خواہش ہوئی۔ کرلا میں لگے قومی کتاب میلے میں ہدایت پبلشرز کے اسٹال پر اس قدر زبردست اور جاذبِ نظر سرِورق نے پوری توجہ کھینچ لی اور بے اختیار دل جھوم اٹھا۔ گھر واپسی کے بعد اولاً اسی کا مطالعہ کیا اور حاصلِ مطالعہ لکھنے کا ارادہ کیا۔
امیرِ جماعت کی یہ تصنیف موجود ہ حالات میں جہاں خوف و ہراس اور کش مکش کا ماحول ہے ،جہاں ذہنی سکون عنقاء ہے ،جہاں فکر کی نیاڈگمگا رہی ہے، جہاں حق و باطل کی نئے سرے سے جنگ شروع ہے، ایسے میں اہلِ علم، شائقینِ ادب اور تاریخ کے قارئین کے لیے یہ بہترین تحفہ ہے۔ یہ کتابچہ اگرچہ نہایت مختصر اور مناسب دام میں دستیاب ہے، مگر اس کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس مختصر سے کتابچے میں امیرِ جماعت نے ضروری نکات کا اس قدر بہترین طریقے سے احاطہ کیا ہے کہ تحریر میں کہیں بھی ادھورا پن محسوس نہیں ہوتا۔ اس کتابچے میں امیرِ جماعت نے فلسطینیوں کی فولادی استقامت اور غیر معمولی ہمت کا اعتراف کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’یہ وہ تباہ کن حالات ہیں جن میں فلسطینی اپنے ’’جوہر‘‘ اور اپنے ’’کردار‘‘ کے ساتھ میدان میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان وحشیوں کا ایندھن بننے سے نہ صرف انکار کر رہے ہیں، بلکہ تیسری دنیا کو ایندھن بنانے کے اس عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ وہ نہ صرف ’’فرقان کبیر‘‘ ہیں بلکہ ’’سدِ عظیم‘‘ بھی ہیں، اور مغربی مقتدرہ کے وحشت ناک سیلاب بلاخیز کے آگے ’’سدِ ذوالقرنین‘‘ بن کر ساری دنیا کی حفاظت کر رہے ہیں۔(کتابچے سے اقتباس)
درجہ بالا اقتباس پڑھنے کے بعد قلب و ذہن پر ایک منفرد قسم کی ایمانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، دل اعترافِ حق کے جذبے سے لب ریز ہوجاتا ہے۔ ایمانی قوت جوش مارتی ہوئی باطل کی مکمل طور پر نفی کرتی ہے اور بقول امیرِ جماعت ’’تیسری دنیا کے محسن‘‘ یعنی فلسطینیوں کے ساتھ رشتۂ ایمانی کو مزید تقویت دیتی ہے۔ ایسے دیگر پیراگرافزبھی کتابچے میں ہیں، جو قاری کو حمایتِ حق پر مجبور کردیتے ہیں اور بلاشبہ قاری نئے انداز میں جذبۂ ایمانی سے روشناس ہوتا ہے۔

آئین جواں مرداں حق گوئی و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

امیرِ جماعت نے آگے اپنے کتابچے میں انسانی برابری کا علم بردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے مغربی مقتدرہ کے خلاف خوب قلمی جہاد کیا ہے۔ نسل پرستی کو ملعون اسرائیل کے وجود کی اساس اور اس کی اہم ترین بنیاد قرار دیا ہے، جب کہ بقولِ اسرائیل نسل پرستی کو ختم کرنا اس کا مطمح نظر ہے۔ اگرچہ اس میں ذرہ برابر بھی سچائی ہوتی تو قول و فعل کا واضح تضاد نظر نہ آتا اور عالمِ انسانیت میں امن کی شدید تشنگی ختم ہوچکی ہوتی۔ امیرِ جماعت نے نہایت عمدگی کے ساتھ مغربی مقتدرہ کی پشت پناہی کرنے والوں اور بے جا حمایتی طاقتوں کو بھی قیدِ قلم میں لایا ہے،لکھتے ہیں:
’’اسرائیل کا قیام ہی ہماری تاریخ کے ایک وحشیانہ قتلِ عام کا مرہونِ منت ہے۔‘‘
محترم نے اپنے اس جملے سے فلسطینیوں کے خطۂ خاص کے حقیقی مالک ہونے پر اتفاق کی جھلک دکھائی ہے اور قابض اسرائیل کے اخلاقیات کو بری طرح مجروح کردینے والے عمل کو صاف طور پر لکھا ہے اور یہی جملہ ’’فرقان‘‘کی کسوٹی کا ایک حصہ ہے۔ حق کو حق کہنے یا لکھنے کے لیے بھی قلم میں وہ طاقت اور زبان میں وہ دم‌ہونا نہایت ضروری ہے کہ جس سے ہمارے حمایتی ہونے کا واضح پتہ چلے۔
امیرِ جماعت لکھتے ہیں :
’’ہم نے اس تحریر میں جان بوجھ کر مجرموں کے لیے ’’مغربی مقتدرہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔‘‘
یہ مصنف کا حکمت سے بھرپور انداز اور قلم کی وہ جھلک ہے جو آپ کو دیگر مصنفین سے ممتاز کرتی ہے۔ توسیع پسندی اور اسرائیل کے مقاصد پر بھی زبردست بحث کی ہے۔ ’’طاقت و قوت کے مصنوعی رعب‘‘کو بھی ہمارے فلسطینیوں نے بری طرح منظرِ عام پر لایا ہے اور اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے بھرم پر وہ ضرب کاری لگائی ہے کہ جس سے باطل قوتوں کا رنگ اڑا کا اڑا رہ گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس مختصر سے کتابچے میں وہ نکات اختصار کے ساتھ قلم بند کیے گئے ہیںجو مسئلہ فلسطین پر ضخیم کتابوں کے مطالعے سے ملے۔ ایک باشعور قاری مطالعے کے بعد اپنی فکر اور مسئلۂ فلسطین کو لے کر اپنے نظریات کا احتساب ضرور کرتا ہے، اور آخر میں حق و باطل کے مابین ایک واضح خطِ امتیاز کھینچ دیتا ہے۔
اسی غیر معمولی طرزِ تحریر، اختصار کے ساتھ قلم بند کیے گئے تمام تر ضروری نکات اور امیرِ جماعت کی فکر اور ان کے انداز نے مجبور کردیا کہ اس ماحصل کا عنوان ’’امیرِ جماعت کے لفظوں کا طلسم‘‘ہی ہو۔ اللہ ہمارے قائد کو صحت مند رکھے اور خوب استقامت دے۔قائد تیری قیادت کولاکھ سلام، لاکھ سلام!!

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. مدیحہ عنبر

    کیا خوب انداز بیان ہے۔
    تمہارے تبصرے نے کتابچہ کے مطالعہ کےشوق کو بڑھا دیا ہے۔
    امیر جماعت ہمارے پسندیدہ مصنف ہیں۔ ان کے ہر تحریر یوں ہوتی ہے گویا دل اس کا متلاشی تھا۔
    آپ محترمہ کوھادیہ میں دیکھ کے بے انتہاخوشی ہوئی ہے????
    پھر اگلی ملاقات کب ہوگی????

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴