بیٹی کتنا پیارا اور میٹھا لفظ ہے!
لفظ بیٹی اپنے آپ میں بہت کشش رکھتا ہے ،کانوں میں رس گھولنے والا ہے۔رسول اللہﷺ نے بیٹی کی پیدائش پر جنت کی خوش خبری دی ۔کسی شاعر نے خوب کہا:
ریشم کی طرح نرم سی ہوتی ہیں بیٹیاں
اوروں کا درد دیکھ کے روتی ہیں بیٹیاں
اب تو حکومت ہند بھی ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ دے رہی ہے، لیکن ذرا عینک اتار کر دیکھیں کہ بیٹیوں کی حالت زار کیا ہے؟ اس کا گھر سے نکل کر باہر جا نا تعلیم حاصل کرنا، کہیں جاب کرنا کسی مشکل سے کم نہیں۔ حجاب میں باہر نکلے تو پریشانی، بےپردہ نکلے تو سراپا دعوت نظارہ، چھیڑ چھاڑ اور sexual harrasment کا نشانہ بنے۔آئے دن ریپ کے واقعات اور چھیڑ چھاڑ کی خبروں کے تو ہم عادی ہو چکے ہیں ۔ ہمارے گھروں میں نہ جانے کتنی بیٹیاں بیٹھی ہوئی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں، نوکری بھی کر رہی ہیں لیکن اچھے اور مناسب رشتے ملنا مشکل کام بن گیا ہے، اس لیے ماں باپ اور خود لڑکیاں بھی فکر مند ہیں۔ کم پڑھے لکھے اور بنا نوکری کے لڑکوں کو بھی قبول کرنے کو تیار ہیں ،لیکن کیا کیجیےگاکہ سماج کی ان بندشوں کا ،ان فضول اور بیہودہ رسموں کا لین دین کا اور سودے بازی کا بازار میں بکنے والے دولھوں کا،جہاں ان کی بولی لگتی ہے ۔ایم بی بی ایس (MBBS )کا ریٹ بہت اونچاہے، انجینیئر اور ایم بی اے کا ریٹ کچھ کم ہے۔ معمولی نوکری پیشہ اور سرکاری ملازم پیشہ؛ سب کے دام الگ الگ ہیں ۔ نقد رقم اور جہیز کی لمبی چوڑی فہرست ،بارات کی تعداد ،کھانے میں اندھا دھند فضول خرچی کر کے خاطر مدارات کے نام پر دولت اور پیسہ لٹانا ہمارے سماج کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ اس میں ہر کس و ناکس، نادار ،غریب ،مڈل کلاس سب ملوث ہیں۔ ایک طرف اسلام کی وہ تعلیمات ہیں، جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ،جہاں بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح پیدا ہونے کا پرورش کا حق حاصل ہے، اسے لڑکے سے کسی طرح کم ترنہیں گردانا گیا۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص کی لڑکی ہو اور نہ اسے زندہ درگور کرے نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘
آپﷺ کی تعلیمات اور قرآنی احکام کو سامنے رکھ کر یہ بات ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ اسلام نے مرد کی طرح عورت کی زندگی کو بھی لائق احترام بتایا۔ اس پر کسی قسم کی زیادتی کو جائز نہیں کیا، اس طرح یہ بات بھی بالکل صاف ہے کہ لڑکی کو بھی پیدائش کا، کھانے پہننے کا، تعلیم و تربیت کا معاشی طور پر مستحکم ہونے کا پورا حق ہے ،لیکن ان کو حاصل کرنے کے بعد اسے کچھ اور بھی حقوق ملے ہیں۔ جہاں مردوں کو وراثت کے حقوق ملے وہاں عورتوں کو بھی ماں ،بہن ، بیٹی، بیوی، نانی، دادی کی حیثیت سے حقوق حاصل ہوئے ۔ اسلام نے خصوصاً اس وقت جب کہ دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں میں بھی عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ یونان ، مصر و روم ہر جگہ اسے کہیں گناہ کی پوٹلی کہیں بے روح اور بے جان سمجھا جاتا تھا، اس کی گواہی کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، ایک مرد کئی کئی شادیاں کرتا اور اسے کوئی بھی تسلیم شدہ حق حاصل نہیں تھے۔ اسلام نے اس کے جملہ حقوق بحیثیت ماں ،بہن، بیٹی اور بیوی کے محفوظ کیے اور یہ حقوق دےکر اس کے وقار کو بلند کرنے کا شرف حاصل کیا۔غرض یہ کہ یہ ضرورت نہیں رہی کہ وہ اپنے ساتھ شادی بیاہ کے موقع پر جہیز کی لمبی فہرست لے کر آئے اور اس کے رشتے کے لیے آنے والے لڑکے کے دام طے ہوں۔ بارات ،جوڑے گھوڑے اور نقد رقم متعین کی جائے۔ شادی کو اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ والدین زمین گروی رکھ کر، کہیں گھر بیچ کر ،قرض لےکر لڑکیوں کے رشتے کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور آج لوگوں نے معیار یہ بنا لیا ہے کہ نام و نمود ، دھوم دھام والی شادی جس میں دولت پانی کی طرح بہا دی جائے ،سماج میں اس کی واہ واہ ہو، اس کی تعریف کی جائے ،جب کہ اسلام نے نکاح کو قدرے آسان بنایا، سادگی جو نکاح کا جوہر ہے ،اسے بالائے طاق رکھ کر نہ جانے کہاں کہاں کی اناپ شناپ رسمیں رائج کر دی گئیں، بڑی بڑی ڈیمانڈ کے عوض لڑکے مہیا ہو رہے ہیں اور والدین مجبور ہو کر اپنی بیٹی کے لیے ایسے رشتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھیں کہ سماج سے اس قبیح رسم کو کس طرح اکھاڑ پھینکا جائے۔ آج پڑھا لکھا اور امیر طبقہ بیٹیوں کو کچھ دے دلا کررخصت کرنے پر بضد ہے، لیکن ایک طرف جہاں جہیز کا انتظام کر کے والدین مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے لڑکی کا حق ادا کر دیا، وہیں وراثت سے بیٹیاں محروم کر دی جاتی ہیں، جب کہ اسلام نے کہا کہ نکاح کو آسان کرو،سب سے بہتر نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو، اور پھر وراثت میں ان کا حق رکھا۔سورۃ النساء میں صاف لفظوں میں یہ بات کہہ دی گئی کہ ایک لڑکی کو لڑکے کا آدھا ترکہ ملے گا۔
لیکن یہ سب کیسے ممکن ہو سکے گا ؟جب کہ بیٹیوں کو ان کے اصل اور جائز حقوق دیے جانے پر کوئی سنجیدہ اور ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔اگر ہم غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلا جز نکاح کا، جس میں ایجاب و قبول اور دو گواہوں کی موجودگی میں آپ ﷺ کے خطبے کو پڑھنے کے ساتھ نکاح ادا ہوتا ہے اور مہر طے ہوتی ہے، اس موقع پر نکاح کا ایک لازمی جز جس پر ہماری نظر نہیں جاتی وہ مہر ہے ۔مہر لڑکے کی طرف سے لڑکی کو کچھ نقد رقم کی شکل میں دی جاتی ہے، اس میں لڑکے کی طرف سے لڑکی کو نقد روپیہ یا چاندی اور سونے کی شکل میں یہ رقم یہ دی جا سکتی ہے۔ یہ سب سے پہلے طے کیاجائے گا کہ کتنےمہر کے عوض لڑکی لڑکے کے نکاح میں دی گئی؟ لیکن سماج نے مہر کی رقم اور اس کی ادائیگی کو مذاق بنا لیا، لڑکے کو اس بات کا شعور ہی نہیں کہ مہر کی کیا اہمیت ہے؟حالانکہ مہر لڑکی کا حق ہے اس سے فوری طور پر ادا کرنا لازمی ہے، قرآن نے کہا:
وَاٰ تُوا النِّسَآءَصَدُقٰتِهِنَّ نِحۡلَةً(سورۃالنساء: 4)
(اور عورتوں کے مہر فرض جانتے ہوئے خوش دلی سے ادا کرو ۔)
جب ہم معاشرے کا اور مسلم سوسائٹیز کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مہر کہیں برادری کے رواج کے مطابق کہیں گھراور خاندان والوں کی طرف سے چلی آرہی روایت کےمطابق طے کر دیا جاتا ہے، چنانچہ کہیں تو 786کہیں 351 اورکہیں اور بھی کم ہوتی ہے۔ کہیں کہیں لڑکے کے گھرانے کی طرف سے لڑکی کی تعلیم اور دولت کو دیکھ کر اس کے ولی حضرات بڑی بھاری رقم طے کرتے ہیں جو لاکھوں میں ہوتی ہیں۔ دراصل مہر کی رقم کے تعین میں بڑی ہی لاپرواہی ہوتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ لڑکے کو یہ معلوم ہی نہیں کہ مہر کی ادائیگی ضروری ہے۔ لڑکی سے ملاقات پر اسے یہ رقم ادا کرنی ہوگی، بلکہ رواج یہ ہے کہ مہر مؤجل طے کر دی جاتی ہے، جس کو بعد میں ادا کرنے کی اجازت ہے اور اسےکبھی فکر ہی نہیں ہوتی کہ مہرکی یہ رقم ادا کرنی ہوگی ۔نہ لڑکی کو یہ شعور ہوتا ہے کہ اس کا کچھ حق ہے اور نہ وہ اسے مانگتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ طلاق کے وقت مہر ادا کرنا ضروری ہے، اور اگر مہر کی رقم زیادہ ہوگی تو لڑکی کی طلاق واقع نہیں ہوگی ،ستم بالائے ستم تو یہ کہ لڑکی بھی یہ سمجھ کر مہر لینے کا نام ہی نہیں لیتی کہ رشتے میں خرابی واقع نہ ہو،جب کہ اسلام نے مہر کو لڑکی کا حق قرار دیا، اس کے ذریعے اس کی قدر و قیمت کو بلندی عطا کی ،یہ بات سماج میں لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں تک پہنچائی جانی ضروری ہے۔مہر لڑکے کی حیثیت کو اور لڑکی کے معیار دونوں کو دیکھ کر طے ہونی چاہیے تاکہ دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔مہر فوری طور پر نکاح کے وقت ہی ادا ہونا چاہیے ۔نکاح کے بعد بھی ادا ہو تو حرج نہیں ،لیکن اس سے لا پرواہی برتنا سراسر خلاف شرع ہے۔ لہٰذا، اس کی اہمیت کو سمجھ کر اسے ادا کرنے کا شعور بیدار ہونا چاہیے،نہ کہ 351 روپے ادا کر کے پلا جھاڑ لیا جائے ،جو کہ ایک چائے خانے کے بل سے بھی کم ہے۔ یہ ایک مذاق ہے، اس پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر لمبی چوڑی مہر باندھ لی اور دل میں ادا کرنے کا ارادہ ہی نہیں تو وہ نکاح ہی فاسد ہوگا۔اب زرا غور کریں تو یہاں نکاح کی شروعات ہی لڑکے کی جانب سے رقم خرچ کرنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے، اسے قرآن کی اس آیت سے سمجھنا چا ہیے:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِبِمَا فَضَّلَ اللٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ ؕ (سورۃ النساء : 34)
(مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔)
اس حیثیت سے مرد نان و نفقے کا ذمہ دار ہے،نگراں ہے۔ بیوی کو گھر میں لانے کے بعد سارا خرچ اور ذمہ داری مرد کی یعنی شوہر کی ہے ۔ روٹی ،کپڑا اور مکان دینا مرد کی ذمہ داری ہے ۔اس کے بعد باپ کی وراثت میں بھی بیٹی کا اس طرح حق ہے، جیسا کہ لڑکے کا ۔ شوہر سے بھی مہر کی رقم تحفے تحائف حاصل کر کے وہ والدین کی وراثت میں بھی حصہ پاتی ہے، اور پھر روزی روٹی اور نان و نفقے سے سبک دوشی دےکر اسے گھر اور شوہر اور اس کے بچوں کی پرورش اور دیگر کاموں کے لیے بالکل فری کر دیا گیا، اور ایک پرسکون ازدواجی زندگی کی ابتدا نکاح کے ذریعے کی گئی، جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے باعث رحمت قرار پائے،جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے باعث زحمت نہیں بنے۔ لیکن کیا کیجیےاس موجودہ رسم جہیز کاکہ جس کی نذرآج بیٹیاں ہو رہی ہیں، سماج پر بوجھ بن کر کبھی پھانسی کے پھندے پر لٹک جاتی ہیں، کبھی کسی ندی میں یا اونچائی سےچھلانگ لگا کر یہ پیغام دیتی ہیں کہ ہم اپنے بوڑھے والدین کے لیے پریشانی کا سبب نہیں بننا چاہتے۔سماج کو اس قبیچ رسم سے روکنے کے لیے ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے ،جہاں بیٹوں کو مہر، نان و نفقہ اور وراثت کے حقوق حاصل ہوں اور لڑکے والوں کو نقد رقم دینے کے بجائے لڑکی کو اپنا جائز حق ملے، نکاح کو آسان بنایا جائے تاکہ زنا پر قابو پایا جا سکے ۔ آج سماج میں بن بیاہےمردوں اور لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لڑکے لڑکیاں ا پنے اسٹینڈرڈ کے مطابق رشتہ تلاش کرنے میں اور سوسائٹی میں اپنا مقام، اپنا کیریئر تلاش کرتے کرتے ایک عمر کو پہنچ جاتے ہیں ،جہاں جنسی میلان انھیں ناجائز طریقے سےخواہش پوری کرنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر دوستی کے نام پر، live-in relationship کے نام پر آپسی رضامندی سے بنا کسی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ناجائز تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سماج کو ان گندگیوں سے پاک کرنے کے لیے نکاح کو آسان کرنا اور رسم جہیز کا نام ونشان مٹا دیناضروری ہے، ساتھ ہی بیٹیوں کو وراثت میں ان کاحق دےکر انھیں امپاور کرنے کی ضرورت ہے ۔
٭ ٭ ٭
0 Comments