ملک عزیز میں خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے نے ہمارے معاشرے پر ایک بدنما داغ لگادیا ہے۔روزانہ ملک کے کسی نہ کسی قصبے، صوبے یا شہر سے ایسی دل خراش خبریں سننے میں آتی ہیں کہ دل کانپ جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات نہ صرف لمحۂ فکریہ ہیں بلکہ حکومت اور معاشرے کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کو درندہ صفت حیوانوں سے کیسے بچایا جائے؟جبکہ ملک کا قانونی نظام بھی ان واقعات میں اضافے کی ایک وجہ ہے، جس میں مقدمات کے فیصلے ہونے میں بہت زیادہ تاخیر ہوجاتی ہے۔
بھارت میں خواتین پر تشدد کی سب سے بڑی مثال دسمبر 2012 ء میں دہلی میں دیکھی گئی تھی۔ جب چلتی بس میں ایک 23 سالہ نوجوان لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس واقعے کے ٹھیک دو ہفتے بعد سنگاپور کے ایک اسپتال میں نربھیا دورانِ علاج انتقال کرگئی۔ اس کے بعد خواتین پر تشدد کے خلاف وسیع پیمانے پر تحریک چل پڑی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نربھیا ریپ اور قتل کے اس بڑے سانحے کے بعد بھارت میں زیادتی کے واقعات تھمے نہیں بلکہ کئی گنا اور بڑھ گئے۔ستمبر 2020 ءمیں ہاتھرس کا معاملہ ہی دیکھیے! آٹھ دن لگ جاتے ہیں ایف آئی آر درج کرنے میں اور اس کے بعد جو بات آگے ہوئی ہے وہ پورے ملک کو پتہ ہے۔ لڑکی کی موت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ماں باپ کو اس کا چہرہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس کی لاش پولیس جلا دیتی ہے،اور ملزمین کو کچھ ہفتوں بعد رہا کردیا جاتا ہے۔
بلقیس بانو کا سانحہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔خواتین کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم نے گویا ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ National Crime Records Bureau (NCRB) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 2012 ءمیں 24923 زنا بالجبر کے واقعات رونما ہوئے جبکہ 2013 ءمیں ان واقعات میں 27 گنا سے زائد اضافہ ہوا تھا، گویا:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ملک میں ہر 20 منٹ میں زنا بالجبر کا ایک واقعہ پیش آتا ہے، جبکہ جنسی زیادتی کے 70 کیسوں میں صرف ایک ہی کیس کا اندراج ہوپاتا ہے۔شہروں میں دیکھا جائے تو دہلی اس معاملے میں سب سے آگے ہے،پھر اس کے پیچھے پیچھے ممبئی ہے۔ NCRB کی رپورٹ میں تو دہلی کو Rape Capital of Indiaکہا گیا ہے۔ ریاستی سطح کی بات کی جائے تو مدھیہ پردیش جنسی جرائم میں سب سے آگے ہے، اور پھراترپردیش اور مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے۔دسمبر 2012 ءکے بعد نابالغ سے زنا کے بھی کئی واقعات اخبارات کی زینت بنے۔
فروری 2013 ءمیں BBC نے اپنی ایک رپورٹ میں چشم کشا حقائق کا انکشاف کیا کہ ہندوستان میں ہر سال 7200 بچے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔جنوری 2018 ء میں کٹھوعہ جنسی زیادتی کا معاملہ سامنے آیا۔ 8 سالہ بچی آصفہ بانو کا اغوا کیا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی اور پھر قتل تک کردیا جاتا ہے،اور ابھی چند روز قبل منی پور کی خواتین کے ساتھ زیادتی کا غم بھول بھی نہیں سکے تھے کہ مدھیہ پردیش کے اُجین ضلع میں ایک 12 سالہ لڑکی سڑکوں پر نیم برہنہ اور خون آلود حالت میں گھر گھر جا کر مدد مانگتی رہی۔ لوگ اسے گھورتے رہے لیکن مدد کرنے سے انکار کر دیا۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک سروے میں 193ملکوں کو شامل کیا گیا تھا، جن میں سے عورتوں کے لیے10 بدترین ملکوں کا انتخاب کیا گیاتھا۔ روئٹرز فاونڈیشن نے سن 2018ء میں اپنے سروے میں بھارت کو دنیا بھر میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ افغانستان اور سیریا دوسرے اور تیسرے، صومالیہ چوتھے مقام پر تھا۔ یعنی پوری دنیا میں بھارت، خواتین کے لیے سب سے خطرناک اور غیر محفوظ ملک مانا گیا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں بھارت میں اوسطاً 88 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ اس میں گیارہ فیصد خواتین انتہائی پسماندہ یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔رپورٹ کے مطابق 2001ء سے 2017 ء کے درمیان یعنی 17برسوں میں جنسی زیادتی کے واقعات میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق 2018 ءمیں ہر سولہ منٹ پر ایک عورت کا ریپ ہوا۔صرف اس ایک سال میں33000 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔2017 ءمیں یہ تعداد 32559 تھی۔یعنی ایک دن میں ریپ کے بیانوے واقعات، جن میں تیس فی صد شکار بچے تھے۔2022ءمیں کُل 6 لاکھ جرائم درج کیے گئے۔ ان میں سے 71 فی صدخواتین کے خلاف تھے۔
’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ کے پر فریب نعرے کے باوجود 2021 ءکی بنسبت 2022 ءمیں خواتین کے خلاف جرائم میں 15.3 فی صد اضافہ ہوا تھا۔انڈیا کی عدالتوں میں ان میں سے صرف18300کیسز پر کارروائی شروع ہوئی جب کہ باقی اب تک التوا کا شکار ہیں۔عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود بھارت کا نظام عدل اس معاملے میں سُستی کے راستے پر گامزن ہے۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ چونکہ دیہی علاقوں میں ایسے بیش ترجرائم کو پولیس تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا، اس لیے حقیقی صورت حال اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہو سکتی ہے۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ سخت قوانین بنانے کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہو گا، جب تک کہ سیاسی جماعتیں، حکومتیں اور پولیس اسے نافذ کرنے میں مخلص نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ہی سماجی تبدیلی بھی ضروری ہے۔بھارت میں خواتین کو جنسی زیادتی، ہراسانی کے علاؤہ بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔جیسے سال 2021 ءمیں 31 ہزار 677 زیادتی، 76 ہزار 263 اغواء اور 30 ہزار 856 گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے،انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق روزانہ سفر کرنے والی خواتین میں سے 80 فی صد خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں روزانہ خواتین سے زیادتی کے 86 واقعات پیش آتے ہیں،جن میں دہلی سرِ فہرست ہے۔ان مجرمانہ حرکتوں سے غیر ملکی سیاح بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔2014 ءمیں جرمن خاتون،2018 ءمیں روسی خاتون اور 2022ءمیں برطانوی سیاح خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کی وجہ سے 2019 میں امریکہ نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر کرنے کے خلاف وارننگ بھی جاری کی تھی۔
یہاں 15 فی صدشادی شدہ خواتین کی جہیز کے مطالبات پر طلاق ہوجاتی ہے۔2017 ءمیں 7ہزار خواتین کو جہیز نہ دینے پر قتل کردیا گیا۔ 2021 ءمیں ماہانہ 14 تیزاب حملے کے واقعات رونما ہوئے اور اس کا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔
اسباب
مساوات مردو زن :
مساوات مرد و زن کا نظریہ پہلا سبب ہے جو خواتین کے ساتھ زیادتی میں اضافہ کررہا ہے۔آں حضرت ﷺ سے قبل معاشرہ میں عورت انسانی حقوق سے بھی محروم تھی۔ پھر اسلام نے عورت کو عزت عطاکی۔ اس کے بعد جب مغربی سرمایہ داروں نے اپنے مفاد کے پیش نظر مساوات مرد و زن کا نعرہ دیا تو وہ اس پر پھولے نہیں سمائی، اور اسے اپنے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر سرمایہ داروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گئی۔ جب عورت اشتہارات اور بازار کی زینت بنی تو اس کی عزت و احترام میں کمی آگئی۔ اس وجہ سے بھی خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
شراب، نشہ اور عریاں فلمیں:
بڑھتے جنسی جرائم کی ایک اہم وجہ عریاں اور فحش فلمیں اور نشے کی لت بھی ہے۔زنا بالجبر جیسی بہت سی سماجی برائیوں کی اہم وجہ شراب نوشی بھی ہے۔ بیش ترواقعات میں زانی نشہ کی حالت میں پایاجاتا ہے، اور وہی نشہ ا س حرکت کی وجہ بنتا ہے۔
پورنوگرافی:
موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی پورنوگرافی نے بھی جنسی زیادتی کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ پورنوگرافی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے لیے بہت بڑا منافع کا ذریعہ ہے۔ صرف امریکہ، جاپان اور ساؤتھ کوریا مل کر 40 سے 50 ملین ڈالر سے زائد منافع اس بزنس سے کماتے ہیں۔ پورنو گرافی کے لیے انٹرنیٹ کے علاوہ فحش لٹریچر، تصاویر، ویڈیوز، فلمز، اور میگزین جیسے ذرائع کا بھی بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی اس کی مختلف وجوہات ہیں جن کا ازالہ کرکے ہی مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
اسلام کے پیش کردہ حل
پردہ کا حکم:
اسلام میں جہاں مردوں کو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں وہیں عورتوں کو بھی اپنے بناؤ سنگھار کو صرف محرم مردوں کے سامنے ہی ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔
آسان نکاح:
صحیح وقت پر نکاح نہیں کرنے سے نوجوانوں میں ایک طرح کا جنسی ہیجان اور جنون پیدا ہوتا ہے۔ ان کی جنسی حس مشتعل ہوجاتی ہے ،جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔اسلام میں جنسی خواہشات کی تکمیل کا ایک بہترین ذریعہ نکاح کی صورت میں دیا گیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نکاح کو اتنا آسان بنادو کہ زنا مشکل ہوجائے۔‘‘
شراب و نشہ آور ادویات پر پابندی:
شراب اور تمام نشہ آور ادویات کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ قرآن میں بھی شراب کی حرمت کا بیان آیا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اسے حرام قرار دیا گیاہے۔نیز ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی نا برتیں۔ انھیں شُتربے مَہار کی طرح آزادی نہ دیں۔ بچپن ہی سے ان میں بنیادی اقدار کو پروان چڑھائیں تو بہت امید ہے کہ اس طرح کے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔
٭ ٭ ٭
’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ کے پر فریب نعرے کے باوجود 2021 ءکی بنسبت 2022 ءمیں خواتین کے خلاف جرائم میں 15.3 فی صد اضافہ ہوا تھا۔انڈیا کی عدالتوں میں ان میں سے صرف18300کیسز پر کارروائی شروع ہوئی جب کہ باقی اب تک التوا کا شکار ہیں۔عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود بھارت کا نظام عدل اس معاملے میں سُستی کے راستے پر گامزن ہے۔
0 Comments