مارچ ۲۰۲۴

عالمی منظرنامہ

اے کاش!

فلسطین کے معصوموں کے ساتھ اسرائیلی درندگی و وحشت کی نئی تاریخ رقم کرنے پر جہاں نام نہاد اسلامی ممالک سمیت حقوق انسانی کے پرچم اٹھائے پھرنے والی سیکڑوں تنظیموں کی بے حسی اور کاسہ لیسی نے ان کے چہروں پر پڑے نقاب اتار کر ان کے مکروہ چہروں سے دنیا کو آشنا کروایا،وہیں یہ صاف کر دیا کہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ان کا دعوے کھوکھلے ہیں ،جن کی حقیقت مگر مچھ کے جھوٹے آنسوؤں سے زیادہ بالکل بھی نہیں ہے۔
لیکن جہاں اسلام کے نام لیوا خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں،وہیں امریکہ سے تعلق رکھنے والے فضائی اہلکار-جو کہ مسلمان بھی نہیں تھا-نےاسرائیلی سفارت خانے کے سامنے یہ کہتے ہوئے خود کو آگ کے حوالے کر دیا کہ وہ فلسطینوں کی نسل کشی میں مزید شریک نہیں رہنا چاہتا۔
امریکی فضائیہ کے اہلکار ایریل بیشنل نے واشنگٹن میں واقع اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگانے سے پہلے’’ٹوئچ‘‘ پر لائیو اسٹریم کیا اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ امریکی ایئر فورس کا حاضر سروس اہلکار ہے۔خود سوزی کے بعد یو ایس سیکرٹ سروس کے اہلکاروں نے گوکہ اس کو بچانے کی کوشش بھی کی،اور ایریل بیشنل کو اسپتال بھی پہنچایا،مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی،چنانچہ باوجود ڈاکٹروں کی کوشش کے، بیشنل جاں بر نہیں ہو سکا۔
ویڈیو میں بیشنل کو ’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے بھی سنا گیا اور جائے وقوعہ پر فلسطینی پرچم بھی پایا گیا۔بیشنل چوں کہ مسلمان نہیں تھا،سو اس کے سامنے خود سوزی یا خود کشی کی قباحت نہیں تھی،اس لیے اس کے ضمیر کی بیداری نے جب اسے بیاکل کیا تو نہ صرف اس نے فلسطین کے مظلومین پر ہونے والے مظالم کا شراکت دار بننے سے انکار کیا،بلکہ اپنی جان لے اپنی دانست میں گویا اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی بھی اپنی سی کوشش کی۔
خود سوزی کے اس واقعے کی گونج پوری دنیا نے سنی،ان 56 ممالک نے بھی جو اسلامی مملکت کہلاتے ہیں،یا ان کے سربراہان مسلمان ہیں،مگر وہ خواب غفلت میں مست ہیں۔کاش کہ ان کا ضمیر بیشنل جتنا بھی زندہ ہوتا،وہ کچھ نہ بھی کرتے تو کم از کم ان مظالم کے خلاف کم زورسی آواز میں ہی سہی،صدائے احتجاج بلند کر کے اپنی ضمیر کی عدالت میں سرخ رو تو ہو جاتے،مگر کاش اے کاش!

جھوٹا دعویٰ

مغرب جہاں صنفی مساوات اور عورتوں کے حقوق کا بزعم خود سب سے بڑا علم بردار ہے،وہیں وہ بار بار مشرق بلکہ بالخصوص مذہب اسلام کے پیرو خواتین کو یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ مغربی خواتین کو مردوں کے مساوی جو حقوق حاصل ہیں،مشرقی اور مسلم خواتین ان سے بالکلیہ محروم ہیں۔پوری دنیا کو یہ باور کروانے میں مغرب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کہ ان کے یہاں خواتین کے ساتھ صنفی طور پر کہیں کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا،ان کے یہاں مردوزن کے درمیان مساوات کی وہ تصویر موجود ہے کہ مشرق اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
مگر جب حقائق سے پردہ اٹھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حالات ان کے ذریعہ خواتین کے مساوی حقوق کے پیٹے جانے والے ڈھنڈورے کے بر عکس ہیں۔صدیوں سے صنفی مساوات کا نعرہ لگانے والے مغرب کو آج تک خواتین پر نہ ہی مردوں جتنا اعتماد ہے،نہ ہی وہ خواتین کو مردوں جتنا کسی منصب اور ذمہ داری کا اہل سمجھتا ہے۔
امریکہ میں ہونے والے ایک سروے سے پتہ چلا کہ امریکہ میں خواتین کےلیے مرد متعصبانہ خیالات رکھتے ہیں،اور وہ خواتین کو اہم قائدانہ صلاحیتوں کی حامل عہدوں پر فائز کیے جانے کےلیے مناسب نہیں سمجھتے۔کم عمری میں ان کی ناتجربہ کاری کو بنیاد بنا کر نظر انداز کیا جاتا ہے،اور بڑی عمر میں از کار رفتہ کہہ کر بڑی ذمہ داریوں سے کنارے کر دیا جاتا ہے۔صنفی مساوات پر تحقیق کرنے والی ایمی ڈیہل نے وائس آف امریکہ کو بذریعہ ای میل بتایا کہ عورتوں کو بطور قائد کسی بھی عمر میں اہل نہیں سمجھا جاتا،کبھی تو ان کو کم عمر کہہ دیا جاتا اور کبھی زیادہ عمر کی۔
وائس آف امریکہ کے مطابق اس کے علاوہ بھی حال ہی میں کیے گئے متعدد سروے اور ریسرچ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہاں بھی صنفی مساوات کو صرف کہنے کی بات ہے،ورنہ سچ یہی ہے کہ اس نعرےکے ذریعہ بہلاکر مردوں نے انھیںاپنے دیدہ و دل کےلیے سامان تسکین بنایا ہے اور بس۔لہٰذا خدا نخواستہ ہم اگر اس حوالے سے اگر کسی بھی طرح کی غلط فہمی کے شکار ہیں تو اب ہمیں اس مغالطے سے نکل آنا چاہیے کہ مغرب خواتین کا اسلام سے بڑا خیرخواہ اور خیر اندیش ہے۔درحقیقت مغرب عورتوں کی بہی خواہی کےلیے سنجیدہ ہی نہیں ہے،بلکہ اس کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ مردوں کی ہوس پرستی کےلیے سامان تفریح و عشرت اہم ہے،جس کےلیے آج تک عورتوں کو فریب دے کر استعمال کیا جاتا رہا ہے،اور یہ سلسلہ بلا توقف اب بھی جاری ہے۔

ملکی منظرنامہ

ڈرتے ہیں بندوقوں والے،ایک نہتی لڑکی سے

ملک عزیز میں برسراقتدار پارٹی کے سربراہان سے لےکر اس کے عام کارکن تک یہ کہتے نہیں تھکتے کہ گذشتہ حکومتوں میں جب جو چاہتا تھا،ہمیں دھمکی دے کر یا ڈرا کر نکل جاتا تھا،مگر اب موجودہ حکومت اور اس کے سربراہ کے آگے کسی میں آنکھ دکھانے کی ہمت نہیں ہے،بلکہ اس سے دیگر تمام ممالک خائف ہیں۔جب کہ عجیب یہ ہے کہ اپنی بہادری کا راگ الاپنے والی حکومت ایسی نہتی خاتون سے خائف ہے،جس کا رشتہ تیر و تلوار اور تیغ و تفنگ کے بجائے قلم دوات اور روشنائی و کتاب سے ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کی ہند نژاد پروفیسر نتاشا کول کو کرناٹک کی کانگریس حکومت نے ایک پروگرام میں شرکت کےلیے مدعو کیا تھا۔نتاشا جب بنگلورو ایئرپورٹ پہنچیں تو انھیں ایئر پورٹ پر ہی روک کر حراست میں لےلیا گیا۔ان کے بار بار پوچھنے پر بغیر کسی تفصیل کے صرف اتنا بتایا گیا کہ انھیں دہلی سے یہ حکم ملا ہے۔ایئر پورٹ پر موجود امیگریشن افسران ان سے یہ بھی پوچھتے رہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تو نہیں ہیں جو ’’سَنگھ‘‘پر تنقید کرتے ہیں؟
’’بیٹی بچاؤ،بیٹی پڑھاؤ‘‘کا نعرہ دینے والی اور بزبان خود اپنی بہادری کا گُن گان کرنے والی حکومت کا حال یہ ہے کہ آج اسے اپنی ہی ملک کی ایک پڑھی لکھی بیٹی سے ڈر لگ رہا ہے،پھر تو اسے ہرگز یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا کہ وہ بھارت کی بیٹیوں کی تعلیم اور ان کی خود انحصاری کےلیے اقدامات کے تئیں سنجیدہ ہے۔خوف اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ ریاستی حکومت کی مہمان اپنے ہی دیس کی بیٹی کو داخلے کی اجازت یا تو اس لیے نہیں دی جا رہی کہ وہ مخالف پارٹی کے ذریعہ مدعو کی گئی ہیں یا اس لیے کہ کہیں ان کی حکومت پر وہ تنقید نہ کر دیں۔بہر صورت دونوں میں سے وجہ چاہے کچھ بھی ہو، ارباب حکومت کا یہ آمرانہ رویہ اور طرز عمل ان کے خود ساختہ جھوٹ پر مبنی دعووں کی قلعی کھولنے کےلیے کافی ہے۔

سچ بولنے کی قیمت

دوسروں کو ڈرانے والے ہمیشہ سب سے ڈرپوک رہے ہیں،خواہ یہ ڈرانے والے ارباب حکومت ہوں یا اصحاب قشقہ و دستار۔موجودہ حکومت ہر سچ اور سچ بولنے والے کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتی ہے۔یہ ہر ایسی آواز کو خاموش کروانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے جو کہیں نہ کہیں اس کی دسیسہ کاریوں کو طشت از بام کرنے والی ہو۔حقائق کی نقاب کشائی کرنے والے پر حکومت چہار جانب سے حملے کرتی اور کرواتی رہتی ہے، تا آں کہ وہ اپنی زبان پر تالے ڈال کر خاموش تماشائی نہ بن جائے۔
جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک ان دنوں حکومت کی نگاہ میںبری طرح کھٹک رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ سرکاری اشارے پر کام کرنے والی تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ انھیں ہراساں و پریشان کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ستیہ پال ملک نے یکے بعد دیگرے کئی انٹرویوز میں پلوامہ حملے سے متعلق حکومت پر شدید الزامات لگائے،ساتھ ہی انھوں نے کسانوں کے احتجاج کو درست ٹھہراتے ہوئے ان کی حمایت بھی کی تھی۔گذشتہ دنوں سی بی آئی(سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن)کے اہلکاروں نے ستیہ پال ملک کے ٹھکانے پر چھاپہ ماری کی اور کئی گھنٹوں تک ان کی حویلی کی تلاشی لیتے رہے۔
یہ چھاپہ ماری دراصل اسی مقصد کے تحت ہے ،جس کےلیے کئی سالوں سے دیگرقدآور سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کو تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے،اور حکومت اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی کہی جا سکتی ہے۔کیوں کہ بیش تر حق بولنے اور حکومت کی مخالفت کرنے والے یا تو ان حملوں کی تاب نہ لاکر خاموشی کی چادر تان کر گوشۂ عافیت میں جا بیٹھے،یا بادل ناخواستہ ہی سہی اسی ٹولے کا حصہ بن گئے،جس کی فریب کاریوں اور ظلم و جبر پر عوامی مفاد میں انھیں بے باکی کے ساتھ بولتے رہنا تھا۔ستیہ پال ملک یقیناً سچ بولنے اور سوال اٹھانے کی قیمت چکا رہے ہیں،مگر ایسا نہیں لگتا کہ حکومت انھیں ڈرا دھمکا کر انھیں اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو سکےگی۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۴