اپریل ۲۰۲۳

 ملکی منظرنامہ
راہل گاندھی کے بیان پر حزب اقتدار کا ہنگامہ

گذشتہ دنوں نیشنل کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما راہل گاندھی نے دنیا کی مشہور یونیورسٹی کیمبرج کا دورہِ کیا۔ کیمبرج جج بزنس اسکول میں حکمت عملی اور پالیسی کے پروفیسر کمال منیر نے راہل گاندھی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی کا تعلق عالمی رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے ،جس کی ہندوستان کی سیاست میں بڑی خدمات رہی ہیں۔ جواہر لعل نہرو جو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے ،راہل گاندھی،ان کی بیٹی اندرا گاندھی کے پوتے ہیں۔ جواہر لعل نہرو کیمبرج کے سابق طالب علم بھی رہ چکے ہیں۔
راہل گاندھی نے’’لرننگ ٹو لیسن ان دی 21st سینچری‘‘ کے عنوان پر کیمبرج جج بزنس اسکول میں ایم بی اے کے طلبہ سے خطاب کیا ۔انھوں نے اپنے اس خطاب میں ہندوستان کو درپیش ان مشکلات و مسائل کا ذکر کیا ،جو جمہوری اقدار کو پامال کرنے کے نتیجے میں پیدا ہو رہی ہیں، مثلاً کس طرح یہاں کے عوام کی آزادی پہ ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں، ان کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر ان کی زندگی کو مشکل بنایا جا رہا ہے۔
راہل گاندھی نے مزید کہا کہ بھارت میں اپوزیشن جماعتوں کے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے، اور انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ہم مسلسل دباؤ محسوس کرتے ہیں ،کیونکہ اپوزیشن کے خلاف غلط مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ بغیر کسی وجہ کے میرے بھی خلاف مجرمانہ مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ہندوستان میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ زندہ مثال ہے کہ جس طرح اپوزیشن کے لوگوں کو پھنسایا جا رہا ہے، وہ غلط ہے۔میڈیا اور جمہوری ڈھانچہ پر حملہ کیا جارہا ہے، جس سے عوام سے رابطہ کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔
یہ راہل گاندھی کے لیکچر کا جزوی مفہوم ہے۔ راہل گاندھی کے- ہندوستان میں جمہوریت خطرے میں ہے کے -بیان پرہندوستان کے پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ حکومتی طبقہ ان سے معافی کا مطالبہ کر رہا ہے، اس کی وجہ سے ایوان کی کارروائیاں تعطل کا شکار ہیں، جب کہ راہل گاندھی کے مطابق انھوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جس پر انھیں شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے معافی مانگنی پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اڈانی معاملے کی جانچ اور مہنگائی جیسے اصل مسئلوں کو دبانے کے لیےغیر ضروری مسائل میں عوام کو الجھانا چاہتی ہے۔ الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے، دونوں ہی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

آزادی کے پچھتر سال بعد دیوی پور کی نینا کالج جانے والی پہلی لڑکی

کہتے ہیں عزم اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ کسی بھی مشکل مرحلےکو عبور کیا جا سکتا ہے، کسی بھی بلندی پر پہنچا جا سکتا ہے، اس کی مثال دیوی پور سے تعلق رکھنے والی نینا ہیں۔ آزادی کے پچھتر سال بعد اپنے گاؤں کی وہ پہلی لڑکی ہیں جنھوں نے کالج میں قدم رکھا ۔
نینا نے اپنے عزم اور استقامت کے آگے سبھی کو ہار ماننے مجبور کر دیا۔ انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی سے 100 کیلومیٹر دور ریاست ہریانہ کے ضلع کرنال کی دیوی پور گرام پنچایت میں تقسیم ہند کے 75 سال بعد بھی لڑکیوں کو کالج جانے کا موقع نہیں مل سکا۔
جب انھوں نے کالج جانے کی بات کی تو شروع میں نینا کے والد نے سخت مخالفت کی، انھوں نے ہر طرح سے ان کو کنوینس کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے کہا کہ میں بضد تھی کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں اور میں صرف پڑھوں گی۔ میں نے کہہ دیا کہ اگر میں کچھ غلط کروں تو آپ میری گردن کاٹ دینا۔ نینا نے بتایا کہ جب ان کے والد نے انکار کر دیا تو وہ بھی ضد پر آ گئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ وہ گاؤں کی پہلی لڑکی نہیں جو کالج جانے کا خواب دیکھ رہی تھیں ،لیکن وہ یقینی طور پر پہلی لڑکی تھیں جنھوں نے اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کیا تھا۔وہ اس وقت نہ صرف اپنی دس بہنوں کے لیے، بلکہ اپنے گاؤں کی پنچایت کی تمام لڑکیوں کے لیے بھی ایک نئی راہ بنا رہی ہیں۔
خاندان، گاؤں اور نظام کے خلاف جدوجہد کے بعد یہاں لڑکیوں نے کالج جانے کا حق جس طرح حاصل کیا، یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔
گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی طرح نینا نے بھی کسی نہ کسی طرح ا سکول کی تعلیم مکمل کی، لیکن کالج جانے کا مطلب زیادہ آزادی تھی، اور یہ بغیر کسی شرط کے نہیں مل سکتی تھی۔نینا کہتی ہیں کہ مجھے گھر سے تاکید کی گئی تھی کہ کسی سے زیادہ بات نہ کروں، فون کا بالکل استعمال نہ کروں۔ گھر سے کالج اور پھر کالج سے سیدھے گھر آؤں۔
آزادی کے پچھتر سال بعد دیوی پور کی لڑکیاں کالج جانے سے اس لیےمحروم تھیں، کیونکہ ان کے گاؤں تک بس نہیں آتی تھی، جس کی وجہ سے والدین اپنی بچیوں کو کالج بھیجتے ہوئے جھجھک کا شکار تھے۔ دیوی پور سے کالج جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ گاؤں سے کالج کے راستے میں ایک پل ہے،جسے عبور کرنا ان کے لیے بڑا چیلنج تھا۔گاؤں کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ لوگ بسوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو کالج بھیجنے سے گریزاں تھے۔ انھیں ٹرانسپورٹ کے لیے چار کیلومیٹر پیدل جانا پڑتا تھا۔ لڑکیاں بھی خوفزدہ تھیں۔ لڑکے پل پر بدمعاشی کرتے تھے۔ہر روز اس پل پر لڑکیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا۔کبھی ان پر کیچڑ پھینکا جاتا تو بعض اوقات لڑکے اینٹیں مار کر چلے جاتے،گندے تبصرے تو گویا عام اور روزمرہ کی بات تھی۔
نینا کی کالج جانے کی ضد کو دیکھ کر کچھ اور لڑکیوں نے بھی ہمت کی اور فیصلہ کیا کہ اگر بس گاؤں تک پہنچ جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لڑکیوں نے مل کر گاؤں کے لوگوں سے ملاقات کی اور ان کے سامنے یہی بات رکھی۔ ان لڑکیوں نے مل کر گذشتہ سال مئی میں کرنال کی چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جسبیر کور کو ایک خط لکھا۔ سی جی ایم جسبیر کور کے لیے یہ حیران کن تھا کہ اس گرام پنچایت کی لڑکیاں آج تک کالج نہیں گئیں۔
صنفی مساوات پر کام کرنے والی ایک تنظیم’ ’بریک تھرو‘‘ کے ذریعے لڑکیاں ان کے پاس آئیں ،تو انھوں نے اگلے ہی دن بس چلانے کا حکم دیا۔آج بس سروس شروع ہونے کے بعد نینا کے ساتھ دیوی پور گرام پنچایت کے چار گاؤں کی 15 لڑکیاں کالج جانے کے قابل ہو گئی ہیں۔ ان لڑکیوں کے کالج تک پہنچنے میں سب سے بڑا کردار جیوتی کا ہے۔ جیوتی کا تعلق کرنال ضلع کے گڑھی کھجور گاؤں کی دلت برادری سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے 12ویں پاس کرنے کے بعد کالج جانے کا فیصلہ کیا تو مجھے اپنے گھر والوں کا تعاون ملا ،لیکن میں 12ویں کے بعد واحد لڑکی تھی جس نے شہر جا کر کالج میں داخلہ لیا، میری عمر کی لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی تھیں۔
گریجویشن کے دوران جیوتی کے ذہن میں یہ بات بار بار اٹھنے لگی کہ آخر لڑکیاں 12ویں کلاس کے بعد کالج کیوں نہیں جا پاتی ہیں؟ کالج کے دوران انھوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم’’ ونیترا فاؤنڈیشن ‘‘میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے گاؤں کے’ ’ہریجن چوپال‘‘ میں ایک تعلیمی مرکز شروع کیا۔ یہ نینا اور ان کی پنچایت کی 14 لڑکیوں کی مسلسل جدوجہد اور ہمت کی کہانی ہے۔

عالمی منظرنامہ
اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف احتجاج

اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف زبردست احتجاج چل رہا ہے، اسرائیل میں عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے منصوبے کے خلاف حکومت مخالف ملک گیر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں لاکھوں اسرائیلی شہری شریک ہوئے۔ حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے تاہم 11 مارچ کے احتجاجی مظاہرے کو ’ملکی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج میں سے ایک‘ کہا گیا ہے۔
اسرائیلی شہر حیفہ سمیت مختلف شہروں میں ریکارڈ تعداد میں مظاہرین باہر نکلے۔ ایک اندازے کے مطابق تل ابیب میں تقریباً دو لاکھ مظاہرین سراپا احتجاج تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق عدالتی نظام میں کی جانے والی ان اصلاحات سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ عدالتی نظام میں مجوزہ تبدیلیاں ووٹرز کے لیے بہتر ثابت ہوں گی۔احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ جمہوریت پسند شہریوں نے سنیچر کو ملک بھر میں سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔اسرائیلی اخبار ’’ہاریٹز‘‘ نے اپنی سرخیوں میں اسے ’ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ‘ قرار دیا۔
اسرائیل میں حزب اختلاف کے لیڈر یائر لیپڈ نے جنوبی شہر بیئر شیوا میں مظاہروں کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ ملک اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحرانن سے گزر رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہمیں مسلسل دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ ہماری معیشت تباہ ہو رہی ہے، پیسہ (ملک کے خزانے کے بجائے) باہر منتقل ہو رہا ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی جمہوریت باقی رکھنے کے لیےضروری ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنایا جائے۔ اگر عدلیہ اپنا اختیار و استحقاق کھوتی ہے، تو پورے ملک کے عوام پرگہری ضرب پڑے گی، اس لیے اسرائیلی عوام مسلسل سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

٭٭٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے