٭ سب سے پہلے ہم آپ کے افراد خانہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟
ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ ہمارے دو بھائی، والد صاحب کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ ہم میں سب سے بڑی وفاء بہن ہیں جو مرحوم سعید رمضان کی اہلیہ نہیں، ان کے بعد احمد سیف الاسلام البنا ہیں، پھر سناء اور محمد حسام الدین (فوت ہو گئے )، ان کے بعد رجاء ہیں اور پھر صفاء تھیں (فوت ہو گئیں ) ان کے بعد ہالہ ہیں اور سب سے چھوٹی بہن استشہاد ہیں جو والد صاحب کی شہادت کے بعد پیدا ہوئیں۔ ہمارے دادا ان کا نام دماء (خون) رکھنا چاہتے تھے ،لیکن رجسٹریشن کرنے والوں نے یہ نام رکھنے سے انکار کر دیا۔ پھر میرے دادا نے بھی یہ نام پسند نہیں کیا کہ وہ ہماری بہن کی ذات کا حصہ بنا تھا اس لیے استشہاد (شہادت) تجویز کیا گیا۔ کلرک نے اس سے بھی انکار کر دیا لیکن میرے دادا نے اصرار کیا اور کہا کہ اگر اس کا یہ نام نہیں لکھو گے تو میں اسے بے نام ہی رہنے دوں گا یہاں تک کہ یہ بچی تم لوگوں کے ظلم کی زنجیر توڑنے کا سبب بن جائے گی۔ اس پر مجبور ہو کر اس نے استشہاددر ج کرلیا، کیونکہ اس نے میرے ابو کی شہادت کے بعد جنم لیا تھا۔ یہ نام دادا جان ، دادی جان اور ہماری بڑی بہن وفاء نے چنا تھا۔
ابو کی شہادت کے وقت وفاء باجی کی عمر17برس کی تھیں اور سیف 14 سال کے تھے۔ سنا11 سال کی تھی۔ رجاء ساڑھے پانچ برس کی تھیں، جب کہ ہالہ اڑھائی سال کی تھی۔ ہماری والدہ اس وقت بیماری سے دو چار تھیں۔ وہ دل کی مریضہ بھی تھیں۔ ہالہ کی پیدائش کے بعد امی کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ ابو کی شہادت کے وقت ان پر بیماری کا حملہ شدید تھا، حتیٰ کہ ان کے معالج نے کہا کہ اسقاط کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس ضمن میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے انھوں نے 12 فروری کی تاریخ طے کر دی۔ لیکن11 فروری 1949ء کی شام ابو کو شہید کر دیا گیا۔ امی کی طبیعت خراب ہونے کے باعث ڈاکٹر صاحب وزارت داخلہ سے خصوصی اجازت کے بعد ابو کی شہادت کے اگلے دن گھر آنے میں کامیاب ہو گئے۔
پولیس نے ہمارے گھر کا مکمل محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے اصرار کیا کہ والدہ کو ہسپتال لے جایا جائے لیکن امی نے انکار کر دیا۔ پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ یہی بات چلی۔ سیف بھائی نے امی کی کمزور صحت کے باعث اسقاط سے انکار کر دیا۔ ہماری ایک رشتہ دار خاتون انھیں ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے گئیں ،جنھوں نے کہا کہ ہر15 روز بعد طبی معائنہ ہوتا رہے گا۔ اگر کوئی خطرہ ہوا تو پھر کوئی انتہائی فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کو منظور تھا کہ استشہاد دنیا میں آئے،وہ آئی اور اس کا نام ابو کی شہادت کی نشانی بن گیا۔
٭ ذاتی زندگی میں امام شہید کا آپ سے برتاؤ کیسا تھا؟
ابو کی پوری زندگی میں بہت واضح اور مکمل توازن تھا۔ انھوں نے ہماری تربیت میں بھی توازن برتا۔ ہماری بہن وفاء، بچوں میں سب سے بڑی تھیں اور وہ گھر پر ابو کی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔ امی مصروف بھی بہت رہتی تھیں اور بیمار بھی تھیں۔ گھر پر میزبانی کی ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ امی کے کندھوں پر تھا۔ مرکز میں آنے والے مہمانوں کے لیے کھانا بھی بعض اوقات وہی تیار کیا کرتی تھیں۔ کبھی ایک دن میں تین تین بار کھانا پکتا۔ ابو کی شہادت کے بعد بھی اخوان کا معمول تھا کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد ہمارے گھر والوں سے ملاقات کے لیے ضرور آتے، اور یہ نا ممکن تھا کہ کوئی آئے اور امی اسے کچھ کھلائے پلائے بغیر جانے دیں۔ جب امی ابو ،قاہرہ آگئے اور وہاں اخوان کا مرکز بننے لگا تو امی نے اپنا سارا جہیز مرکز کے لیے دے دیا، یہاں تک کہ گھر کے قالین اور پردے بھی۔
یہاں میں آپ کو امی کے بارے میں مزید کچھ تفصیلات بتاتی چلوں۔ میری والدہ اسماعیلیہ شہر کے ایک درمیانے متمول گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ میری دادی اماں، ہمارے والد صاحب کے لیے مختلف گھروں کے رشتے دیکھ رہی تھیں۔ ایک رات امی کے گھر آئیں،تو انھیں نسوانی آواز میں خوب صورت تلاوت قرآن کی آواز آئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ فلاں ہیں اور دوران نوافل تلاوت کر رہی ہیں۔ دادی نے بغیر کچھ مزید پوچھے ذہن میں ایک رائے قائم کرلی۔ پھر انھوں نے دیکھا کہ اگر چہ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے، ملازم خواتین بھی ہیں لیکن اہل خانہ گھر کے اکثر کام خود کرتے ہیں، تو یہ رائے مزید پختہ ہوگئی، لیکن پھر معلوم ہوا کہ ان کی منگنی کہیں اور طے ہو چکی ہے، یہ سن کر دادی اماں واپس آگئیں۔ ایک روز ایسا ہوا کہ امی کا منگیتر آیا اور نانا سے کہنے لگا: ’’اپنی صاحب زادی کو میرے ساتھ بھیج دیں، ہمیں سینما جانا ہے۔ ‘‘
نانا نے کسی سے پوچھا کہ یہ سینما کیا ہوتا ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ تو بڑی خراب چیز ہوتی ہے، جس میں رقص و سرود بھی شامل ہے۔ نانا نے منگنی کی انگوٹھی لا کر ان کی ہتھیلی پر رکھ دی اور کہا: ’’تم سے میری کسی بیٹی کی شادی نہیں ہوسکتی۔‘‘ بعد میں یہ رشتہ ابو کے ساتھ طے پا گیا۔
٭ مسلسل سفر اور شدید مصروفیت کے باوجود وہ آپ لوگوں کی تربیت کے لیے کیسے وقت نکالا کرتے تھے ؟
ابو دور رہ کر بھی ہماری تربیت کیا کرتے تھے۔ مثلاً انھیں معلوم ہوا کہ سیف بھائی کچھ عام قسم کے ناول پڑھنے کے شوقین بنتے جارہے ہیں۔ انھوں نے منع کرنے کے بجائے تاریخ اسلامی کے واقعات اور عظیم شخصیات جیسے صلاح الدین ایوبی کے بارے میں کئی اچھی کتا بیں انھیں لا کر دیں، نتیجہ یہ ہواکہ کچھ عرصہ بعد خود سیف الاسلام بھائی کی پسند بدل گئی۔ اس طرح والدصاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم جو کام بھی کریں اس کا داعیہ خود ہمارے دل سے اٹھے۔ جدید مصر نامی ایک پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل،میرے والد صاحب سے بڑی عقیدت رکھتی تھیں۔ وہ ہر منگل کو ابو کے درس کے لیے خواتین کو جمع کیا کرتی تھیں۔ انھوں نے ابو سے پوچھا کہ آپ اپنی کسی بیٹی کوداخل کروانا چاہتے ہیں ۔ ابو نے رضامندی ظاہر کی تو انھوں نے مجھے وہاں براہ راست پہلی کلاس میں داخلہ دے دیا۔ لیکن جب ابو نے دیکھا کہ پرنسپل کے لاڈ پیار کی وجہ سے میری پڑھائی کا معیار گر رہا ہے، تو انھوں نے مجھے وہاں سے وفاء بہن کے اسکول میں منتقل کر دیا۔ابو کبھی ہمیں افسردہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
ایک بار دادی جان نے شادی کی ایک تقریب میں جانے کا پروگرام بنایا۔ طے ہوا کہ سیف بھائی ، وفاء بہن اور میں ان کے ہمراہ جائیں گے، لیکن جب روانگی کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ سامان زیادہ ہو گیا ہے اور ہمارے لیے جگہ نہیں ہے، بمشکل وفاء بہن اور سیف بھائی ہی بیٹھ سکتے تھے۔ اس لیے دادی جان ان دونوں کو لے گئیں اور میں اپنے کپڑوں کا بیگ تھامے وہیں کھڑی رہ گئی۔ ابو آئے انھوں نے میرے کندھے تھپتھپائے اور کہا :’’سناء !کوئی بات نہیں ‘‘اور مجھے راضی کرنے کے لیے 25قرش دے دیے، جو اس وقت اچھی خاصی رقم تھی۔ میں پھر بھی اداس ہی رہی جس پر انھوں نے میرا بیگ اٹھایا اور مجھے ساتھ لے گئے۔
انھوں نے کبھی ہمیں یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کام کا بوجھ اپنے ساتھ گھر لے آئے ہیں۔ مثلاً ہم نے انھیں کبھی ان لوگوں کی طرح کرتے نہیں دیکھا کہ جو گھر میں داخل ہوتے ہی چیخنا، چلانا، ڈانٹنا اور دھمکانا شروع کر دیتے ہیں۔ ابو کی زندگی میں سب سے اہم اور قابل ذکر بات ان کا منظم ہونا تھا۔ آپ والد صاحب کی زندگی کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ وہ مکمل طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی سمجھتے تھے کہ تم پر تمھارے بدن کا بھی حق ہے۔ ابو24 گھنٹوں میں بمشکل چار گھنٹے سویا کرتے تھے۔
آپ کی10 سنہری نصیحتوں میں بھی یہ بات شامل تھی کہ ذمہ داریاں اوقات سے زیادہ ہیں۔ ان کی یہ بات ان جیسے اللہ کے مجاہدوں کے لیے تو درست تھی، رہے ہم جیسے لوگ تو وقت ضائع کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ، غالباً ہمیں سب سے اچھی طرح یہی کام کرنا آتا ہے۔ ابو ہمیشہ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر ان کے پاس مہمان ہوتے تو انھیں بھی گھر لے آتے تھے۔
ابو صبح کام پر جاتے ، دوپہر کے کھانے کے وقت آتے ، پھر بہت تھوڑا سا آرام کرتے ، یہاں تک کہ وفاء باجی کہتی ہیں ایک بار ابو نے کہا :’’ میں تھوڑی دیر آرام کرنے لگا ہوں۔ مجھے ٹھیک سات منٹ بعد جگا دینا ۔‘‘باجی کہتی ہیں کہ میں جا کر قہوہ تیار کرنے لگ گئی کہ جتنی دیر میں قہوہ بنے گا سات منٹ ہو جا ئیں گے، اور میں ساتھ ہی قبوہ پیش کر دوں گی ۔ لیکن جیسے ہی میں قہوہ تیار کر کے پلٹنے لگی ،وہ میرے ساتھ کھڑے پوچھ رہے تھے:’’ وفاء بیٹی! قہوہ بن گیا؟‘‘
ابوخود پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ذات کو اپنی خواہشات کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہونے دیا۔ ابو نے ہم میں سے ہر ایک کی الگ الگ فائل بنا رکھی تھی ، جس میں اس کا سارا ریکارڈ محفوظ رکھتے تھے۔ ہر بچے کے اسکول کے معاملات ، بیماری اور علاج ، حفاظتی ٹیکوں کی تاریخیں، یہاں تک کہ ولادت سے لے کر جو جو ٹیکے لگے اور جو جو بیماری لاحق ہوئی ،ہر چیز کا ریکارڈ ہماری فائلوں میں رکھتے۔ یہ بھی ان کے منظم ہونے کی علامت تھی کہ کسی کام کو دوسرے کام پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔
٭ آپ نے بتایا کہ آپ کی بڑی بہن وفاء ان کے سیکرٹری کی حیثیت رکھتی تھیں۔
وفاء باجی ہم میں سب سے بڑی تھیں اور ہمیشہ گھر ہی میں رہتی تھیں۔ ہماری بہن’’ الاخوات المسلمات ‘‘کی تاسیس کرنے والوں میں سے تھیں۔ دیگر کئی بہنیں بھی ان کے پاس آتی رہتیں اور مختلف معاملات میں ہاتھ بٹاتیں۔ امی بھی اس پورے کام میں ان کے ساتھ شریک رہتیں۔ ابو انھیں ہماری بڑی بہن وفاء کے نام کی مناسبت سے اُم وفا کہہ کر مخاطب کیا کرتے اور انھوں نے بھی ابو کی شہادت تک ہی نہیں، شہادت کے بعد بھی وفا کاحق ادا کر دیا۔
٭ امام حسن البنا رحمہ اللہ کے خلاف سازشیں کیسے شروع ہوئیں؟
آپ کی شہادت سے پہلے ہر طرف ان کے قتل کی بات کی جانے لگی تھی۔ کبھی ہمیں یہ خبر ملتی کہ ہمارا گھر دھماکے سے اڑا دیا جائے گا۔ ابو ان باتوں پر حیرت کا اظہار کرتے اور بڑے اطمینان سے کہتے:’’ کیا سب کچھ صرف مجھے قتل کرنے کے لیے کریں گے؟ کیا پوری کی پوری ریاست میرے قتل کی سازشوں میں ملوث ہو جائے گی؟ مجھے قتل کرنے کے لیے اتنے تردد کی کیا ضرورت ہے!؟ میرے لیے تو ایک کرایے کا قاتل کافی ہے، جو کہیں سے چھپ کر گولیاں چلائے اور بس ۔‘‘
ہم یہ سن کر گھبرا جاتے۔ ابو کو ان دنوں جس چیز کی زیادہ تکلیف تھی وہ اخوان کے کارکنان کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں تھیں۔ وہ کہا کرتے تھے : ’’ مجھے اخوان کے بچوں کی آہ و بکا ہمیشہ سنائی دیتی رہتی ہے ۔ ‘‘وہ اخوان کی رہائی کے لیے ہر وسیلہ اختیار کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس ضمن میں وہ مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ الشبان المسلمون کے دفتر میں بعض سرکاری کارندوں سے اپنی آخری ملاقات میں انھوں نے انھیں بتایا کہ وہ شیخ نبراوی سے ملنے جائیں گے، جن کی عمر اس وقت70 سال کے قریب تھی ،
لیکن والد صاحب کے وہاں جانے سے پہلے ہی حکومتی ایجنسیوں نے جا کر شیخ نبراوی صاحب کا ڈیرہ تباہ کر دیا۔ پھر انھوں نے ابو سے کہا کہ شیخ الازہر جناب مراغی صاحب ان سے الشبان المسلمون کے مرکز میں ملنا چاہتے ہیں، لیکن یہ سب انھیں شہید کرنے کی سازش ہی کا حصہ تھا۔
٭ امام البنا کی شہادت کا دن آپ کے لیے کیسا تھا؟
وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس کا ایک ایک لمحہ میری یادداشت پر ثبت ہے۔ اس روز ایک پوری بٹالین فوج نے علاقے کو گھیرا ہوا تھا۔ اس علاقے کے ہر گھر کے افراد کے نام اور پتے لکھے گئے ،اور اس روز وہاں رہائشی افراد کے علاوہ کسی کو آنے یا وہاں سے نکلنے نہیں دیا گیا۔ وہ لوگ ہمارے گھر کی بوسیدہ عمارت کے اندر بھی گھس آئے تھے۔ حالانکہ وہ گرنے کے قریب تھی لیکن اس کی سیڑھیوں اور چھت پر فوجیوں کی بڑی تعداد براجمان تھی۔ وہ میرے دادا کو لے گئے اور اصرار کرنے لگے کہ وہ قصر عینی ہسپتال سے اپنے بیٹے کی میت وصول کریں اور وہاں سے سیدھا قبرستان چلے جائیں۔ میرے دادا نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے شہید کی اہلیہ اور بچے اس کا چہرہ دیکھ لیں تو پھر تدفین ہوگی۔ بالآخر دادا کا اصرار مان لیا گیا ،اور ابو کی میت گھر لائی گئی۔ دادا جان دروازے پر ہمیشہ اپنے مخصوص انداز میں دستک دیا کرتے تھے۔ انھوں نے آکر وہی مخصوص دستک دی اور کھنکارتے ہوئے امی سے کہا: ’’دروازہ کھولیں۔‘‘
اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا۔ ہم لوگ ان دنوں اپنے معمول کے خلاف دیر تک جاگتے رہتے تھے، کیونکہ ہر طرف دہشت کی فضا قائم کر دی گئی تھی اور ہمیں ابو کی شہادت قریب ہونے کا یقین ہو چلا تھا۔ جیسے ہی دادا کی آواز آئی: ’’دروازہ کھولیں ۔‘‘امی کو یقین ہو گیا کہ جو نہیں ہونا چاہیے تھا، وہ ہو چکا۔ دروازے پر دادا جان کی آواز سنتے ہی امی پکاریں:’’بالآخر انھیں مار ڈالا گیا۔‘‘ اور انھوں نے رونا شروع کر دیا۔ دروازہ کھلنے پر دادا نے امی کی ڈھارس بندھائی اور کہا : ’’اللہ سے اجر کی امید پر صبر کریں۔‘‘
میرے دادا جی بہت صابر اور اللہ والے تھے۔تھوڑی ہی دیر میں میری پھوپھیوں کو بھی معلوم ہو گیا ، ان کے گھر بھی قریب ہی تھے۔میری ایک پھوپھی آئیں اور کمرے میں جانے لگیں ،جہاں ابو کی میت رکھی تھی۔ ان کے ساتھ ہی میں بھی جلدی سے چلی گئی ، کسی روکنے والے کو میرا پتا ہی نہیں چلا۔
میں نے ابو کے چہرے سے چادر ہٹائی۔ اللہ کی قسم! جب تک میں زندہ ہوں ابو کا وہ مسکراتا ہوا چہرہ نہیں بھلا پاؤں گی۔ ایک پر سکون میٹھی سی مسکراہٹ لیے ہونٹوں میں ابو کے چمکتے ہوئے دانت نظر آرہے تھے۔ میں نے انھیں دیکھا تو بالکل یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ میری ایک سہیلی نے جب مجھ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ تمھارے ابو فوت ہو چکے ہیں، تو میں نے اسے کہا: ’’ہیں وہ فوت نہیں ہوئے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح اللہ کے پاس چلے گئے ہیں، لیکن جلد واپس آجائیں گے۔ میں نے خودان کا چہرہ دیکھا ہے۔ وہ فوت نہیں ہوئے۔‘‘پھر میرے دادا نے ابو کو غسل دیا۔ انھیں کفن پہنایا۔ گورکن تابوت لے آیا اور ابو کی میت اس میں رکھ دی گئی۔ میرے دادا فوجیوں سے مخاطب ہوئے اور کہا : ’’ میرے ساتھ میرے بیٹے کا جنازہ تو اٹھوا دو ۔‘‘ انھوں نے جواب دیا :’’ ہمیں آرڈر نہیں ہے ۔‘‘ وفاء باجی چلا اٹھیں: ’’ جنازہ تو اٹھا ئیں کندھا کون دے گا۔‘‘ لیکن وہ نہیں مانے ،اس پر میری دادی جان اٹھیں اور کہا: ’’ اپنے بیٹے کا جنازہ میں خود اٹھاؤں گی۔‘‘ وہ تابوت کی طرف بڑھیں تو اخوان سے تعلق رکھنے والی چند خواتین جو اس وقت اندر آنے میں کامیاب ہو گئی تھیں ،وہ بھی آگے بڑھیں اور اس دہشت کے عالم میں خواتین نے امام حسن البنا شہید کا جنازہ اٹھایا۔ابو کی وفات کے 10 سال بعد دادا اللہ کو پیارے ہوئے تو انھیں ابو کے پہلو میں دفن کرنے کے لیے لے جایا گیا۔
اس وقت ابو کی قبر کھولی گئی تو ایک حیرت ناک منظر تھا کہ10 سال بعد بھی ابو کا تابوت اسی طرح صحیح سالم تھا۔ میت کے چہرے کے اوپر جو شیشہ لگا ہوتا ہے اس میں سے نظر آیا کہ صرف تابوت ہی محفوظ نہیں بلکہ چہرے سے کفن کھلا ہوا تھا اور ابو کا چہرہ بالکل صحیح سالم تھا۔ اسی طرح آنکھیں موند رکھی تھیں۔ داڑھی کے بالوں کی جگہ کچھ نشان تھے۔ یہ اب سے تقریباً 1سال پہلے کا واقعہ ہے۔
٭ امام کی شہادت کے بعد آپ کی والدہ مرحومہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہوگا؟
میرے بھائی سیف نے ہمارا اور امی کا بہت خیال رکھا۔ کم سنی کے باوجود انھوں نے جان لیا کہ اب گھر کی صورت حال مخصوص نوعیت کی ہے۔ ابو کی شہادت کے بعد بھی24 گھنٹے ہماری نگرانی جاری رہی اور تو اور ان کی قبر کی بھی نگرانی کی جاتی تھی، جو وہاں دعا کے لیے جاتا گرفتار کر لیا جاتا۔ میری والدہ مرحومہ بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں۔ انھوں نے ہمیں گھر میں ہی رکھا۔ کھیلنے کے لیے بھی دوسرے بچے ہمارے گھر میں آجاتے، ہم باہر نہیں جاتے تھے۔ ہم نے یہ وقت خوب مطالعے میں گزارا۔ ابو کی لائبریری سے بھر پور استفادہ کیا۔ میں اس وقت تک سوتی نہیں تھی جب تک ابو کی لائبریری سے لی ہوئی کتاب مکمل نہ کر لیتی۔
٭٭٭
ابو کبھی ہمیں افسردہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک بار دادی جان نے شادی کی ایک تقریب میں جانے کا پروگرام بنایا۔ طے ہوا کہ سیف بھائی ، وفاء بہن اور میں ان کے ہمراہ جائیں گے، لیکن جب روانگی کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ سامان زیادہ ہو گیا ہے اور ہمارے لیے جگہ نہیں ہے، بمشکل وفاء بہن اور سیف بھائی ہی بیٹھ سکتے تھے۔ اس لیے دادی جان ان دونوں کو لے گئیں اور میں اپنے کپڑوں کا بیگ تھامے وہیں کھڑی رہ گئی۔ ابو آئے انھوں نے میرے کندھے تھپتھپائے اور کہا :’’سناء !کوئی بات نہیں ‘‘اور مجھے راضی کرنے کے لیے 25قرش دے دیے، جو اس وقت اچھی خاصی رقم تھی۔ میں پھر بھی اداس ہی رہی جس پر انھوں نے میرا بیگ اٹھایا اور مجھے ساتھ لے گئے۔
حسن البنا شہید کی بیٹی کا انٹرویو پڑھ کر روح کانپ گئ۔ایسی جراءت مند اور دلیر عورتوں کو بارہا سلام۔اللہ تع امت مسلمہ کو بچوں کی ایسی ہی تربیت کرنے والا بناۓ۔ آمین