تربیت ایک ایسا جامع لفظ ہے جو اپنے اندر مختلف صفات سموئے ہوئے ہے۔ اسلام میں تربیتی احکام انسانی فطرت کے تمام امور کو شامل ہیں ۔ اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک عدیم المثال نمونہ صدر اسلام کی وہ مسلمان قوم ہے جو گمراہی وجہالت کی کھائیوں سے نکل کر کمال کی اعلی منازل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اسلام سے پہلے اس کا کام باہمی جنگ و جدل کےعلاوہ کچھ بھی نہ تھا ،اسی قوم نے اسلامی تربیت کے زیر اثر ایسی عظیم تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھی، جو بہت کم مدت میں ساری دنیا پر چھا گئي، اوراخلاق و انسانی اقدار کے لحاظ سے ایسا نمونہ عمل بن گئی کہ ایسا نمونہ نہ اس سے پہلے دیکھا گيا تھا نہ اس کے بعد ۔
اسلامی طریقۂ تربیت، انسانی خلقت و فطرت کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے سے عبارت ہے۔ اسلام انسان کی کسی بھی ضرورت سے غفلت نہیں کرتاہے، اس کے جسم ،عقل، نفسیات ،معنویات ،و مادیات یعنی حیات کے تمام شعبوں پر بھر پور توجہ رکھتاہے، اسلامی تربیت کے بارے میں رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہی گراں قدر اہمیت کا حامل ہے کہ مجھے مکارم اخلاق کو کمال تک پہنچانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ (مسند احمد)
اسلام میں تربیت کا عمل زوجین کے انتخاب سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ ایک صالح بیوی یا شوہر جو آنے والے دنوں میں بچے کے ماں اور باپ ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی صالحیت کا اثر اور بالخصوص ماں کا خاص اثر بچے کی زندگی پر پڑتا ہے، کیونکہ بچے کا اکثر وقت ماں کی معیت میں ہی گزرتا ہے۔ لہٰذا شادی سے پہلے نیک بیوی کا انتخاب ہی اسلامی تربیت کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔
بچوں کی اسلامی تربیت والدین کے ذمہ ایک ایسا فرض ہے جس سے دستبردار نہیں ہوا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.( سورۃ التحريم: 6)
(اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اُس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو اﷲ کے کسی حکم میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا اُنہیں حکم دیا جاتا ہے۔)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِه.( صحیح بخاری)
(ہر ایک بچہ پیدا ہوتا ہے فطرت پر (یعنی اس عہد پر جو روحوں سے لیا گیا تھا یا اس سعادت اور شقاوت پر جو خاتمہ میں ہونے والی ہے یا اسلام پر یا اسلام کی قابلیت پر) پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں اور نصرانی بناتے ہیں اور مجوسی بناتے ہیں۔)
مذکورہ بالا آیت جہاں اولاد کی اسلامی تربیت کو فرض قرار دیتے ہوئے اس سےغفلت برتنے کی صورت میں جہنم کے اندوہناک عذاب سے خبردار کرتی ہے ،وہیں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک اولاد کی زندگی میں والدین کے اہم رول سے آگاہی عطا کرتا ہے۔ قرآن و سنت کے یہی فرمان اسلامی تربیت کے کچھ زریں اصول فراہم کرتے ہیں، جن سے پہلو تہی انسان کو انسانیت کے راستے دکھانے کے بجائے شیطانی راہوں پر چلنے پر مجبور کرسکتی ہے، اور اس ضمن میں والدین کی لاپرواہی اور خاص طور پر ماں کی ذمہ داری کو واجب قرار دیتے ہوئے مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی مدنی صاحب نہایت عبرت انگیز جملہ کہتے ہیں:’’زندہ ماں باپ کے یتیم بچے جو دیر رات تک گلیوں میں گھومتے ہیں، ان کی بھی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے ۔‘‘( خطاب عام ، 6 نومبر 2022 ء،بموقع: ساتواں اجلاس عام، انجمن طالبات قدیم، کلیۃ البنات، جامعۃ الفلاح، بلریا گنج ، اعظم گڑھ )
والدین چونکہ اولاد جیسے قیمتی ہیرے کی تراش خراش پر پوری طرح سے قادر ہیں، اور اس ہیرے کوتراشنے کا عمل کوئی ایک لمحہ نہیں بلکہ پوری زندگی پر محیط ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ان اصولوں پر خود بھی کار بند ہوں اور دوسروں کو بھی اس سے باخبر کریں۔ وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں:
1)زوجین کا انتخاب دینداری کی بنیاد پر کریں۔
2)دوران حمل والدین بالخصوص ماں ،گھر میں اسلامی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
3)3)دوران حمل ماں ذکر اللہ کا خاص اہتمام کرے۔
4)پیدائش کے بعد بچے کے کان میں اذان، اس کی تحنیک نیزاسلامی نام کے انتخاب کا اہتمام کریں۔
5)ساتویں دن عقیقے کا اہتمام کریں۔
6)بالوں کو منڈا کر اس کے برابر صدقہ کا خاص خیال رکھیں۔
7)بچے کے ارد گرد تلاوت قرآن اور ذکر الہی کا خاص ماحول بنائیں۔
8)بچہ جب بولنے کے لائق ہو تو کوشش کریں کہ اس کی زبان سے نکلنے والا پہلا لفظ اللہ ہو۔
9)بچہ جب اسکول جانے کے لائق ہو تو اس کی دینی تعلیم کاخاص خیال رکھیں۔
10)بچہ جب گھر سے باہر ہو تو اس کے ارد گرد کے ماحول نیز اس کے دوستوں پر نظر رکھیں۔
11)گھر میں اسلامی ماحول فراہم کریں، نیز والدین رول ماڈل بن کر ان کے سامنے لڑائی جھگڑے سے گریز کریں۔
12)بچوں کی ضروریات زندگی پر بھر پور توجہ دیں، نیز کھیل کود کے مواقع فراہم کریں ۔
13)تعلیم و تربیت کے مراحل میں بچوں کی نفسیات کا خاص خیال رکھیں۔
14)بچے کو کسی بھی غلط کام سے منع کرتے وقت اس کا مثبت متبادل پیش کریں ،
نیز اس کے اسباب بھی واضح کریں، کیونکہ بچوں کو ہر کام یا بات سے منع کرتے وقت ان کی انا مجروح ہوتی ہے، لہٰذا وہ ضد اور چڑچڑاپن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
15)بچپن سے لے کر جوانی تک بچوں کی باتوں کو بغور سنیں اور ان کی پریشانیوں اور الجھنوں کا تدارک کریں۔
16)بچہ جب کالج یا یونیورسٹی میں قدم رکھے تو والدین اس کے ہمراز بن کر حرام و حلال کی نصیحت کرتے رہیں، نیز ان کی سرگرمیوں پر خاص نظر رکھیں، کیونکہ زندگی کا یہ قیمتی وقت کسی بھی انسان کو انسان بنانے کا اہم حصہ ہے، جس سے ذرہ برابر لاپرواہی بھی اولاد کی زندگی میں زہر گھولنے کے لیے کافی ہے۔
17)بلوغت کے بعد ان کی جلد شادی کا اہتمام کریں۔
یہی وہ چند زریں اصول ہیں ،جو والدین پر اولاد کے حقوق ہیں اور انہی حقوق کی ادائیگی کو ہی دراصل اسلامی تربیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اسلامی تربیت کے یہی وہ تاباں اصول ہیں، جنھیںابتدائے اسلام میں جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنایا تو عبد اللہ بن زبیرؓ پیدا ہوئے، حضرت خنساء رضی اللہ نے اس پر عمل کیا تو اسلامی جانباز پیدا ہوئے، انہی اصولوں کو جب اپنایا گیا تو تاریخ نے کبھی صلاح الدین ایوبیؒ کے جلوے دیکھے تو کبھی طارق بن زیادؒ کی جلتی ہوئی کشتیوں کا منظر دیکھا۔ انہی اصولوں پر چلنے والی ماؤں کی آغوش میں کبھی امام بخاری ؒپروان چڑھے تو کبھی امام ابوحنیفہ ؒکی فقہی تابانی دیکھی تو کبھی امام مالکؒ کی فکر و بصیرت کی کرن نمودار ہوتی دکھائی دی۔
یہی وہ سنہرے اصول ہیں جنھیںجب ہماری ماؤں نے اپنی زندگی میں نافذ کیا تو چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ کبھی چلتے ہوئے گھوڑوں کو دریاؤں میں دوڑانے والے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جیسے جانباز پیدا ہوئے تو کبھی عقابی فکر کو پروان چڑھانے والے علامہ اقبال جیسے مفکرین و فلاسفہ منظر عام پر آئے۔ کبھی علم و ہنر کو بام عروج پر لانے والے ابن یونس اور ابن سینا جیسے علماء نے جنم لیا تو کبھی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ابن سینا، ابن الہیثم اور الزہراوی جیسے مصنفین و کاتبین نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔
اب اخیر میں اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلامی تربیت کا عمدہ نمونہ بن کر معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے کے لائق بنائے۔آمین یا رب العالمین۔
ویڈیو :
آڈیو:
قرآن و سنت کے یہی فرمان اسلامی تربیت کے کچھ زریں اصول فراہم کرتے ہیں، جن سے پہلو تہی انسان کو انسانیت کے راستے دکھانے کے بجائے شیطانی راہوں پر چلنے پر مجبور کرسکتی ہے، اور اس ضمن میں والدین کی لاپرواہی اور خاص طور پر ماں کی ذمہ داری کو واجب قرار دیتے ہوئے مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی مدنی صاحب نہایت عبرت انگیز جملہ کہتے ہیں:
’’زندہ ماں باپ کے یتیم بچے جو دیر رات تک گلیوں میں گھومتے ہیں، ان کی بھی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے ‘‘.
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ آپ سب کو ہر لمحہ ہر پل خوش وخرم رکھے۔ قوم وملت کے لیے آپ کی کاوشیں قابل مبارکباد ہیں ۔رب العالمین آپ سے مزید بہتری کے کام لے۔ اور آپ سب نظر بد اور حاسدین کے شر سے بچے رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔