اپریل ۲۰۲۳
زمرہ : ٹی ٹائم

ٹوپی

کسی گستاخ نے شان الحق حقی صاحب سے پوچھا کہ کناڈا جا کر آپ نے داڑھی کیا برفانی موسم کی رعایت میں بڑھائی ہے؟
جواب ملا کہ وقت تنگ ہے اور کرنے کے کام بہت ہیں۔روزانہ شیو میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔داڑھی مونڈ دوں تب بھی مقبولیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔اس نے دوسرا سوال داغ دیاکہ آپ کے سر پر تو ما شا اللہ بہت بال ہیں تو یہ چھجے دار ٹوپی پہننی کیوں شروع کر دی؟
خفیف سی مسکراہٹ کے بعد فرمایا :’’معاف کیجیے! ٹوپی پہنی نہیں جاتی ، اوڑھی جاتی ہے۔ شلوار اور شلوکا پہنا جاتا ہے۔ لنگوٹ کسا جاتا ہے۔ لنگوٹی باندھی جاتی ہے۔ تہبند اور اِرادہ بھی باندھا جاتا ہے۔ خُود اور زرہ بکتر پہنے جاتے ہیں۔ تاج سر پر رکھا جاتا ہے۔ نوٹ نیفے میں اُڑسا جاتا ہے۔ فوجی وَردی اور نئے فیشن کے سوٹ ڈانٹے جاتے ہیں۔ لڑکیاں بالیاں عید پرزرق بّرق پوشاکوں میں مُلبس ہوتی ہیں۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں؟رہی میری ٹوپی تو اسے اوڑھنے میں ایک حکمت ہے۔ نہ اوڑھوں تو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یار لوگ نماز کے وقت میری ڈاڑھی دیکھ کر کہیں مجھی کو اِمامت کے لیے نہ کھڑا کر دیں۔ میری جان اور اُن کے ایمان پر بن جائے گی۔‘‘

– کتاب:شامِ شعر یاراں،از:مشتاق احمد یوسفی

اپارٹمنٹ

دنیا کی سب سے عمر دراز خاتون جاپان کی مِساؤ اوکاوا ہیں،یہ اپنے ایک اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔جب یہ نوے سال کی تھیں،تو ایک وکیل نے موقع سے فائدہ اٹھاناچاہا،اور سوچاکہ یہ اور کتنا جئیں گی۔ اس نے ان سے ایک معاہدہ کیا کہ وہ انھیں ہر ماہ 2500 ڈالر ادا کرے گا، اگر وہ اپنے مرنے کے بعد اسے اپارٹمنٹ کا مالک بنانے کا معاہدہ کر لیں۔ وہ مان گئیں ۔
قسمت کی خوبی دیکھیے!وکیل 26 سال تک وہ رقم ادا کرتا رہا،جو اپارٹمنٹ کی قیمت کی دوگنی بنتی ہے، اور مساؤ اوکاوا اس سال اپنی 116 ویں سالگرہ منا رہی ہیں، جبکہ وکیل کا پچھلے سال انتقال ہو گیا۔

تحفہ

سید منورحسن،گلاسگو تشریف لائے اور تین دن میرے گھر رہنے کے لیے اس شرط پر تیار ہوئے کہ ہر نماز جماعت کے ساتھ ادا کروانے کے لیے میں انھیں مسجد لے کر جاؤں گا۔میں نے دیکھا کہ ان کے پاس پرانی گھڑی تھی۔سٹی سینٹر سے ان کے لیے ایک مہنگی کلائی گھڑی خریدی،واپسی پر انھیں بطور تحفہ پیش کی۔
تین ماہ بعد منصورہ (لاہور)میں ہماری ملاقات ہوئی،انھوں نے وہی پرانی گھڑی پہنی ہوئی تھی۔میں نے پوچھا کہ آپ وہ نئی گھڑی استعمال نہیں کر رہے؟ تو جواب دیا کہ آپ نے گھڑی کس کو تحفے میں دی تھی؟منور حسن کو یا جماعت اسلامی کے سکریٹری جنرل کو ؟
میں نے ساتھ موجود محمد ابرار صاحب سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ برطانیہ سے واپسی پر انھوں نے گھڑی سمیت بیگ میں موجود تمام تحائف بیت المال کے لیے دے دیے، جو ان کا معمول تھا۔اوراس مہنگی گھڑی سمیت تمام تحائف کو فروخت کر کے پیسے بیت المال میں جمع کرا دیے گئے۔

– ڈاکٹر محمد اقبال خان (وائس چانسلر:شفاء یو نیورسٹی)

پچیس لفظوں کی کہانی
اتفاقاً

فرزان انکل ہمارے ہی محلے میں رہتے ہیں۔ پیشے سے موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔کل اتفاقاًمل گئے،سوا گھنٹے تک سمجھاتے رہے کہ آدمی کوکم بولنا چاہیے۔

– احمد بن نذر

Comments From Facebook

1 Comment

  1. سلمیٰ

    بہترین انتجاب
    ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی کہیں قہقہہ بھی نکل گیا.
    ٹوپی اور اپارٹمنٹ کا پڑھکر یوسفی کی یاد تازہ ہوگئی
    واقعی طنز ومزاح میں یوسفی کا کوئی ثانی نہیں

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے