اپریل ۲۰۲۳

’’ہم فریا کے ساتھی تھے۔ ہم پر کتنی انگلیاں اٹھ رہی ہوں گی۔‘‘ علیزہ کو یہ فکر کھائے جارہی تھی۔
’’فکر نہ کرو۔ عزتوں کا پاسبان اللہ ہے۔ اسی پر توکل کرو۔‘‘راحیلہ نے نرمی سے یاددہانی کروائی۔
’’فریا کو دیکھ کر کہیں سے بھی، ذرا سابھی لگتا تھا کہ وہ اس طرح کی حرکت کرسکتی ہے۔‘‘ علیزہ اپنی امی سے کہہ رہی تھی۔
’’کتنا بڑا قدم اٹھا لیا اس نے۔ اسے تھوڑی بھی شرم نہیں آئی۔‘‘
’’پتہ نہیں یہ کیسے ہوگیا۔ اچھی بچی تھی فریا۔ کافر ہوگئی۔ خیر،اب تم کچھ دن کالج نہ جاؤ۔ وہ لڑکا اتنی آسانی سے فریا کو پھنسا لے گیا۔ تمھیں بھی خدانخواستہ وہ کوئی نقصان نہ پہنچائے۔آخر وہ دونوں اسی کالج میں پڑھتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میں چھٹی نہیں کرسکتی۔ ڈر کر بیٹھ گئی تو اور زیادہ ڈر جاؤں گی۔ اور کب تک بیٹھ سکتی ہوں؟ امی آپ میری فکر نہ کریں، میں احتیاط کروں گی۔‘‘وہ کالج جاتی رہی۔ ہر جگہ فریا کے چرچے تھے۔ جو بھی لڑکی ملتی، اس سے فریا کے بارے میں پوچھتی۔ علیزہ کالج میں تنہا رہنے سے ڈررہی تھی۔ وہ اور عمیمہ اب ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے۔

٭٭٭

’’ہماری عزت کو نیلام کردیا ہے اس ذلیل نے۔ کاش اس کو پید ا ہوتے ہی ماردیا ہوتا۔ آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔‘‘ ایاز گھر واپس آتے ہی گرج رہے تھے۔
’’صحیح کہتے ہیں لوگ، بیٹیوں کے وجود سے ہمیشہ عزت خطرے میں رہتی ہے۔ سات پردوں میں چھپا کررکھا تھا،پھر بھی جو گل کھلانا تھا، کھلا گئی۔‘‘ فریا کے تایا کا غصہ اپنے عروج پر تھا۔
’’ہمیںکالج نہیں بھیجنا چاہیے تھا اسے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے ہم سے۔‘‘ فریا کے تایا نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
ؔ’’وہ جہاں بھی نظر آئے، گولی ماردوں گا اسے۔‘‘ فریا کا بھائی طیش میں تھا۔
’’کالج جاکر ختم کردوں گا میں ان دونوں کو۔‘‘
’’تھم کے رہو فرزند!اس طرح گھر میں غصہ دکھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بچی تو ہماری کافر ہوگئی۔‘‘ فریا کے چچا نے تیمور کو ڈپٹا۔
’’میں بات کروں گی فریا سے۔ دیکھنا مجھے دیکھ کر وہ گھر آنے پر مان جائے گی۔ میں پوچھوں گی اس سے کہ ایسی کیا مجبوری ہے اسے۔ آپ مجھے کالج لے چلیں۔ میں اس سے کہوں گی ۔آپ لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اسے کچھ نہیں کہیں گے۔ بس وہ گھر واپس آجائے۔‘‘ رخسارروتے ہوئے بے ترتیب جملے بول رہی تھیں۔
’’کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی اس سے ملنے نہیں جائے گا۔‘‘ ایاز نے سختی سے کہا۔
’’آپ مجھے کالج لے کر تو چلیں،میں…‘‘
’’کوئی کہیں نہیں جائے گا۔ اگر کسی نے اب اس گھر کے باہر قدم بھی نکالا تو ٹانگیں توڑ کے رکھ دوں گا۔ مزید عزت کا فالودہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘فریا کے تایا کی گرج دار آواز سن کر وہاں بیٹھے نفوس لرز گئے۔
’’برباد ہوگیا میں۔ میری بیٹی… جو بیٹی کہےجانےکے قابل نہیں، اس نے میری عزت کا جنازہ نکالا ہے۔‘‘ ایاز کی آنکھوں سے آنسو گررہے تھے۔وہ نڈھال سے صوفے پر بیٹھتے چلے گئے۔وہاں روز ِقیامت کا سا منظر تھا۔ جیسے وہاں بیٹھے ہر فرد کی لاش اس گھر سے نکل رہی ہو۔

٭٭٭

’’تمھارے کالج میں تھی ناں وہ لڑکی؟‘‘ سحرش کا شوہر اس سے پوچھ رہا تھا۔وہ دونوں صحن میں کھڑے تھے۔
’’کون لڑکی؟‘‘ سحرش کا دل ڈوبا، لیکن بظاہر اس نے ہمت سے پوچھا۔
’’وہی، جس کی خبریں اخباروں اور واٹس ایپ پر آرہی ہیںکہ وہ ایک غیر مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ تمھارے کالج میں، تمھاری ہی کلاس میں پڑھتی تھی وہ۔‘‘ اس کے شوہر نے اپنی طرف سے گویا اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’جی،میری کلاس میٹ تھی۔‘‘ اس نے سرسری سا جواب دیا۔
’’میں آپ سے یہ کہہ رہی تھی کہ میں پرسوں سے کالج جانا شروع کرنا چاہتی ہوں۔ بہت لاس ہوگیا میرا۔‘‘
’’ایسی خبریں سننے کے بعد بھی کالج جانا چاہتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔ کیوں؟ نہیں جانا چاہیے؟‘‘
’’نہیں۔گھر بیٹھ کر پڑھو۔ایگزامز کے لیے کالج جانا صرف۔‘‘ اس نے دوٹوک کہا۔
’’لیکن گھر بیٹھ کر پڑھائی کیسے ہوگی؟ میڈیکل کی پڑھائی ہے، کالج جانا ضروری ہے۔‘‘
’’گھر میں جتنی دیرپڑھنا چاہتی ہو پڑھو،لیکن کالج نہیں جانا۔‘‘
’’آپ لوگوں نے توکہا تھا کہ شادی کے بعدمیں کالج جاسکتی ہوں۔‘‘ سحرش چٹخ گئی۔
’’اب میں اجازت نہیں دیتا۔ کالج جاکر لڑکیوں کے رنگ ڈھنگ بدل جاتے ہیں۔‘‘
’’میں اس قسم کی لڑکی نہیں ہوں۔‘‘ سحرش کو اس کی بات بہت بری لگی۔
’’میں نے جو کہہ دیا وہ کہہ دیا۔ اب اور بحث نہیں ہوگی۔‘‘
’’میرا سمسٹر تو ختم ہوجانے دیںپلیز!‘‘وہ اس کی منت کرنے لگی۔
’’تمھیں تو پڑھنے کا کچھ زیادہ شوق نہیں تھا۔ پھر یہ کالج جانے کے لیے اتنی بے تابی کیوں؟‘‘اس کے شوہر نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
’’کیونکہ تین سال میں نے محنت اور لگن سے پڑھائی کی ہے۔ اب ادھورا کیسے چھوڑ دوں؟‘‘
’’کل امی تمھیں لینے آئیں گی۔ تیار رہنا۔‘‘ اس نے بات ہی ختم کردی اور چلا گیا۔سحرش نم آنکھوں کے ساتھ تن فن کرتی اندر آئی۔
’’دیکھا؟ اب تو کالج جانے سے بھی منع کردیا۔‘‘
’’دیکھ سحرش! ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ تجھے کالج جانا ہے تو خود ہی میاں کو راضی کرنا پڑے گا۔ ہم درمیان میں نہیں بول سکتے۔‘‘ سحرش کی امی نے نرمی سے اس سے کہا۔
’’ہاں ہاں،میں تو آپ لوگوں کی بیٹی ہی نہیں ہوں ناں۔‘‘ سحرش پیر پٹخ کر باہر چلی گئی۔

٭٭٭

سحرش اپنی سسرال واپس آئی تو سب سے پہلے اس کی ساس نے اس سے کہا:’’اب آگئی ہو۔ کام کی طرف دھیان دو۔‘‘ سحرش ’جی‘ کہتی ہوئی آگے بڑھی۔
’’اور عمیر کہہ رہا تھا کہ تم پڑھنا چاہتی ہو؟‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’کوئی ضرورت نہیں پڑھنے کی۔ گھر میں کئی کام ہوتے ہیں۔ مہمان آتے جاتے رہتے ہیں، اور تم پڑھائی میں مصروف ہوجاؤگی؟‘‘
’’لیکن میں گھر کا سارا کام کردیا کروں گی۔‘‘ میکے میں سسرال کے بارے میں بات بھی کرتے ہوئے جو شیر بن جایا کرتی تھی، وہ یہاں بھیگی بلی ثابت ہوئی تھی۔اسے پڑھائی کا کوئی شوق نہیں تھا۔لیکن ابا کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے۔اس لیے اس نے میڈیکل میں داخلہ لے لیا تھا۔ایک سال بعد اس کے اندر دلچسپی اور جوش پیدا ہوہی گیا تھا۔اب وہ پوری محنت اور لگن سے پڑھائی کررہی تھی کہ ابا نے اس کی شادی طے کردی، اس کے سسرالیوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ شادی کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھے، انھیں کوئی اعتراض نہ ہوگا، اور اب انھوں نے اس پر پابندیاں لگانی شروع کردیں۔ اسے اپنے تین سال ضائع ہوتے نظر آرہے تھے۔ اسے تین سال ضائع ہوجانے کا خوف ستارہا تھا۔
’’زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس گھر میں میرا حکم چلتا ہے۔عمیر کو میں جو کہوں، وہ سرجھکاکر مان لیتا ہے۔ تمھیں بھی ویسا ہی کرنا ہوگا۔ اب ڈاکٹر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ گھر سنبھالو۔‘‘ اس کی ساس نے سختی سے حکم صادر کیا۔
’’آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے کالج جانے دیں گے، جب تک میں ڈاکٹر نہ بن جاؤں۔ اور اب آپ ہی اپنی بات سے پھر رہی ہیں۔ کیا وہ وعدے جھوٹے تھے؟‘‘
’’لڑکی! زیادہ زبان نہ چلایا کر میرے سامنے۔‘‘
’’میں زبان کہاں چلارہی ہوں؟ میں تو بس آپ کو آپ کا وعدہ یاد دلا رہی ہوں۔‘‘ اس کی ساس اٹھیں اور اس کے قریب آکر اس کے بالمقابل آکھڑی ہوئیں،اور ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر رسید کیا۔ سحرش گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے انھیں دیکھنے لگی۔ یہ اس کی زندگی میں کھایا جانے والا پہلا تھپڑ تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ آخری نہیں تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ آغاز تھا۔
’’اب تو ہر بات کا جواب نہیں دے گی۔‘‘
’’آپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا؟‘‘سحرش ابھی تک بے یقین تھی۔
’’ہاں، کیا کرلے گی تو؟‘‘اس کی ساس نے دو تھپڑ مزید دے مارے۔
’’میں ابا کو بتاؤں گی۔ ساری باتیں انھیں بتا دوں گی۔ آپ نے مجھے مارا، یہ بھی بتاؤں گی۔‘‘سحرش کی آواز کپکپا گئی۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے کہہ رہی تھی۔
’’جا،ابھی بتا، جا!‘‘ اس کی ساس نے بلند آواز میں کہا۔’’اور اب کی بار گاڑی کی چابی بھی ساتھ لانا۔ چل جا۔ نکل یہاں سے۔‘‘

٭٭٭

فریا والے واقعے کو دو ماہ بیت چکے تھے۔وہ چار سے تین ہوچکی تھیں۔ ان کامیڈیکل کالج میں فورتھ ایئر کا آغاز ہوچکا تھا۔اس دن وہ اور عمیمہ کالج ختم ہونے پر گیٹ کی طرف جارہی تھیں۔ تبھی عمیمہ کو کسی نے پکارا۔ان دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ ان کی ایک کلاس فیلو تھی، جو ارحم اور اس کے گروپ کے ساتھ کھڑی تھی۔’’ہم لوگ سیلفی لے رہے ہیں۔ آجاؤ۔‘‘ عمیمہ گھڑی دیکھتے ہوئے معذرت کررہی تھی کہ اسے آج جلدی گھر جانا تھا۔
’’آجائیں مس عمیمہ!‘‘ ارحم بھی اصرار کرنے لگا۔ عمیمہ نے اس سے بھی معذرت کی۔ لیکن وہ بضد تھے کہ ان کی سینیئر لڑکی جوارحم وغیرہ کے گروپ میں تھی،اس کا بی ایچ ایم ایس کمپلیٹ ہوگیا تھا، اور وہ کالج سے جارہی تھی۔ اس لڑکی کے ساتھ ان کی لاسٹ سیلفی تھی۔عمیمہ وہاں چلی گئی۔ علیزہ نے اسے دیکھ کر سر جھٹکا۔ وہ اسے نصیحت کرنا چھوڑ چکی تھی۔عمیمہ ان لوگوں کے ساتھ سیلفیز لے کر واپس آگئی۔
’’علیزہ! تم نے نوٹ کیا؟ فریا آج کل کالج نہیں آرہی۔‘‘ عمیمہ نے اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
’’اچھا؟ میں نے نوٹ نہیں کیا۔‘‘
’’آج ہم کمبائن اسٹڈی کریں؟ میں آؤں تمھارے گھر؟‘‘
’’نہیں۔ آج نہیں ہوسکے گا۔ آج ہم لوگ چاچا کے گھر جارہے ہیں۔ میری کزن رشدہ کو طلاق ہوچکی ہے۔‘‘
’’اوہ! ویری ویری سیڈ۔یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘
’’ہماری پوری فیملی اپ سیٹ ہے۔‘‘
’’اوکے، ہم پھر کسی دن کرلیں گے۔‘‘علیزہ گھر پہنچی تو سب اسی کے منتظر تھے۔ وہ سب جانے کے لیے تیار تھے۔علیزہ کپڑے چینج کرکے فریش ہوکر آگئی۔

٭٭٭

عمیمہ لاؤنج میں صوفے پر نیم درازموبائل کے ساتھ انگیجڈ تھی۔ تبھی لاؤنج کا دروازہ بلند آواز سے کھول کر اس کے پاپا اندر داخل ہوئے۔وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی۔اس نے انھیں دیکھا، جارحانہ انداز اور کڑے تیور۔’’میمونہ!میمونہ!‘‘ پاپا، ممی کا نام لے کر چیخ رہے تھے۔میمونہ اورعاشر(عمیمہ کا بڑا بھائی)دوڑتے ہوئے آئے۔’’کیا ہوا؟‘‘
’’کہاں ہے تمھارا لخت جگر؟‘‘ پاپا نے آفس بیگ صوفے پر پھینکنے والے انداز میں رکھتے ہوئے استفسار کیا۔
’’حاشر؟ دوستوں کے ساتھ گیا ہوگا۔‘‘
’’دوستوں کے ساتھ یا پولیس کے ساتھ؟‘‘
’’پولیس کے ساتھ؟ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘
’’کچھ خبر ہے تمھیں؟ تمھاری اولاد کیا کرتی پھررہی ہے؟ تمھیں تو شاپنگ اور گھومنے پھرنے سے ہی فرصت نہیں۔‘‘
’’کیا ہوگیا پاپا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یہ تمھارا بھائی۔ ‘‘پاپا نے اپنے عقب میں کھڑے حاشر کی طرف اشارہ کیا، جو ان کے پیچھے ہی اندر داخل ہوا تھا، لیکن سب کی نظر اب اس پر پڑی تھی۔
’’یہ لاک اپ میں تھا۔ ابھی رہا کرواکےلایا ہوں اسے۔‘‘ پاپا نے حاشر کا کان کھینچ کر قریب کرتے ہوئے کہا۔ عمیمہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ میمونہ بھی حاشر کو دیکھ رہی تھیں، جو سر جھکائے کھڑا تھا۔
’’کالج کے سامنے کی روڈ پر ایک لڑکی کو چھیڑ کر اس کی سونے کی چین ہتھیانے کے جرم میں لے گئی تھی اسے پولیس۔‘‘وہ غصے میں کہہ رہے تھے۔
’’بچپن میں کلاس میں چوریاں کرتا تھا، تب میں نے کچھ نہیں کہا، لیکن اب یہ میری عزت برباد کرآیا ہے۔میں رئیس افضل، جس کے سامنے کوئی نظر نہیں اٹھا سکتا، پولیس آفیسر کے سامنے نظریں جھکانے پر مجبور ہوگیا تھا میں۔ منتیں کرکرکے اسے چھڑا لایا ہوں۔‘‘
’’ کیوں کیا اس نے ایسا؟‘‘
’’ پوچھو اس سے۔‘‘پاپا نے اس کو دیکھا۔
’’کیا ضرورت تھی تمھیں سونے کی چین کی؟ ہاں! گھر میں روٹی کا ٹکڑا نہیں مل رہا تھا تمھیں جو یہ حرکت کر آئے ہو؟‘‘ وہ پاپا کو برہمی سے حاشر کو ڈانٹتا دیکھ رہی تھی۔
’’یہ ایسا کیوں کرے گا؟ ضرور پولیس کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ورنہ اسے کیا ضرورت یہ سب کرنے کی۔کسی اور لڑکے نے ایسا کیا ہوگا۔‘‘ممی آگے بڑھ آئیں۔
’’اپنے بیٹے کی غلطی کو پولیس والوں کی غلط فہمی قرار دے رہی ہو۔ دوسرے لڑکے بھی تھے اس کے ساتھ، انھوں نے نہیں کیا تھا کچھ، وہ صرف کھڑے تھے اس کے ساتھ۔کیا کمی تھی اسے گھر میں؟ تمام عیش و عشرت کا سامان اس کے پاس تھا؟ کیوں کیا اس نے ایسا؟میں نے یہ سکھایا تھا اسے؟ لڑکیوں کو چھیڑنا سکھایا تھا؟ یا چور یاں کرنا سکھائی تھیں؟‘‘
’’آپ نے کبھی مجھے نہیں بتایا کہ چوری کرنا گناہ ہے، یا لڑکیوں پر ڈاکہ ڈالنا غلط ہے۔‘‘حاشر چٹخ گیا۔اس کی بات پر پاپا نے اس کے گال پر طمانچہ دے مارا۔
’’ہاں تو نہیں بتایا آپ نے کبھی۔‘‘حاشرنے غصے سے پھر کہا۔
’’ٹھہرو ٹھہرو رئیس! رک جاؤ۔‘‘ پاپا اگلا تھپڑ مارتے، اس سے پہلے عمیمہ کے تایا گھر میں داخل ہوئے۔
’’بچے کی غلطی ہے۔ میں مانتا ہوں۔ لیکن ساتھ ساتھ تم اور میمونہ بھی قصور وار ہو۔‘‘
’’بھائی جان! آپ نہیں جانتے اس نے کیا کیا ہے۔‘‘
’’سب جانتا ہوں میں۔ اپنے دوست سے اس کا کارنامہ سن کر آرہا ہوں، اور تم لوگوں کی تمام باتیں سن چکا ہوں۔‘‘ عمیمہ کے تایا اپنے بھائی کے بالمقابل آکھڑے ہوئے۔’’تم نے بہت بڑی غلطی کردی ہے رئیس۔ میں تمھیں ہمیشہ سمجھاتا تھا کہ بچوں کی تربیت پر دھیان دو۔ لیکن نہیں۔تمھیں تواپنی عزیز ازجان چیزیں، اپنا بزنس، اپنی کمپنی؛ یہی سب سے زیادہ اہم تھیں۔‘‘
’’بھائی جان! آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے بچوں کی تربیت نہیں کی۔کیا یہ خود سے بڑے ہوگئے ہیں؟ عاشرکو دیکھیں…. یہ ہر طرح سے لائق ہے۔ یہ میری تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘
’’میں نے یہ نہیں کہا کہ تم نے بچوں کی تربیت نہیں کی۔ تم نے بہت اچھی تربیت کی ہے، جس کے نتیجے میں تمھارا بیٹا چور اور ڈاکو بن گیا ہے۔ بہت اچھی تربیت کی ہے تم نے، کہ یہ عنقریب پلے بوائے بن جائے گا۔ بہت اچھی تربیت کی ہے تم نے جو آج یہ تھانے جا آیا ہے۔‘‘ عمیمہ اپنے تایا کو بولتا سن رہی تھی۔
’’یہ میری وجہ سے تو نہیں ہوا ہے۔‘‘رئیس کے اشتعال میں اضافہ ہوا۔
’’تمھاری ہی وجہ سے ہوا ہے۔ جتنا یہ قصور وار ہے، اتنے ہی تم اور میمونہ ہو۔بچپن میں جب یہ اسکول کے کسی بچے کی کوئی چیز لے آتا، تب تم نے کبھی اس سے کہا کہ یہ غلط ہے؟ تم اور میمونہ تو ہنستے تھے کہ ہمارے بیٹے نے تو کارنامہ کیا ہے۔ تم اس کی حرکتوں پر خوش ہوتے تھے۔ کبھی تم نے یا میمونہ نے اسے بتایا کہ چوری کرنا گناہ ہے؟ کبھی بتایا کہ چور کے ساتھ اللہ کیا کرتا ہے؟ یہ بتایا کہ چور کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے؟‘‘
’’بھائی جان! بچپن میں یہ ایسی حرکتیں کرتاتھا تو جب یہ چھوٹا تھا۔اب تو بڑا ہوگیا ہے۔کیا اب بھی اسے سمجھانے کی ضرورت ہے؟ کیا اسے خود عقل نہیں؟‘‘
’’تمھیں اسے سمجھانے کی ضرورت تب نہیں پڑتی جب تم اسے اس کا رہنما، اس کا رہبر بتا دیتے،جو قرآن مجید ہے۔ اور اب یہ جو بڑے ڈاکے ڈال رہا ہے، یعنی لڑکیوں کے ساتھ ا س کا انوالومنٹ، تو یہ بچپن سے لگی ہوئی عادت کا نتیجہ ہے۔ اور عادت، مٹھائی میں موجود رس کی مانند ہوتی ہے رئیس!جتنا کھلا ہاتھ رکھوگے، یاجتنا مٹھائی کو نظر انداز کروگے، اتنا ہی مکھیاں اس مٹھائی کو آلودہ کردیں گی۔ اسی طرح عادت کو تم اگنور کروگے، اس پر دھیان نہیں دوگے، اتنا ہی یہ انسان کو آلودہ کردے گی۔ تم لوگوں نے چور تو اسے بنا دیا، اب پلے بوائے بننے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’بھائی جان! جس شخص کے ساتھ میں بزنس ریلیشنز بنانے کی کوشش کررہا تھا، جس کے ساتھ لاکھوں کی ڈیل کی ہوئی ہے میں نے، اسی کے خاندان کی بچی کے ساتھ اس نے یہ حرکت کی ہے۔ میرا لاکھوں کا نقصان کردیا ہے اس نے۔‘‘
’’تمھیں عقل آئی بھی تو کب؟ جب تمھارے بزنس میں نقصان ہوا۔‘‘ تایا نے افسوس سے انھیں دیکھا۔
’’ہم اپنے تئیں اس کی تربیت کررہے ہیں بھائی جان۔‘‘میمونہ درمیان میں بولیں۔
’’یہی تو تم غلطی کررہے ہو۔ تم اس کی تربیت اپنے طریقے سے کررہے ہو، جبکہ تمھیں چاہیے کہ تم بچوں کی تربیت قرآن کے مطابق کرو۔ جیسا اللہ نے سکھایا ہے، ویسا کرو۔‘‘
’’اللہ نے؟ اللہ نے تربیت کا طریقہ بھی بتایا ہے؟‘‘
’’اللہ نے ہر چیز کا طریقہ بتایا ہے۔ زندگی گزارنے کا پورا طریقہ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ

(آج میں نے تمھارے دِین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے۔)(المائدہ: 3)
یعنی زندگی گزارنے کا پورا طریقہ بتا دیا ہے۔تم قرآن مجید کھولوگے تو تمھاری سمجھ میں آئے گا۔‘‘ تایا صوفے پر جا بیٹھے۔
’’آپ بھی بیٹھ جائیں پلیز!‘‘ میمونہ نے رئیس سے کہا۔
’’آجاؤ بیٹاحاشر! بیٹھ جاؤ۔‘‘تایا کے کہنے پر دروازے کے پاس کھڑا حاشر آہستہ قدموں سے چلتا ہوا آیا۔
’’آئندہ نہ سنوں میں تمھاری کوئی شکایت۔‘‘ رئیس نے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کی۔وہ سر ہلا کر بیٹھ گیا۔عمیمہ وہاں سے ہٹ گئی۔

٭٭٭

علیزہ رشدہ کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے بیٹھے تھی۔راحیلہ سامنے دادی جان کے ساتھ بیٹھی تھیں۔
’’رشدہ بیٹا! روؤمت۔اللہ تعالیٰ پھر تمھارے نصیب اچھے کرے گا۔‘‘ راحیلہ، رشدہ کو تسلی دے رہی تھیں۔
’’رونے سے کیا ہوگا بیٹے، جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اب اللہ سے اچھے کی امید کرو۔ اس سے اچھا بر اور اس سے اچھا گھر تمھیں ملے گا۔ ان شاء اللہ۔ صبر کرو۔‘‘ دادی اس کے سر پہ ہاتھ رکھے کہہ رہی تھیں۔ رشدہ کی آنکھوں سے متواتر آنسو گررہے تھے۔
’’اسے ہم کل سے سمجھا سمجھا کر تھک چکے ہیں، کہ وہ لوگ اس کے قابل ہی نہیں تھے۔ان کا کیا اتنا غم کرنا۔لیکن یہ سنتی ہی نہیں ہے۔مسلسل روئے جارہی ہے۔ صبح سے کھانا تک نہیں کھایا اس نے۔‘‘ رشدہ کی امی(علیزہ کی چاچی)کہہ رہی تھیں۔
’’بھابھی، پھوپھو! اب آپ ہی اسے سمجھائیں۔ہم میں سےتو کسی کی بھی نہیں سنتی یہ۔‘‘
’’رشدہ بیٹے! اٹھو، جاؤ منہ ہاتھ دھو ؤاور پہلے کھانا کھاؤ۔ پھر مجھے تم سے باتیں کرنی ہیں۔جاؤ شاباش۔‘‘ دادی جان نے اس کی پیٹھ تھپتھپا کر کہا۔
’’جاؤ بیٹا علیزہ! اسے لے کر جاؤ۔ اور کھانا کھلاؤ۔‘‘ علیزہ اسے وہاں سے اٹھا کر لے گئی۔رشدہ نے منہ ہاتھ دھویا۔ تب تک علیزہ نے اس کے لیے کھانا نکالا۔رشدہ کو اصرار کرکے اس نے کھانے پر راضی کر لیا۔
’’رشدہ! میرا مشورہ مانو تو تم ایسے خالی نہ بیٹھی رہو۔آگے تعلیم جاری رکھو۔گیارہویں کے لیے ایڈمیشن لے لو۔ویسے بھی دسویں کرکے تم نے شادی کرلی تھی۔اب تم اپنے آپ کو مصروف کرلو۔ورنہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہوگی۔‘‘ علیزہ اس کے ساتھ بیٹھی کہہ رہی تھی۔رشدہ چپ چاپ کھانا کھاتی رہی۔چند منٹ ا س کے ساتھ بیٹھ کر علیزہ واپس لاؤنج میں آئی۔امی چاچی سے کہہ رہی تھیں۔
’’غلطی تم لوگوں نے کی ہے، جو بچی کی اتنی کم عمری میں شادی کردی۔‘‘
’’بھابھی! بالغ ہونے کے بعد شادی کی ہے۔ اتنی بھی کم عمر نہیں تھی وہ۔ اسلام میں بالغ ہونا ہی شادی کے لیے شرط ہے۔‘‘
’’ہمارے زمانے میں بھی کم عمری میں ہی شادیاں کی جاتی تھیں۔یہی عمر صحیح ہوتی ہے۔‘‘دادی جان کہہ رہی تھیں۔
’’بچی کے نصیب میں طلاق لکھی تھی۔ ہوگئی۔‘‘
’’پھوپھو! یہ نصیب میں نہیں لکھا تھا۔ہماری غلطیوں کانتیجہ تھا۔‘‘ امی نے دادی جان سے کہہ کر چاچی کو دیکھا۔
’’اور تم کہہ رہی ہو بالغ ہونا شادی کےلیے شرط ہے۔اسلام میں بالغ ہونا شرط ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ لڑکی ادھر بالغ ہوگئی اور ادھر اس کی شادی کردو۔‘‘ علیزہ دروازے کی دہلیز پر کھڑی سن رہی تھی۔’’شادی کے لیے صرف بالغ ہونا کافی نہیں ہے، شعور بھی ضروری ہے۔جسے میچیورٹی کہتے ہیں۔‘‘
’’شعور اتنا ضروری نہیں ہے بھابھی، شادی کے بعد خود آجاتا ہے۔‘‘
’’شادی کے بعد ایسا دھچکا لگتا ہے، پھر شعور آتا ہے۔تم ہی خود سوچو، ایک لڑکی بالکل نئے گھر میں، نئے لوگوں کے ساتھ، نئی زندگی شروع کرتی ہے، اس کواس کا اہل ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا شعور کی اس کو بالکل ضرورت نہیں؟ عقل اور شعور کے بغیر شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں، جیسے رشدہ کی۔‘‘
علیزہ وہاں سے ہٹ گئی۔وہ واپس رشدہ کے پاس گئی۔وہ کھانا ختم کرکے بالکل بے حس و حرکت بیٹھی خلا میں گھورر رہی تھی۔
’’رشدہ یار! تم پھر سوچنے لگ گئیں، تمھاری طبیعت خراب ہوجائے گی۔ اپنے آپ کو پریشان نہ کرو۔‘‘ علیزہ تیزی سے اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
’’علیزہ آپی! یہ کیا ہوگیا؟ ہم کتنی خوش زندگی گزاررہے تھے ناں،پھر میری شادی ہوگئی۔ خوشی دوبالا ہوگئی۔ اور اب، ایک دم سے اتنے سارے غم ہمارے قریب آگئے، اور ہم سے چمٹ گئے۔‘‘رشدہ خشک آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
’’میں نے تو کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی طلاق یافتہ کہلاؤں گی، کیا زندگی یہی ہے؟ ایک خوش و خرم لڑکی کو تکلیف زدہ اور داغ داربنانے والی۔‘‘ رشدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’رشدہ… پلیز!‘‘
’’میں آسمان سے گری تو اٹکنے کے لیے مجھے کھجور بھی نہیں ملا۔ ایک کلنک لگ گیا ہے میرے ماتھے پر۔‘‘
’’کچھ نہیں ہوتا رشدہ۔ ایک ایسا رشتہ، جو ابھی ابھی بنا تھا، وہ ٹوٹ جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی ختم نہیں ہوئی، پھر نئے رشتے ملیں گے تمھیں ان شاءاللہ۔تم مووآن کرو۔ اپنی اسٹڈیز شروع کرو۔اور سب کچھ بھول جاؤ۔‘‘
’’بھولنا اتنا آسان ہوتا تو سب سے پہلے میں یہی کام کرتی۔میرے نام کے آگے طلاق یافتہ ہمیشہ کے لیے جڑ گیا ہے۔اور یہ تو چاہ کر بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔سماج میں میرا مقام یہی ہے۔‘‘
علیزہ اسے کتنا ہی سمجھاتی رہی، لیکن رشدہ صرف ہوں ہاں کرتی سنتی رہی۔ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ رشدہ اس کی بات سمجھ رہی ہے یا نہیں۔ علیزہ کی واپسی کے وقت اس نے بس ایک جملہ کہا:’’علیزہ آپی! میرے پاس آتی رہا کریں پلیز! مجھے آپ کی، آپ کی باتوں کی ضرورت ہے۔‘‘علیزہ نے مسکراتے ہوئے اسے گلے لگالیا۔

٭٭٭

اور تم کہہ رہی ہو بالغ ہونا شادی کےلیے شرط ہے۔اسلام میں بالغ ہونا شرط ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ لڑکی ادھر بالغ ہوگئی اور ادھر اس کی شادی کردو۔‘‘ علیزہ دروازے کی دہلیز پر کھڑی سن رہی تھی۔’’شادی کے لیے صرف بالغ ہونا کافی نہیں ہے، شعور بھی ضروری ہے۔جسے میچیورٹی کہتے ہیں۔‘‘

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے