اپریل ۲۰۲۳

سیرت کی مشہور کتاب محمد عربی کے مصنف :محمد عنایت اللہ اسد سبحانی صاحب کی یہ کتاب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے چند گوشوں پر مشتمل ہے ۔
چھیانوے صفحات پر مشتمل یہ کتاب قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور مطالعہ کے آخر میں مسلمان قاری اس بات کااحساس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ غیروں تک پہنچانے کی بات تو رہی دور، اس نے خود کیوں اب تک سیرت کا مطالعہ نہیں کیا ، اور غیر مسلم قاری اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ جو لوگ اسلام اور پیغمبر اسلام پر کیچڑ اچھالنے کی قبیح حرکت کرتے ہیں، وہ جھوٹے ہیں ، مکار ہیں اور اخلاق سے عاری ہیں ۔
مصنف رقمطراز ہیں :
’’ اللہ کے رسولﷺ کی سیرت پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے ،اتنا دنیا کی کسی بڑی شخصیت پر نہیں لکھا گیا۔ آپ کی سیرت پر ہر ملک ہر زبان میں لکھا گیا ، ہر زمانے ہر دور میں لکھا گیا ، جتنے نئے پرانے اصناف سخن ہیں سب میں لکھا گیا ۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ابھی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہیں سکی ۔ آپ کی سیرت طیبہ سے واقف نہیں ہوسکی۔‘‘
بالائی چند سطور مصنف کے دل کا درد ہیں ، اور اسی درد نے مصنف کو کتاب لکھنے کی تحریک دی ہے ۔ کتاب پڑھتے ہوئے دل گواہی دیتا ہے کہ لکھنے والے کا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہے ۔ کیا دلنشین انداز بیاں ہے ، کیا عمدہ انتخاب ہے ۔ سیرت نبوی سے جن واقعات کا انتخاب کیا گیا ہے وہ بہت خوبصورت ہیں ۔ 37 ذیلی عناوین کے تحت مصنف نے اللّٰہ کے رسول کی سیرت کو اجاگر کیا ہے، جس کی روشنی ہر سلیم الفطرت شخص کے دل پر پڑتی ہے ۔ مطالعہ کے دوران قاری کبھی حضور صلی اللہ علیہ کے درد میں درد محسوس کرتا ہے ، کبھی اسے حضور کی شخصیت پر بے انتہا پیار آتا ہے ، کبھی عرب کے بدؤں پر غصہ آتا ہے کہ انہوں نے میرے پیارے حضور کے ساتھ ایسا برا سلوک کیوں کیا ، اور کبھی وہ اپنے آنسو ضبط نہیں کر پاتا ۔
مثال کےلیے حاضر ہے کتاب سے ایک اقتباس، جسے پڑھ کر مجھے بے اختیار رونا آیا:
’’حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہ رحمت عالم ﷺ کے ساتھ کہیں جا رہے تھے ، آپ کے جسم اطہر پر نجران کی بنی ہوئی موٹے کناروں والی چادر تھی ، راستے میں ایک بدوی مل گیا ، اس نے آپ کی چادر کا سرا پکڑ کر اتنی زور سے جھٹکا دیا کہ اس کی رگڑ سے آپ کی گردن مبارک پر سرخ سرخ گہرے نشان پڑ گئے۔ اس نے چادر سے جھٹکا دے کر کہا : ’’محمد ! اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔‘‘
رحمت عالم نے اس کے اجڈ پن کا کچھ بھی برا نہیں مانا ، آپ کو اس سے جو تکلیف پہنچی تھی ، اس کا کچھ بھی خیال نہیں کیا ، اس کی طرف دیکھ کر ہنسے، مسکرائے پھر فرمایاکہ اس کی ضرورت پوری کر دی جائے۔‘‘
میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ! کیسی محبت تھی آپ کی، کیسی شفقت تھی آپ کی ، دل ان واقعات کو پڑھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے کو کرتا ہے ،آپ کی محبت سے سر شار ہوجاتا ہے اور دنیا ہے کہ ابھی تک اپنے محسن کو پہچان نہیں سکی ۔
آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں ہوتی رہتی ہے ، کوئی کارٹون بناتا ہے ، کوئی اپنی زبان دراز کرتا ہے کوئی کچھ کرتا ہے کوئی کچھ ۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اور غلطی کہاں ہے ؟ اس کے جواب میں مصنف لکھتے ہیں:
’’یہ دنیا ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ آپ کسی ایک قوم اور کسی ایک ملک کے نہیں، اس زمین پر بسنے والی ساری قوموں اور سارے انسانوں کے ہمدرد اور بہی خواہ تھے ۔آج اقوام عالم کے ذہنوں میں آپ کی جو تصویر بنی ہوئی ہے، وہ پیار اور محبت سے بھری ہوئی اس تصویر سے بالکل مختلف ہے ، جو تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے اور جو تاریخ کے ذخیرے میں اندھیری رات کے چاند کی طرح چمک رہی ہے۔‘‘
پھر مصنف یہ سوال قاری سے کرتے ہیں کہ اگر دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اب تک نہیں پہچان سکی تو آخر کب پہچانے گی ؟ اگر آپ کے چاہنے والے آپ کا صحیح تعارف نہیں کروا سکے تو آپ کا صحیح تعارف کون کروائے گا ؟ غرض ایسے ہی سوالات کے بدلے میں مصنف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت خوبصورت تعارف کرایا ہے۔ اس کتاب کا ہندی میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ایسی کتابوں کو خود بھی پڑھیں اور اپنے اطراف میں رہنے والے غیر مسلم بھائیوں کو بھی پڑھوائیں ۔ ان شاء اللہ ایک دن ضرور آئے گا جس دن اس ملک کی تمام آبادی اپنے محسن کو ضرور پہچانے گی اور اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہی زندگی گزارنے کو عافیت سمجھے گی۔

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. ضیاء الرحمٰن فضل الرحمٰن

    یہ امت کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس نے اب تک سیرتِ رسول ﷺ کا ازخود مطالعہ نہ کیا۔ نبیﷺ کی سیرت کے مختلف گوشوں کو واضح طور پر اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امت کی اہم ذمہ داری ہے بلکہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ سیرتِ رسول ﷺ کا مطالعہ کریں اور اسے تمام برادرانِ وطن تک پہنچائیں۔ ہم نے ان تک صحیح تعلیمات نہیں پہنچائیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اشرار نے نبیﷺ کی غلط تصویرلوگوں تک پہنچائی۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے