اپریل ۲۰۲۳

السلام عليکم و رحمۃ اللہ

دو سال قبل اسي ماہ (مارچ) ميں ايک عظيم مقصد کے پيش نظر اپنا کردار ادا کرنے کے ليےمنظر عام پر آنے والا اردو رسالہ بنام’’ ھاديہ‘‘ الحمدللہ آج بھي بڑے عزم و استقامت کے ساتھ اپني منزل کي جانب رواں دواں ہے۔تعليم،تدبير اور تعمير جيسي اساس کے حامل اس رسالے کي ہر کامياب کوشش کے پس پردہ اپني صلاحيتيں قربان کرنے والے تمام افراد قابل مبارکباد ہيں ،کہ اُن کي کاوشيں ’’ھاديہ‘‘ کي شکل ميں معاشرے کي تاريکي ميں جگنو بن کر ابھر رہي ہيں۔

رمضان کي آمد نے ان دنوں کچھ يوں مصروف رکھا کہ اس ماہ کا شمارہ ہفتہ گزر جانے کے بعد پڑھا۔ شروعات ہي ميں محترمہ خان مبشرہ فردوس کي خواتين کو لے کر ايک جامع تحرير بعنوان ’’ مساوات نہيں عدل چاہيے‘‘ سامنے آئي۔عنوان بظاہرسادہ تھا، ليکن گہرا محسوس ہوا ۔دل نے کہا، پڑھنا واجب ہے۔ پڑھ کر بڑا فرق نظر آيا مساوات اور عدل ميں۔ ’’عدل‘‘جسے ’’مساوات‘‘کے فلک شگاف نعروں ميں نظر انداز کرديا جاتا ہے۔مرد و زن کے فطري تقاضوں اور ذمہ داريوں کو جس اسلوب ميں اعتدال کے ساتھ بيان کيا، بہترين ہے۔پھر درس قرآن کے ذريعے محترمہ عرفہ مرجان نے انفاق اور اس کي برکت کو لے کر خوب رہنمائي کي۔اسي کے ساتھ احاديث مبارکہ کي روشني ميں سلميٰ سلامت نے رمضان کي اہميت و فضيلت گہرائي سے بيان کي۔اس کے بعد رمضان المبارک ہي کے سلسلے ميں ڈاکٹر سميہ رياض فلاحي  نے تاريخ کے آئينے ميں صحابۂ کرام کي زندگيوں کے شب و روز کو جس انداز ميں رقم کيا، دل احتساب کے دائرے ميں گردش کرنے لگا کہ واقعي کيا لوگ تھے جو اس راہ گزر سے گزرے۔

پھر ھاديہ کے ايک خاص زمرے گوشۂ مطالعہ کا ذکر بھي قابل ذکر ہے ۔يوں تو اس ميں شائع ہر تحرير،تبصرہ قابل ستائش ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھي جب ان اوراق پر پہنچے تو محترمہ فردا ارحم کا ’’تحريکي مکالمے‘‘نامي کتاب پر تبصرہ نظر آيا،  اور نظريں چمک اٹھيںکہ يہ تو وہ کتاب ہے، جس ميں انسان کي شخصيت کا بڑا انقلاب پوشيدہ ہے۔

’’ازل سے چلتے آرہے معرکہ ٔ خير و شر ميں خير کي طرف لپکنا اور شر سے دور بھاگنا انساني نفس کي بڑي آزمائش ہے، اس آزمائش ميں کامياب ہوئے وہ لوگ، جنھوں نے نفس امارہ کو دھتکار کر نفس لوامہ کي پکار پر لبيک کہا۔‘‘

پھر اسي زمرے کا دوسرا تبصرہ محمد ناصر افتخار کي کتاب ’’خود سے خدا تک‘‘ پر سہيل بشير کار صاحب کي قلم سے پڑھنے کو ملا، جس نے کتاب کو پڑھنے کا شوق پيدا کر ديا۔زمرہ صحت و صلاح ميں ڈاکٹر صبيحہ خان کي معلومات سے بھرپور تحرير قارئين کے ليے مفيد لگي۔پھر وقت کے ايک اہم موضوع پر اسمارٹ فون کو لے کر عليزے نجف کا تحقيقي مقالہ نوجوان نسل کے ليے سبق آموز ہے، چونکہ اس دور پر فتن ميں اسمارٹ فون کا جادو ہر کسي کے سر چڑھ کر بول رہا ہے، ايسے ميں تجربات کي روشني ميں دعوت فکر دينے والي يہ تحرير اوراس کا اسلوب

کافي مؤثر ہے۔

ھاديہ کا ايک زمرہ ’’ معمار جہاں تو ہے‘‘روزاول ہي سے اپني الگ پہچان رکھتا ہے ،اس کي بڑي وجہ يہ ہے کہ اس ميں عزائم سے لبريز پُر اميد انقلابي شکل کي تحريريں شائع ہوتي نظر آئي ہيں۔اس مرتبہ بھي’’ ميں بھي حاضر’ تھي‘ وہاں‘‘ کےپُر کشش عنوان نے استقبال کيا۔يہ تحرير آل مہاراشٹرا رکان کے اجتماع کي قسط وار رودادي شکل تھي، جسے محترمہ تحسين عامر نے پيش کيا۔دوران مطالعہ جيسے جيسے آگے بڑھے ،يوں لگا کہ صاحب تحرير کے ساتھ ہم بھي حاضر ہيں وہاں۔آخر ميں زمرہ ’’بہنيں پوچھتي ہيں‘‘ ميں ايک دلچسپ سوال نے متوجہ کيا۔ سوال مسلم خواتين کي معاشي جدوجہد سے متعلق تھا۔ڈاکٹر رضي الاسلام صاحب کا اطمينان بخش جواب بڑا اچھا لگا۔ جس ميں عورت کي معاشي جدوجہد کو لازم تو نہيں، البتہ حسب ضرورت و موقع اسلامي حدود کي پابنديوں ميں رہتے ہوئے اجازت کو لے کر مثبت جواب ديا۔

وعلیکم السلام
سسٹر اسماء! آپ کی رائے پڑھ کی دل باغ باغ ہوا جب آپ جیسی طالبات ھادیہ کا مطالعہ کرکے اپنی رائے ارسال کرتی ہیں تو ھادیہ کا مقصد تکمیل پاتا ہوا نظر آتا ہے ۔
ھادیہ ٹیم کا حوصلہ ہی دراصل قاری کی رائے ہے امید ہے آپ کا تعاون ہر لمحہ بنا رہے گا ۔

دعا کی خواستگار
ایڈیٹر
ھادیہ ای- میگزین

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے