اپریل ۲۰۲۳
زمرہ : النور

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تَبٰـرَكَ الَّذِىْ نَزَّلَ الْـفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرا (الفرقان:  1)

(نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کتاب اتاری ،تاکہ وہ دنیا والوں کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے۔)

قرآن مجید اس زمین پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت و رحمت ہے ،یہ کتاب ہر دور کے انسانوں کے لیےراہ ہدایت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اسے فرقان یعنی حق و باطل میں تمیز کرنے والی بتایا ہے ۔۔مولانا مودودی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ لفظ تبارک کے اندر یہاں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، یہ کئی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ،بڑا محسن و با خیر ،نہایت بزرگ و برتر ،بہت ہی مقدس اور کمال قدرت والا ،وہ ذات ہے جس نے یہ فرقان نازل فرمایا ۔
فرقان کہہ کر دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ یہ کتاب اپنی صداقت ثابت کرنے کے لیے بجائے خود ایک دلیل و حجت ہے ،یہ کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں ۔سورۂ فرقان میں دراصل کفار و مشرکین کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی پیش کردہ تعلیمات پر کیا کرتے تھے ۔یہ آیت ایک تمہید کے طور پر ہے، آگےکی آیات پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح کفار و مشرکین کی فضول و احمقانہ باتوں پر گرفت کی گئی ہے۔چنانچہ لفظ’’ عبدہ‘‘ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خاص التفات کا حامل ہے ، اور اس التفات کا یہاں ایک خاص محل ہے ،کفار کے ان اعتراضات کے جواب میں جو وہ آپ اور آپ کی تعلیمات پر تحقیر آمیز انداز میں کیا کرتے تھے ۔خاص طور پر مکہ اور طائف کے دولت مند ،جو اپنی دنیاوی و مالی برتری کے گھمنڈ میں چور تھے ،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان وسائل سے بے تعلقی پر چوٹیں کیا کرتے تھے ،اور اس چیز کو آپ کی رسالت کی تردید میں ایک بہت بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا کرتے تھے ۔(تدبر قرآن)
اللہ تعالیٰ نے یہاں متکبرین کی اسی ذہنیت کو سامنے رکھ کر فرمایا کہ اس نے اپنے بندۂ خاص پر فرقان کی شکل میں نعمت عظمیٰ اتاری ،اس کے بعد وہ کسی چیز کے محتاج نہیں ،لوگوں کو چاہیے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور اس کی روشنی میں اپنی گمراہیوں کی اصلاح کریں۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو اس کتاب کے بجائے وہ کسی تازیانۂ عذاب سے مسلح کر کے بھی بھیج سکتا تھا، لیکن وہ بہت مہربان اور رحیم ہے ۔

لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا

’’عالمین ‘‘کے لفظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن صرف اسی دور کی کتاب نہیں ،بلکہ رہتی دنیا تک کے انس وجن کے لیےراہ نجات ہے ،دنیا وآخرت کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کا عروج وزوال اسی سے وابستہ رہا ہے ۔قرآن کا لزوم سر بلندی ہے ،اس سے بے اعتنائی ذلت و پستی ہے ،چنانچہ ارشاد گرامی ہے :

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْد (سورہ قٓ : 37)

(کیونکہ اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لئے جس کے پاس بیدار دل ہو یا جو حضور قلب کے ساتھ کان لگا کر بات سنے۔)
علامہ اقبال اسی بات کو کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں:

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جذ بۂ قرآں زیستن

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Rabia Bano

    آپ۔ نے ما شا ءاللہ۔ دریا کو کوزے میں۔ سمویا ہے۔ لیکن اگر اسکی زبان اور آسان ہوتی تو بہتر ہوتا

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے