اپریل ۲۰۲۳

ایک لمبے عرصے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سرد دیوار اب پگھلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ چین نے ثالثی کردار نبھاتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری دشمنی کو ختم کروانے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ چار روزہ مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار ایران کے علی شمخانی اور سعودی عرب کے سیکیورٹی مشیر موسید بن محمد العبان نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ معاہدے کے تحت دو ماہ کے اندر سفارت خانہ کھولنے، ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
چین کے اعلیٰ سفارتکار وانگ یی نے معاہدے کو مذاکرات اور امن کے فتح قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین مشکل عالمی مسائل کے حل میں تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ چین کو سراہتے ہوئے سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں چین نے منفرد نوعیت کا کردار ادا کیا ہے، اور یہ معاہدہ چین کے اقتصادی اور جیوپولیٹیکل مفادات میں ہے۔ اس معاہدے کے پیچھےکی یہ جاننا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان حالات اتنے کشیدہ ہونے کے پیچھے کیا وجوہات تھیں؟ سعودی عرب اور ایران کے درمیان دشمنی کا آغاز 1979 ءمیں ایرانی انقلاب کے فوراً بعد ہوا تھا۔ اس وقت ایران نے سبھی مسلم ممالک کو بادشاہت ختم کر کے مذہب کی حکمرانی کے نفاذ کی دعوت دی تھی۔ 1981 ءمیں صورتحال مزید بگڑ گئی جب عراق نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کیا۔ 2016 ءمیں سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین تہران میں سعودی سفارتخانہ میں گھس گئے تھے، جس کے بعد سے تعلقات پوری طرح خراب ہو گئے۔ اب 2023 ءمیں چین کی کوششوں سے ان ممالک کے تعلقات میں پھر سے بحالی آئی ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے اچھے تعلقات نہ صرف ان دونوں ممالک کی بہتری کے لیے ضروری ہے، بلکہ پورے عالمی سیاست میں اس کے اثرات دیکھنے کو ملیںگے۔ امریکہ نے اس پر جہاں مبارکباد پیش کی ہے، وہیں اسرائیل نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب میں امریکا کے سابق سفیر جوزف ویسٹ فال کے مطابق سعودی تناظر میں دیکھیں تو ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے سعودی عرب میں اصلاحات لانے اور معاشی بہتری اور جدت کی راہ میں رکاوٹ دور ہو چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی قیادت سمجھتی ہے کہ یہ معاہدہ ملک کےلیے ایک اہم لمحہ ہے ،کیونکہ اب سعودی عرب کئی اہم ایشوز پر ایک حقیقی لیڈر کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔
سعودی ذرائع نے واضح کیا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام تنازعات کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
ان سب کے بیچ ہندوستان کی پوزیشن کو سمجھنا بھی ضروری ہو جاتا ہے، چونکہ ہندوستان کے مفادات دونوں ممالک سے جڑے ہوئے ہیں ،لہٰذا ہندوستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنا پڑے گا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیاء کے ماہر پروفیسر اے کے پاشا کہتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کا خلیجی ممالک اور پوری دنیا پر اثر پڑا، دونوں ممالک کے باہمی مسائل عالمی مسائل بن چکے ہیں۔ دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہوگئے جیسے مصر، ترکی، روس اور چین بھی بالواسطہ طور پر اس میں شامل ہوگئے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کا کم از کم موجودہ نقطۂ نگاہ، پاکستان اور بھارت کو سعودی عرب اور ایران سے تعلقات طے کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب قیادت کے درمیان دوبارہ روابط جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے مثبت خبریں لا رہے ہیں، جو بہتر تجارتی تعلقات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تاہم جہاں بھارت نتیجہ خیز داخلی دباؤ سے آزاد اور جغرافیائی سیاسی نقطہ ٔنظر کے ساتھ موجودہ پیش رفت کو معاشی اور جغرافیائی دلچسپیوں کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے، وہیں امکان ہے کہ پاکستان نظریاتی شراکت داریوں کو ناقابل استعمال ثابت کرنے والے حالیہ واقعات کے باوجود بھی خطے میں روابط کو مذہبی سیاسی لائحہ ٔ عمل کے زاویے سے دیکھے گا۔

٭٭٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Khwaja Hasan

    الحمداللہ بہت ہی خوش آئند خبر ہے۔ اللہ سبحان تعالٰی دعا ہے کہ دونوں فریقوں کو معاہدہ کی پاسداری اور مزید استحکام عطا فر مائے۔ آمین یا رب العالمین

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے