اپریل ۲۰۲۳

یہ ام زید کی کہانی ہے۔جو امت مسلمہ کی ماؤں میں سے ایک مثالی ماں ہیں، وہ اپنے بیٹےزید کی تربیت بہترین انداز میں کرتی ہیں، اور انھیں امید ہےکہ ان کا بیٹا اسلام کی بڑی خدمت کرےگا۔
یہ زید کی کہانی ہے ۔وہ قرآن اور نماز کا پابند ہے،وہ اپنی ماں کی انمول نصیحتوں کو پورے دھیان سے سنتا ہے ،پھر اسے ڈائری میں لکھتا ہے۔اس کہانی میں تربیت بچے کی ہوتی، مگر پڑھنے والا غور کرے تو بہت کچھ سیکھ جائے۔
یہ بالائی منزل کے کمرے کی کھڑکیاں تھیں، جہاں سے دھوپ چھن چھن کر اندر آتی،اور پردے گرم ہواؤں سے پھڑپھرا جاتے۔جہاں تک ان پردوں کی رسائی تھی وہی سے کچھ دور چند جائےنماز بچھے تھے ،قریب کی الماری میں تسبیح قرآن ترتیب سے رکھے نظر آتے تھے ،اسی الماری کے پاس وہ درود و استغفار میں مشغول تھی کہ زید دوڑتا ہوا آیا اور اپنی امی سے لپٹ گیا:’’ مما…مما !‘‘اس نے بیٹے کو اپنے سامنے بیٹھا دیا۔
’’امی! مجھے بہت روزہ لگ رہا ۔‘‘ چھوٹے زید نے حلق کو دونوں ہاتھوں سے چھوتے ہوئے کہا۔اُم زید نے الماری سے قرآن اٹھا کر زید کو تھمایا:’’ قرآن پڑھو !اس سے روزہ نہیں لگتا ۔‘‘
زید دوزانوں ہو کر ادب سے بیٹھ گیا، اور تلاوت شروع کی:’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘
ام زید انگلی سے قرآن کے نیچے ترجمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’اونہوں! عربی نہیں، ترجمہ پڑھو!‘‘زید نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ترجمہ پر نظر جمائی۔
’’ شروع اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
’’بس رک جاؤ!‘‘
اُمِّ زید نے آگے ہو کر قرآن دیکھا پھر زید سے پوچھا :’’جانتے ہو رحمان اور رحیم میں کیا فرق ہے؟ ‘‘زید نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ رحمان کہتے ہیںبہت زیادہ رحم کرنے والے کومگر رحیم،رحیم وہ ہوتا ہے جس کا رحم Temprory نہیں ہوتا، بلکہ اس کے رحم کرنے میں ہمیشگی ہوتی ہے۔وہ ہر وقت، ہر لمحہ رحم کی صفت سے متصف ہوتا ہے ،اسی لیےوہ ارحم الراحمين کہلاتا ہے،سمجھے؟‘‘ ام زید نے اپنے 12 سالہ نور چشم کو دیکھا جو بہت انہماک سے ماں کی باتیں سن رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا۔بچہ چھوٹا ہے، یہ کہہ کر کتنی ہی باتیں ہم اپنے بچوں کو سکھاتے نہیں مگرام زید کا ماننا تھا کہ جب بچہ Android کے تمام فیچرزاستعمال پر قادر ہے، مشکل سے مشکل گیمز کو ٹچ اسکرین پر ہینڈل کر رہا ہے، تب یہ باتیں جو فطرت سے اس کے اندر موجود ہے ان کو سمجھنا ان سمارٹ بچوں کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
زید اپنی انگلی رحمان و رحیم کے الفاظ پر پھیر رہا تھا ،پھر سر اٹھا کر کہنے لگا: ’’امی! اگر اللہ رحمان رحیم ہے تو پھر وہ اپنے بندوں کو رمضان میں پیاس اور بھوک میں مبتلا کیوں کرتا ہے؟‘‘ ام زیدکو بیٹے کے سوال پر بہت خوشی ہوئی۔
کیا، کیوں اور کیسےکی آمد علم میں پختگی پیدا کرتی ہے، اور بیٹا قرآن پر غور کرنے لگا تھا، اسے سمجھنے لگ تھا،ایک ماں کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہوگی۔
’’ زید !کیا آپ جانتے ہیں کہ انسان کن دو چیزوں کا مرکب ہے؟‘‘
’’ ہاں۔‘‘ اسکول میں ہماری ٹیچر ایکسرسائز کے بعد مراقبہ کرواتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ تمہارے روح کی Exercise ہے، یعنی ہم جسم اور روح دونوں سے مل کر بنائے گئے ہیں۔‘‘
’’ بالکل صحيح!‘‘ ام زید نے بیٹے کے گالوں کو تھپتھپایا پھر کہنے لگیں:’’ جس طرح ہمارے جسم کو بھوک، پیاس، سردی، گرمی لگتی ہے ٹھیک اسی طرح روح کی بھی کچھ ضروریات ہوتی ہیں،اسے بھی بھوک لگتی ہے، وہ بھی پیاسی ہوتی ہے مگر…‘‘ ام زید نے رک کر زید کا چہرہ دیکھا، وہ انہماک کے ساتھ اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔’’…مگرہم انسان جسم کی غذا کا خیال تو کرتے ہیں اور روح کی پیاس کو بھول جاتے ہیں۔ ہم جسم کو مزے مزے کے کھانے تو فراہم کرتے ہی چلے جاتے ہیں، مگر روح کو بھوکا تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘

’’اور روح کی غذا کیا ہے مما؟ ‘‘زید جو اس کی بات پوری طرح سمجھ چکا تھا ،سوال کیے بغیر نہیں رہ سکا۔

’’ روح کی تقویت کےسامان ہیں: نماز، قرآن اور ذکر و اذکار ۔‘‘ ام زید نے نگاہیں تسبیح اور مصحف پر مرکوز کرتے ہوئے کہا :’’اوہ! اب مجھے سمجھ آ گیا ۔‘‘ زید نے ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھا۔

’’ واقعی؟ کیا سمجھے؟‘‘ اُم مزید نے دبی دبی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’ اوہو مما !آپ اتنا بھی نہیں سمجھیںکہ اللہ ہمیں بھوکا اور پیاسا رہنے کے لیے اس لیے کہتا ہے تاکہ ہم روح کی پیاس کو محسوس کریں،اور کبھی بھی اسے سسکتا بلکتانہ چھوڑیں۔‘‘ زید نے فخریہ انداز میں ماں کو سمجھایا پھر قرآن کو آنکھوں سے لگا کر واپس رکھ دیا۔

’’بادب بانصیب،بے ادب بے نصیب‘‘

اُم زید نے اثبات میں سر ہلایا، ادب حصول علم کی پہلی شرط ہے۔زید اٹھ گیا اور دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے خود کہنے لگا :’’آئندہ میں کہوں گا کہ الحمد للہ مجھے روزہ لگ گیا۔‘‘ زید نےکمرے میں جاکر دراز سے ایک ڈائری نکالی،جس کے اوپر رنگین الفاظ میں لکھا تھا:’’گوش نصیحت نیوش‘‘

اس نے کورا صفحہ نکالا اور لکھنے لگا’’ اے روح اِنسانی!افسوس! کہ ہم نے تیری پیاس کی سیرابی کاسامان نہ کیا،مگر اے روح انسانی! عنقریب ہم تیری روح کو سیراب کریں گے،ذکرِ الٰہی سے،الفاظِ قرآنی سے،ان شاءاللہ۔‘‘

٭٭٭

Comments From Facebook

3 Comments

  1. نکہت اقبال

    ماشاءاللہ اچھا اور تربیتی ماحول بنا نے میں معاون ثابت ہونگی یہ تحریر ۔جزاک اللہ ۔

    Reply
  2. عا ئشہ کوثر

    ماشاء اللہ بہتر ین تحریر۔جزاک اللہ

    Reply
  3. منور سلطانہ

    جزاک اللہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے