ملک کے بیشتر اداروں میں خواتین کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں، جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں آگے بڑھنے کے مواقع کم دیئے جاتے ہیں۔ ملت اسلامیہ کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ مسلم معاشرے میں مردانہ برتری ( male dominated) کا رجحان پایا جاتا ہے۔
اس معاشرے میں خواتین کے ساتھ عدل وقسط کا معاملہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی حیثیت کے مطابق انہیں مقام و مرتبہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس غلط فہمی کی جماعت اسلامی ہند کے حالیہ انتخابات سے نفی ہو جاتی ہے۔ جس طرح جماعت کے 162 ارکان مجلس نمائندگان میں 36 خواتین ارکان کا انتخاب ہوا جو کہ مجموعی تعداد کا22 فصد ہے، یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جماعت اسلامی ہند خواتین کو بااختیار بنانے ، انہیں مناسب نمائندگی دینے اور ان کے ساتھ عدل وقسط قائم کرنے میں پوری طرح سنجیدہ ہے ۔ یہ خواتین کے تئیں جماعت کی ایک اہم اور مثالی پیش رفت ہے ۔
ورنہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو ادارے، جماعتیں اور تنظیمیں خواتین کو مساوی حقوق دینے کا نعرہ با نگ دہل لگاتی ہیں ، وہاں بھی خواتین کے ساتھ عدل وقسط کا معاملہ نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں مناسب نمائندگی دی جاتی ہے۔
ہمارے سامنے ملک کی پارلیمنٹ کی مثال موجود ہے جہاں لوگ بھا اور راجیہ سبھا کوملا کر ارکان کی مجموعی تعداد 868 ہے۔ ان میں مردوں کی تعداد 766 ہے جبکہ خواتین کی تعداد محض 102 ہے جو مجموعی تعداد کا صرف 13 فیصد ہے۔لوک سبھا میں جملہ ارکان کی تعداد 620ہے۔ ان میں مردوں کی تعداد 542 اور خواتین کی تعداد 78ہے۔ یہاں خواتین کا تناسب محض 14 فیصد ہے۔ اسی طرح راجیہ سبھا کے لئے 248 ارکان ہوتے ہیں۔ یہاں مردوں کی تعداد 224 اور خواتین کی تعداد 24 ہے۔
یہاں خواتین کا تناسب 10.7 فیصد ہے۔ خواتین کو آبادی کے مطابق حقوق دیئے جانے کے وعدے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کسی بھی ادارے یا تنظیموں میں اس کا نمونہ نظر نہیں آتا۔ اس طرح دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ہند واحد ایسی تنظیم ہے جس میں خواتین کو فیصلہ ساز باڈی میں متناسب نمائندگی دے کر انہیں نمایاں مقام ومرتبہ دیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی ہند ملک کی ایک منظم اور دستوری جماعت ہے۔ اس کے قومی امیر سے لے کر مقامی امیر کا انتخاب ایک منظم اور غیر جانبدارانہ اصولوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جماعت کی میقات چارسالہ ہوتی ہے۔ ہر چار سال میں ایک مرتبہ ذمہ داران کے انتخابات و تقررات عمل میں آتے ہیں۔ آئندہ میقات یکم اپریل 2023ا مارچ 2027 کے لئے انتخابات کا سلسلہ جاری ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے تمام ارکان ابتدا میں مجلس نمائندگان کا انتخاب کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں غیر علاقائی بنیاد پر مجلس نمائندگان کے ارکان کا انتخاب کیا جاتا ہے اور دوسرے مرحلہ میں علاقائی یعنی ریاستی سطح پر نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ آئندہ میقات کے لئے 100 ارکان پر ایک نمائندہ منتخب کرنا تھا۔ پورے ملک سے 162ارکان مجلس نمائندگان کا انتخاب کیا گیا جن میں 126ردارکان اور36 خواتین ہیں۔ مجلس نمائندگان وہ اہم باڈی ہے جس کو امیر جماعت کا انتخاب ، مرکزی مجلس شوری کا انتخاب اور جماعت کے دستور میں ترمیمات کا حق حاصل ہے۔ اس فیصلہ ساز باڈی میں جن خواتین کو شامل کیا گیا ہے، ان میں ڈاکٹرس، پروفیسرس، لیکچرارس، پرنسپلس وغیرہ شامل ہیں ۔
اس انتخاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی کے لئے بھی انتخابی مہم چلانے (Campaigning) یالابنگ (lobbying ) کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ اس نا پسندیدہ عمل میں ملوث ہے تو یہ اس کے خلاف جاتا ہے۔ کیونکہ جماعت میں ذمہ داری تفویض کرنے کے لئے پہلا معیار یہی ہے کہ وہ شخص منصب کی خواہش نہ رکھتا ہو اور نہ ہی کسی ذمہ داری کی تمنا اس کے دل میں پنپ رہی ہو۔
اپریل ۲۰۲۳
زمرہ : حقائق مع اعداد و شمار
Comments From Facebook
اپریل ۲۰۲۳
0 Comments