مستدرک میں حاکم نے لکھا ہے ایک موقع پر سید العرب والعجم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرض زمین میں خدا کا پھندا ہے ۔ جب وہ کسی کو ذلیل و خوار کرنا چاہتا ہے تو قرض کا پھندا اس کی گردن میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے مراد وہ قرض ہے جو جھوٹی شان و شوکت کے لئے لیا جائے یا غیر ضروری کاموں کے لئے مانگنے والا ہاتھ دینے والے ہاتھ سے ہمیشہ نیچے رہے گا ۔ چاہے کوئی صورت ہو۔ اس بات سے انسان کی خود داری اور عزت نفس کو دھکا پہونچتا ہے۔موجودہ زمانے میں ہم ہر فرد کو کریڈٹ کارڈ پر اشیاء خریدتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ہر چھوٹی بڑی چیز کریڈٹ کارڈ سے خریدنے کا رواج اتنا عام ہوگیا ہے کہ گھر کریڈٹ لون ، سے لے کر موبائیل ، ٹی وی ، فریج ، بائک ،کار اوردیگر ہوم اپلائنسز سے لے کر کار کے ٹائر بھی کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ لیے جارہے ہیں۔یہ کریڈٹ کارڈ ہے کیا چیز؟ اسے سمجھتے ہیں کہ کیا یہ قرض نہیں ہے ؟
وارن بفٹ 2007 ءکے دنیا کے امیر ترین شخص تھے۔ ان کا شمار دنیا کے اسٹاک مارکٹ ایکسپرٹ میں ہوتا تھا ۔مشہور مالیاتی جریدے نے 2007ءمیں بفٹ کے اثاثوں کی مالیت 62 ارب ڈالر بتائی تھی۔ ان کی شخصیت میڈیا میں اس وقت زیر بحث آئی جب 2008 ءمیں بفٹ نے اپنی تقریبا ًتمام جائداد خیراتی اداروں میں وقف کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی سادہ ترین زندگی پرماضی قریب میں بہت کچھ لکھا گیا ۔ایک ٹی وی انٹرویو بہت مشہور ہوا۔ اس انٹرویو میں بفٹ سے سوال کیا گیا تھا کہ آپ نوجوانوں کو کیا پیغام دینا پسند کریں گے ۔بفٹ کا جواب تھا کہ کریڈٹ کارڈ خوشحالی کا ذریعہ نہیں تباہی کا ذریعہ ہے ،اس لیے نوجونواں کو کریڈٹ کارڈ سے دور رہنا چاہیے ۔تجارتی سرمایہ کاری سے زیادہ نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنی ذات کی تعمیر پر خرچ کریں۔ نیویارک ٹائمز میں بھی شکاگو کے ایک شخص کا قصہ نقل کیا گیا ،جس میں بتایاگیا کہ ایک شخص نے اپنے گھر کی مرمت کے لیے بارہ ہزار ڈالر قرض لون لیا، آٹھ برسوں میں تواتر سے ادا کی گئی اقساط کے ذریعہ وہ تیرہ ہزار ڈالر ادا کرنے کے بعد بھی اس کے آٹھ ہزارصرف ڈالر ہی ادا ہوپائے تھے ۔فی صد کے لحاظ سے لون میں چار گنا دکھنے والا سودچھ گنا کردیا جاتا ہے ۔درحقیقت قرض اور سود،دونوں ہی چیزیں سارے خاندان کوتباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔
(1) خواہشات اور تعیشات کاحرص خواتین کومجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے مطالبہ کریں ۔مطالبات کی نوعیت کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ گھر کے تعیشات کے سامان ،جیسے: ریفریجریٹر ، واشنگ مشین ، یا گھر کی تعمیر ، یا شادی بیاہ ، موبائل ، یا عید بقر عید پر اخراجات؛ ان سب کے لیے بینک کریڈٹ کارڈ یا مختلف بینک اور کمپنیوں کے کریڈٹ کارڈزاستعمال کیےجاتے ہیں ،اور اس کی اقساط اپنی تنخواہ سے کٹوائی جاتی ہیں۔ یہ سودی نظام کو تقویت دینا ہے اور وقتی خوشی کا فریب ہے ۔جو چیز آپ نے خریدی ہے اس کے پیسے ادا کرتے ہوئے شوہر حضرات بیزار ہوجاتے ہیں ۔تنخواہ کی اصل خوشی محسوس ہی نہیں ہوتی،نفسیات پر کاری ضرب لگتی ہے جب آٹو میٹک تنخواہ کٹ جاتی ہے۔ یہ بیزاری گھر میں فیملی ممبرز کے ساتھ جھنجلاہٹ کا سبب بنتی ہے ۔
(2) یہ قرض ہی ہے۔ بس نوعیت یہ ہے کہ آپ کا قرض خواہ اسمارٹ طریقے سے آپ سے پیسے نکال لیتا ہے، دروازے پر چکر نہیں کاٹتا۔ اس لیے لوگ کسی مسلمان سے بلاسودی قرض کے بجائے بینک کےقرض کو عافیت سمجھتے ہیں، تاہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک آسودہ حال مسلمان سے وقت ضرورت لیا گیا قرض اللہ کی مدد سے ادا ہوجاتا ہے ۔
پچھلے دنوں ایران کے ایک شخص کی تصویر وائرل ہوئی کہ رمضان کی آمد پر اس شخص نے اپنی راشن کی دکان سے قرض پر غذائی اجناس لینے والے قرض داروں کا رجسٹر جلا دیا ۔یہ دراصل سبیل ہے ،اورایک صورت ہے اللہ کی جانب سےوقت ضرورت لیے گئے قرض سے نجات کی۔ قرض خواہ کے لیے قرض کی معافی اور قرض حسن کے بہتیرے احکام ہیں ۔
(3) سودی قرض سراسر عذاب ہے۔ ایک شخص کے گلے میں قرض کا پھندا لگ جائے ،تو وہ کئی سال تک، کئی سال سے مراد بیس پچیس سال اپنے بنیادی اخراجات پورے نہیں کرپاتاہے۔جیسےبچوں کی فیس ، تعلیمی اخراجات،درمیان میں کوئی بیمار ہو جائے تو اس کے اخراجات ۔
(4) قرض لینا ناگزیر ہوتو بہتر صورت بلاسودی قرض کے اداروں تک رسائی حاصل کرنا، اور حتی المقدور کوشش ہوکہ بلاسودی قرض لیا جائے ۔
(5) قرض سے بچنے کی بہترین صورت خواتین کے پس انداز کرنے یا جمع کرنے کا مزاج ہے۔ پرانے وقتوں میں دوراندیش خواتین برے وقتوں کے لیے پیسہ جمع کرتی تھیں، اور برے وقت میں شوہر کی مدد کرکے ان کے دل میں جگہ بناتی تھیں۔یہ ایک پرانی قدر ہے، جو اب کہیں معدوم ہوچکی ہے ۔اب مائیں پیسے جمع کرتی ہیں، لیکن بچوں کی فضول اور بلاضرورت شاپنگ کی نذر کردیا کرتی ہیں ۔بچوں کو بھی صبر تحمل اور قناعت جیسی خوبیوں سے محروم رکھتی ہیں ۔قرض مجبوری کے سوا کسی اور صورت میں لینے کا حکم نہیں۔ آسائشوں کے لیےیا برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے قرض لےکر شادی بیاہ میں شان و شوکت دکھانا، اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے، اس طرح کے بے کار کاموں کے لیے قرض لینے سے منع کیا گیا ہے۔
(6)عید کا موقع ہے۔ اس موقع پر بھی خواتین کے مطالبات کی فہرست طویل ہوتی ہے ۔کپڑوں کے ساتھ گھر کے ڈیکوریشن کے لیے صارفیت کا مزاج ہے کہ ہر چیز تبدیل کی جائے،اورپھر آسان حل کریڈٹ کارڈ نظر آتا ہے، جبکہ یہ عمل سودی نظام کو تقویت بھی دیتاہے اور اس سےخاندان کے سکون کی تباہی بھی ہے۔
قرض کے اچھے کپڑوں اور اچھے کھانوں کی نسبت عزت کی زندگی اور سوکھی روٹی ہرطرح اچھی ہے ۔ جو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلاتے وہ قرض کے جال میں، ایسے پھنستے ہیں کہ مرکر بھی نہیں چھوٹتے۔ جو قرض ادا نہ کرسکے، قیامت تک اس کی جان نہیں چھوٹتی، جب تک اس کے وارثین قرض ادا نہیں کرتے ۔جولوگ مجبوری میں قرض لیتے ہیں، واجبی حد تک اللہ ان کے قرض کی ادائیگی کی سبیل پیدا کر تاہے ۔ حکم ہے کہ ایسے ضرورت مند قرض داروں سے برا سلوک روا نہ رکھو، ان کا دل نہ دکھاؤ، قرض واپسی کے لیے ان کو ذلیل نہ کر و۔
حضرت ابی بن کعبؓ نے جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سناتو تڑپ کر رہ گئے۔ اپنے قرض دار سے کہاکہ ایک ہزار درہم میں اللہ کے لیےمعاف کر تا ہوں، ایک ہزار درہم رسول اللہ کے لیے اورایک ہزار درہم تیری خوشی کے لیے۔
مقروض ہونے کی کچھ وجوہات ہیں، ان میں سب سے پہلی وجہ اپنی استعداد سے زیادہ خرچ کرنے کی عادت بھی ہے۔ شاپنگ اب ایک سنڈروم کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اب اس دور میں خواتین مختلف النوع اشیاء کی خرید اری کوکسی حد تک اپنا ڈپریشن کم کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں ۔ایک طرح کا ذہنی دباؤ اور سکون کی تلاش کی کوشش ہے ۔شاپنگ کرنے کی عادت وقتی طور پر انسان کو سکون کا باعث لگتی ہے ،تاہم کچھ دیر بعد احساس ہوتا ہے کہ دیگر ضرورتوں کی تکمیل ابھی باقی ہے، اور ہم غیر ضروری شاپنگ میں پیسے خرچ کرچکے ہیں ۔اپنی ضرورت کے مطابق پیسہ خرچ کرنا ، کچھ پیسہ برے وقتوں کے لیے پس انداز کرنا، تاکہ قرض کی نوبت نہ آئے۔ یہ پہلے ہمارے معاشرے کی بنیادی قدر تھی، جدیدیت کے سیلاب نے ہر انسان کو پیسے کمانے اور بے دریغ خرچ کرنے کی مشین بنادیا ہے۔ ضرورتوں کی تکمیل سے زیادہ انسان دکھاوے پر پیسے خرچ کرنے لگا ہے۔
اس تحریر میں خواتین مخاطَب ہیں کہ وہ اپنے گھرکے نظام میں اخراجات کو راہِ اعتدال پر لاسکتی ہیں ۔ غیر ضروری شاپنگ سے بچا کر کچھ پیسہ پس اندازکرسکتی ہیں ۔اس سے ان کے بچوں میں بھی یہ صفت پیدا ہوگی اور وہ قناعت پسند،صابر و شاکر ہوں گے، ان میں ایڈجسٹمنٹ کی صلاحیت پیدا ہوگی ،سچی خوشی سے وہ آشنا ہوں گے ۔
قرض پر ضرورت کا پورا کرنا، جھوٹی اوروقتی خوشی تو دیتا ہے، تاہم دماغی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے، زندگی کا حقیقی سکون غارت ہوجاتا ہے اور انسان اپنے اطراف کے لوگوں کو بھی خود غرض بنادیتا ہے، جیسے :مقروض شوہر قرض کی ادائیگی کی فکر میں غلطاںراتوں کوتنہا جاگتا رہتاہے اور اہل خانہ اپنی ضرورتیں پوری ہوتے ہی اس سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ،جو رشتوں میں دراڑ کا سبب بنتا ہے۔اس لیے قناعت پسندی کی پہل خواتین کی جانب سے ہوتو چشم ما روشن دل ما شاد!
اس لیے جتنی بساط ہو، اتنا خرچ کیا جائے ،اور روزانہ ملاقات میں کسی کے گھر ڈیکوریشن اور لباس پر تبصرہ نہ کیا جائے، کیونکہ ہمارے تبصرے بھی دوسروںکے قرض لینے کا محرک بن جاتے ہیں ،بلکہ خواتین کوچاہیے کہ مادی اشیاءپر رشک اور توجہ سے بھی خود کو بچائیں، کیونکہ ایسا رشک وسائل پر شکر گزاری کےجذبے کو متاثر کرتا ہے۔
٭٭٭
اپنے موضوع پر بہت ہی عمدہ تحریر اور اداریہ،
آج کل قرض ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے خصوصاشادی بیاہ اور تقریبات کے مواقع پر جھوٹی شان وشوکت کے اظہار کے لئے سودی قرض لئے جاتے ہیں ۔اس میں خواتین کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ھادیہ میگزین اہم سماجی اشوز کو زیر بحث لاکر وقت کی بڑی ضرورت کوپورا کررہا ہے۔
بارک اللہ فی ھذا
Bht umda tahreer aaj mashre ko is tarha ki khwateen darkar hai jo aitedaal ki raah pe chal kr israaf se bache air bachat krke apne shohar ki madad krke use Riba ke gadhe se bachale.Haadiya magazine social burning issue per bahas kr ke aurton ki hasla afzai krti hai.
BarakAllahu fi haza.