مارچ ۲۰۲۳

گذشتہ دنوں ایک تحریر نظر سے گزری ،جس میں ایک سترہ سالہ امریکی لڑکی لوگن لین نے یہ بتایا کہ وہ دسویں کلاس کی طالبہ ہے۔ اس نے تقریباً چھ سال پہلے اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کیا تھا ، لوگن لین کا کہنا ہے کہ اس خوبصورت دنیا نے اسے اس طرح جکڑ لیا کہ وہ زندگی کے ہر لمحے میں شامل ہو گیا۔روزانہ دس سے بارہ پوسٹ سوشل میڈیا پہ شیئر کرتی اپنے فالورز کے ری ایکشنز اور کمنٹس کو انجوائے کرتی ،وہ اس عادت کی اس حد تک اسیر ہو چکی تھی کہ اس کی صبح کا آغاز بھی فون کے ساتھ ہوتا اور سوتے وقت بھی فون اس کے ساتھ ہوتا۔ وہ سارا سارا دن دوستوں سے چیٹنگ، نیٹ سرفنگ اورویڈیواسکرولنگ میں گزار دیتی۔
اس کی وجہ سے اس کی پڑھائی اور جسمانی سرگرمیاں محدود ہوتی چلی گئیں۔یہاں تک کہ ایک دن اسے یہ پیغام موصول ہوا کہ اس کا سوشل میڈیا پہ گزرنے والا دورانیہ چھ سے ساتھ گھنٹوں پہ محیط ہوتا ہے، جب اس نے یہ حساب لگانے کی کوشش کی کہ یہ دورانیہ کن آن لائن سرگرمیوں میں خرچ ہوتا ہے، تو وہ اس کا حساب نہیں لگا سکی، کیونکہ اسمارٹ فون کے گلیمر میں کھو کر گھنٹوں اس طرح گزر جاتے گویا چند لمحے ہی گزرے ہوں۔
لوگن لین نے اس پہ غور و فکر کیا۔ اس کے بعد اس نے اسکرین ڈٹاکسیشن کا فیصلہ کیا اور اس دوران اسے احساس ہوا کہ سوشل میڈیا کا سحر کس طرح اسے جکڑے ہوئے تھا۔ یہ عارضی خوشی ایک عارضہ میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی، اس سے ملنے والی عارضی خوشیوں کے منفی اثرات اس کی ذات پہ مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے، اس کے بعد اس نے نہ صرف اسمارٹ فون سے دوری اختیار کی بلکہ اپنے اندر کی صلاحیت کو پہچانا اور اسے پروان بھی بڑھایا، اس وقت وہ اسمارٹ فون سے دور ی اختیار کر کے لڈائٹ نامی کلب کے ذریعے اپنے ہم عمر لوگوں کو فون کے نشے سے آزاد ہونے میں مدد کررہی ہیں۔ لڈائٹ کا مطلب ٹکنالوجی سے دوری۔ اس کلب میں اب بہت سارے لوگ شامل ہو رہے ہیں، وہ کتابوں اور اپنے پسندیدہ مشغلوں سے دوستی کر رہے ہیں،اسمارٹ فون کا استعمال بند کر کے فیچر فون استعمال کر رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں لوگن لین کی طرح ہر دوسرا فرد موبائل کی گرفت میں جکڑا ہوا ہے اور المیہ یہ ہے کہ انھیں احساس بھی نہیں کہ وہ کس تباہی کی طرف جا رہے ہیں، لیکن وہ لوگن لین کی طرح اس سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرنا تو درکنار،اس کو چھوڑنے کا تصور بھی کرنے کو تیار نہیں۔
اس وقت نوجوان نسل پہ سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، بےشک اسمارٹ فون وقت کی ایسی ضرورت بن چکا ہے کہ ہر شخص کی زندگی کا یہ لازمی جز بن بنتا جا رہا ہے، بےشک اس کی دنیا خوبصورت تو خوبصورت ہے ہی ،اسے زندگی کی روزمرہ کی بنیادی ضروریات سے بھی جوڑ دیا گیا ہے، اور اس قدر ضروری ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اس کے منفی اثرات کی طرف کم ہی جاتی ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت احتیاطی تدابیر کرنے سے قاصر ہوتی ہے ۔
چونکہ اس کی وسعت کائنات کی طرح وسیع و عریض ہے اور تنوع کی بہتات ہے ،اس لیے ہر کسی کو اپنے پسند کا مواد بآسانی مل جاتا ہے، جس میں کسی طرح کی جسمانی مشقت بھی نہیں اٹھانی پڑتی۔ اس آسانی نے انسان کے لیےایسی پریشانی کھڑی کر دی ہے، جس کی سنگینی کا احساس ابھی سے ہونا شروع ہو گیا ہے، آنے والے وقت میں یہ صورت حال انسانی تہذیب کا سب سے بڑا المیہ بھی بن سکتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف وقت کا زیاں ہوتا ہے بلکہ جسمانی و نفسیاتی عوارض کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔
نوجوان نسل بہت تیزی کے ساتھ اسمارٹ فون سے متاثر ہو رہی ہے،نوجوان ہر معاشرے کا سب سے اہم رکن ہوتے ہیں، اگر وہی خستہ وہ شکستہ ہو گئے تو معاشرے کی زبوں حالی تو یقینی ہے۔ جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا کہ اس کائنات میں کچھ بھی اچھا یا برا نہیں ،یہ ہمارے استعمال کرنے کا طریقہ ہے جو اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اسمارٹ فون کے ساتھ بھی بالکل یہی معاملہ ہے ۔
یہ اپنے آپ میں دور جدید کی ایک بڑی نعمت ہے،اس کے ذریعے امکانات کے بےشمار در وا ہو گئے ہیں۔ اس سے بےحساب تعمیری کام بھی لیےجاتے ہیں، تعلقات کو نبھانا آسان ہو گیا ہے، معلومات کی ترسیل میں برق کی سی رفتار پیدا ہو گئی ہے، اس کی وجہ سے بےشمار ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے ،جو وسائل کی کمی کی وجہ سے محرومی کی اذیت سے گزر رہے تھے، اسمارٹ فون نے ایک ایسا انقلاب برپا کیا، جس کا پچھلی صدی میں عمومی سطح پہ تصور کرنا بھی محال تھا، اسمارٹ فون کی وجہ سے لوگ دنیا کو اپنی مٹھی میں سمجھ رہے ہیں، وہ کہیں بھی رہتے ہوئے اپنے آپ کو گلوبل پلیٹ فارم سے جوڑ سکتے ہیں، اس کے ذریعے ہر انسان اپنے نظریات و خیالات کو بآسانی دوسروں تک پہنچا سکتا ہے، دوسروں کے تعاون کے بغیر بھی فقط اس کے ذریعے وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ بےشمار ایسے فوائد ہیں جس کی تفصیل یہاں بتانا ممکن نہیں، لیکن اگر ہم غور کریں تو بآسانی اسے سمجھ سکتے ہیں۔

 ایسے میں یہ صورت حال واقعی کسی المیہ سے کم نہیں کہ یہی اسمارٹ فون ہماری نوجوان نسل کا مستقبل تباہ کر رہا ہے ،ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ اس تباہی کا آغاز کہاں سے ہو رہا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا غیر معتدل رویہ ہے جو کہ بے شعوری کا نتیجہ ہے، ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے، جو اپنی زندگی کے لیےکوئی واضح ہدف نہیں رکھتے۔ اگر کچھ لوگ رکھتے بھی ہیں تو وہ اس قدر مبہم ہوتا ہے کہ ذرا سی حالات کی تیز و تند ہوا سے بکھر جاتا ہے، وہ لوگ اسے قسمت کا نام دے کر ساری زندگی خود کو مظلوم ثابت کرتے رہتے ہیں، وہ لوگ انتہائی قلیل تعداد میں ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کے لیے ایک واضح ہدف رکھتے ہیں۔
اس کے حصول کی جدو جہد کرتے ہیں،اس تگ و دو میں وہ اپنے وقت کو منظم انداز میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں ،وہ ہر طرح کے وسائل سے اپنے مقصد کی فراہمی کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے اسمارٹ فون کے ساتھ ساتھ دیگر سارے ذرائع ان کی صلاحیتوں کو مہمیز دینے میں معاون ہوتے ہیں، اس کی روشنی میں یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ اسمارٹ فون بذات خود برا نہیں ہے ،بلکہ ہماری بے اعتدالیوں نے اسے ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔
اسمارٹ فون کو اب واپس معدوم تو نہیں کیا جا سکتا، ہاں ہم اپنے طریقۂ استعمال میں بہتری لا کر اس کے منفی نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ اسمارٹ فون سے پیدا ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے مقصد حیات کا تعین سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ وقت کی تنظیم کرنا بھی لازمی ہوگا، اور شعوری طور پہ اپنی سرگرمیوں کا جائزہ بھی لیتے رہنا ہوگا ۔مشکل اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب ہم اپنا ریموٹ کنٹرول ان بےجان چیزوں کو سونپ دیتے ہیں، اس کی وجہ سے انسان کو بروقت احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ کس سمت نکل کھڑا ہوا ہے، اسی رویے کی وجہ سے ہم میں سے بیشتر لوگ اسمارٹ فون کے نشے کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نشہ روایتی نشوں کی طرح ہی شدید ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ذہنی و جسمانی صحت اور زندگی کا سکون سب ہی متاثر ہونے لگتے ہیں۔
اس موضوع پہ بات کرتے ہوئے ذہن میں ایک سوال یہ آتا ہے کہ آخر سوشل میڈیا ہمارے لیے اتنا ضروری سا کیوں ہو گیا ہے، اس کے جواب میں میں یہی کہوں گی کہ اس سے ہماری جبلت کو تسکین ملتی ہے، جیسا کہ ہم عرف عام میں کہتے ہیں کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے، یہ معاشرتی نظام اسی نفسیات کی تسکین کے لیے وجود میں آیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا ایک ڈیجیٹل معاشرہ ہی تو ہے ،جس میں ہم لوگوں سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں، پہلے عام انسان کالونیوں، شہروں اور اداروں سے جڑے لوگوں سے تعلقات کو بنانےا ور سنوارنے میں لگا رہتا تھا ،اب وہی تعلق ماڈرنائز ہو کے ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہو گیا ہے۔ فطرت میں ترغیب اور بیرونی دنیا کی آسانیوں نے اس کو اس انتہا پہ پہنچا دیا ہے کہ انسانی تعلق کے لیےلازمی توازن ختم ہوتا جا رہاہے۔
لوگ آس پاس کے رشتے سے بے خبر خیالی دنیا کے رشتوں کے ساتھ جینے کی ناکام جدو جہد کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں! جو رشتے آپ کی حقیقی زندگی سے جڑے ہیں ،ان کو نظر انداز کر کے آپ کبھی بھی سکون نہیں حاصل کر سکتے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بننے والے تعلقات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو زندگی کو گھسے پٹے نظریات و خیالات کے ساتھ گزارنے پر بضد ہیں، وہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے تحت اس میں تبدیلی کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ،اس کی وجہ سے ان کے حقیقی تعلقات ہمہ وقت اختلافات کی زد میں ہوتے ہیں، وہ اس پرکام کرنے کے بجائے اس سے راہ فرار اختیار کر کے سوشل میڈیا کی خوبصورت دنیا میں نئے تعلق بنا کر اسے جینے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ انھیں نہیں معلوم کہ آپ جیسے بےشمار لوگ اس ڈیجیٹل دنیا میں موجود ہیں، جو حقیقی زندگی سے فرار حاصل کر کے اس مصنوعی دنیا میں اپنے آپ کو پرفیکٹ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ کھوکھلے لوگ جو کہ خود ناخوش ہیں، وہ بھلا آپ کو کیسے سکون اور خوشی دے سکتے ہیں، یہ تو فقط ایک فریب ہے جس کو وہ بخوشی کھانا پسند کرتے ہیں، وہ خود کو دھوکہ دے کر سکون حاصل کرنے کی جدو جہد میں بھی اسمارٹ فون کے نشے میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ بےشک اس ڈیجیٹل ورلڈ میں بےشمار اچھے لوگ موجود ہیں، لیکن مسائل اگر آپ کے اندر ہوں گے تو باہر کے اچھے لوگ بھی کوئی مدد نہیں کر سکتے ،وہ آپ کی مدد اسی وقت کر سکتے ہیں، جب آپ خود پرکام کرنے کو تیار ہوں گے، لیکن لوگ اس حقیقت کو قبول نہ کر کے سوشل میڈیا پہ گزرنے والے دورانیے کو بڑھا کر سکون حاصل کرنے کی جدو جہد کرنے لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا نفسیاتی و جسمانی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
امریکن جنرل آف ایپی ڈیمیالوجی کی ایک تحقیق میں پانچ ہزار دو سو آٹھ ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو فیس بک متواتر استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ فیس بک کا مسلسل استعمال انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔اسمارٹ فون کے نشے کا شکار ہونے کی دوسری بڑی وجہ وہ نفسیات ہے جس کو Attention seeking کہا جاتا ہے، بےشک ہم میں سے ہر کسی کو توجہ چاہیے اور ملنے پہ خوشی کا احساس ہونا بھی فطری ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس توجہ کو پانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں، سوشل میڈیا پہ لوگ اپنی پوسٹ، تصویریں اور خیالات شیئر کرتے ہیں ؛اس پر ملنے والے لائکس ا ور کمنٹس پہ خوش ہوتے ہیں۔ ہونا بھی چاہیے، لیکن ہم میں سے اکثر لوگ یہ تسلیم کرنے کو روادار نہیں کہ یہ ایک تفریحی خوشی کا عارضی ذریعہ ہے، جس کو مستقل نہیں کیا جا سکتا۔
اگر وہ کہیں بھی گھومنے جاتے ہیں ،خوبصورت مناظر کو دیکھتے ہیں تو اس سے لطف اندوز ہونے کے بجائے سیلفی ہی لینے میں مصروف ہو جاتے ہیں، محض اس لیے کہ وہ اپنے ڈیجیٹل دوستوں کو بتا سکیں کہ اس وقت وہ کہاں ہیں۔کمنٹس اور لائکس کی صورت میں ان کی توجہ سمیٹ سکیں۔
ڈاکٹر بونو کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی تمام تر توجہ اپنے سوشل میڈیا فالورز سے تعریف حاصل کرنے کے لیے اچھی تصویر بنانے پر مرکوز رکھیں گے تو ہم اس وقت میں اس جگہ کی حقیقی خوبصورتی سے لطف نہیں اٹھا سکیں گے۔ اپنے فون پر زیادہ وقت گزارنا ہماری توجہ تقسیم کرنے کا باعث بنے گا، اور ان لمحات سے ملنے والی خوشی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کرنے دے گا۔یہی وجہ ہے کہ وہ گھوم پھر کر خوش ہونے کے بجائے کبھی کبھی حسب توقع توجہ نہ ملنے کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے اندر ہارمونل عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے جو ان کے خوش ہونے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، اور لوگ اس کا سبب تلاش کر کے تدارک کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے استعمال کرنے کے دورانیے کو بڑھا کر سکون حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اس وجہ سے بھی اکثر لوگ اسمارٹ فون کے نشے میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کی رپورٹ کے مطابق اسمارٹ فون کا نشہ لگ جانے کے بعد نوجوان اس پر کنٹرول نہیں کر سکتے کہ انہیں فون پر کتنا وقت صرف کرنا چاہیے اور وہ زیادہ تر اس کی چھوٹی اسکرین میں غرق رہتے ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس طرح کی لت لگنے سے دماغی صحت کے لیے سنگین نوعیت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔رات گئے دیر تک فون استعمال کرنے کی وجہ سے نیند کا دورانیہ پورا نہیں ہوتا، اس کی وجہ سے وہ اندرونی اضطراب اور بے سکونی کی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے بعد نفسیاتی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسمارٹ فونز کی لت پڑنے کے بعد نوجوانوں میں کم خوابی، ڈپریشن اور کئی دوسری طرح کے نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس سے ان کے رشتے، صحت اور مستقبل پہ بدترین منفی اثر پڑتا ہے۔
لندن کے کنگز کالج کے تحت ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نشے جیسے طرز عمل کا مطلب یہ ہے اگر ان لوگوں کو اسمارٹ فون استعمال کرنے سے روکا جائے تو وہ پریشان اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت وہ پوری طرح اس کے سحر میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں، انھیں زندہ رہنے کے لیے اسمارٹ فون کا ساتھ سب سے ضروری لگنے لگتا ہے۔
سائنسی جریدےبی ایم سی سائکیاٹری میں شائع ہونے والی ریسرچ اسمارٹ فونز کے استعمال کے بارےمیں 42000 نوجوانوں سے متعلق ہے ،جن سے 41 مطالعاتی جائزوں میں رابطے کرکے جوابات اکٹھے کیے گئے تھے۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق 23 فی صد نوجوانوں کا رویہ نشے کے دائرے میں آتا ہے، اور جب انہیں اسمارٹ فون نہیں ملتا تو ان پر پریشانی طاری ہو جاتی ہے اور ان کی ذہنی حالت اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اسمارٹ فون پر صرف کیے جانے والے وقت کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے رویے کو دوسرے مسائل سے جوڑا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ذہنی دباؤ، ڈپریشن، مزاج کی خرابی، نیند کا نہ آنا، اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں عدم دلچسپی اور تعلیمی پروگریس کا خراب ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
کنگز کالج لندن کے شعبۂ نفسیات اور رپورٹ کے ایک مصنف نکولا کالک کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فونز ہمارے پاس رہیں گے، اس لیے اس کے بے دریغ استعمال سے جنم لینے والے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان پر قابو پایا جا سکے۔ڈاکٹرکالک کا کہنا تھا کہ فی الحال ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مسئلہ اسمارٹ فون میں ہے یا اس میں استعمال کیے جانے والے اپیس کا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چاہے اسمارٹ فون ہو یا اس کی اپیلی کیشنز؛ بات ایک ہی ہے اور والدین کو یہ جانے کی ضرورت ہے کہ ان کے نوعمر بچے اپنا کتنا وقت اسمارٹ فون پر صرف کرتے ہیں۔
ریسرچ کے شریک مصنف سمنتھا سون نے والدین کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسمارٹ فون کے مسلسل طویل وقت تک استعمال سے دماغی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں، جس سے ان کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہو سکتے ہیں۔اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کس طرح اس کے دام سے آزاد ہوں ،اگر وقت رہتے ہم نے تدارک کے لیےمناسب حکمت عملی نہیں اپنائی تو اس کی سنگینی بھی بڑھتی جائے گی ۔
اسمارٹ فون کی قید سے آزاد ہونے کے لیےاس وقت ہمیں اپنی سرگرمیوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، خاص طور سے اسمارٹ فون کے حوالے سے اپنے رویے کو سمجھنا ضروری ہو چکا ہے۔ لوگن لین کی طرح ہمیں آج سے ہی اس پہ کام کرنا ہوگا، سب سے پہلے ہمیں اسمارٹ فون سے جڑے ضروری کاموں کی فہرست بنانی ہوگی اور اس کے لیےوقت بھی مخصوص کرنا ہوگا۔ شروع میں تو تھوڑی بہت بے اعتدالی کے امکانات موجود ہوں گے، لیکن ہمیں سختی سے اس پہ قائم رہنے کی کوشش کرنی ہوگی۔اسمارٹ فون سے بچنے والے وقت کو صحیح جگہ پہ خرچ کرنا ہو گا جیسے اپنے شوق کو دریافت کر کے اس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرنا، کتابیں پڑھنا، لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا، اپنی پسند کے شعبے میں نئے تجربات کرنا؛ ہو سکتا ہے کہ آپ کا شوق ایسا ہو جس کے لیے اسمارٹ فون کی ضرورت آپ کو پڑے تو ایسے میں فوکسڈ ہو کے اپنا کام کرنا ہوگا۔ مطلب اس طرح سے کام کرنا کہ جس کا کوئی نتیجہ بھی برآمد ہو، جو آپ کی حقیقی زندگی کے ارتقاء کا ذریعہ بن سکے ،کیونکہ اسمارٹ فون کا استعمال اس وقت زیادہ نقصان دہ ہو جاتا ہے جب بے مقصد ہو کر اس پہ وقت گزاری کی جائے، اس کی وجہ سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں، توانائی اور جذبات بھی غلط جگہ پہ صرف ہونے کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتے۔
اس کی وجہ سے تہی دامانی کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو انسان کو دکھ اور اذیت میں ڈال دیتا ہے، اس کی وجہ سے ڈپریشن اور پینک اٹیک جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ زندگی میں مقصدیت کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی اکثر لوگ اسمارٹ فون کے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ،اس لیے ضروری ہے کہ مقصد کی تعیین کی جائے۔ ایک ایسا مقصد جس سے آپ کے جذبات بھی وابستہ ہوں ،تاکہ آپ اسے بخوشی اپنی زندگی میں شامل کریں، اس پراپنا بہترین وقت خرچ کریں اور اس سے ملنے والی خوشیوں سے محظوظ ہو سکیں ۔
اس طرح اسمارٹ فون استعمال کرتے ہوئے اس کے منفی و مضر اثرات سے محفوظ رہیں گے، اسمارٹ فون کے بےشمار فائدوں سے مستفید ہو سکیں گے، ہم بدلتے وقت کی تبدیلیوں سے منہ نہیں موڑ سکتے، اس لیے ضروری ہے کہ ان تبدیلیوں کو مثبت انداز میں اختیار کرنے کا سلیقہ سیکھا جائے، اپنی زندگی کی سرگرمیوں کو خود کنٹرول کیا جائے ،نا کہ انھیں ریمورٹ کنٹرول سونپ دیا جائے۔
نوجوان نسل کو اسمارٹ فون استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔یہ ذمہ داری والدین پہ بھی عائد ہوتی ہے۔ بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے انھیں اصولوں سے متعارف کروانے کی کوشش کی جائے۔ نوجوانوں کو بھی لوگن لین کی طرح اپنی زندگی کو از سر نو مرتب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳