مارچ ۲۰۲۳

عربی زبان میں رمضان کا مادہ’’ رمض ‘‘ہے ، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے۔ رمضان میں چونکہ روزہ دار بھوک و پیاس کی حدت اور شدت محسوس کرتا ہے ،اس لیے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔(ابن منظور، لسان العرب، 7 : 162)
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں :
رمضان’’ رمضاء‘‘ سے مشتق ہے ،اس کا معنی سخت گرم زمین ہے، لہٰذا رمضان کا معنی سخت گرم ہوا ہے۔ رمضان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کیے تو انہیں ان اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا جن میں وہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا ،اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔
(ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 4 : 229)
عربی مہینے میں رمضان المبارک نواں مہینہ ہے جو فضیلت کے اعتبار سے وہ شمع ہے جس پر پروانے ٹوٹے پڑتے ہوں۔ یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جو دستور حیات ’’ قرآن ‘‘کے نزول کا سبب بنا۔ ارشاد ہے :

شھر رمضان الذي أنزل فيه القرآن. هدى للناس و بينات من الهدى و الفرقان .

(رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ،جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں [پر مشتمل ہے۔])
یہ کتاب انسانی رہنما‎ئی کے لیے ایک گلشن حیات ہے جس کے رنگ برنگے سبزے انسان کے تمام روحانی امراض کا علاج پیش کرتے ہیں، اور اس کتاب کا آسمان دنیا پر نزول اسی مہینے میں ہوتا ہے، جو تمام عبادات کا مجموعہ ہے ،جہاں دن کی بھوک و پیاس برداشت کرنے کی ریاضت ہے تو قیام لیل کے ذریعے قرب الٰہی کے حصول کی مشق ہے۔ جس میں صدقۂ فطر اور صدقات و خیرات میں سبقت لے جانے کی ترغیب ہے، تو اعتکاف کے ذریعے انسانی روح کی سیرابی ہے۔
رمضان کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبئ رحمت ﷺ اس کے استقبال کے لیے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے تھے، وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اور رمضان المبارک کی آمد کی بےتابی آپ کی دیدنی ہوتی تھی، جس کا اظہار آپ کی اس دعا سے ہوتا ہے جس کا التزام آپ رجب کے مہینے سے ہی شروع کر دیتے تھے۔

 اللھم بارك لنا فى رجب و شعبان و بلغنا رمضان
(شعب الایمان للبيهقي کتاب الصیام)

صحابۂ کرامؓ چونکہ ایمان میں اگر ’’السابقون الاولون‘‘ تھے ،تو اعمال صالحہ کی ادائیگی میں بھی بے مثال تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیںاللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا و خوشنودی کی سند ان کی زندگی میں عطا کی گئی تھی۔ وہ ہر حکم نبی کو مشعل راہ کے طور پر لیتے اور اپنی عملی زندگی میں اسے نافذ کرتے، چنانچہ ان کے اسی عملی جذبے اور اعلیٰ معیار کی بنا پر نبیٔ اکرمﷺ نے انہیں ستاروں کی مانند قراردیا۔
صحابہ ٔکرام ؓکا یہ معمول تھا کہ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اپنے معمولات کو ترتیب دینے کے لیے اپنے اوقاتِ کار مرتب کرتے اور اپنا وقت ضائع ہونے نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ جب ہم صحابہؓ اور صحابیات کی رمضان المبارک میں مصروفیات وعبادات کو دیکھتے ہیں تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔

ماہ مبارک کا استقبال

جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ نبیٔ کریمﷺ کو تقریباً سارا سال اس ماہ مبارک کا بڑی شدت سے انتظار رہتا تھا اور جیسے جیسے وقت قریب ہوتا آپ ﷺ اس کے لیے دعا بھی شروع کر دیتےتھے ،اسی طرح کا معمول صحابہ کرامؓ کا بھی تھا۔ وہ بھی بڑی بے چینی سے اس ماہ مبارک کا انتظار کرتے تھے اور جب یہ قریب آتا تو خدا کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لیےخاص حکمت عملی ترتیب دیتے تھے۔
حضرت انس ؓشعبان میں صحابۂ کرام ؓکے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أَکَبُّوْا عَلَی الْمَصَاحِفِ فَقَرَؤُوْهَا، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أَمْوَالِهِمْ تقوِيَةً لِلضَّعِيْفِ وَالْمِسْکِيْنِ عَلَی صِيَامٍ وَ رَمَضَانَ.

(لطائف المعارف :ابن رجب حنبلی)

شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔

  غیر ضروری کاموں سے اجتناب

ابوذرؓ اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جب تم روزہ رکھو تو جتنا ہوسکے ،لایعنی باتوں سے محفوظ رہو۔ ‘‘اس روایت کے راوی طلیق جب روزے سے ہوتے تو اپنے گھر سے صرف نماز کے لیے نکلتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
عمر فاروقؓ نے فرمایا: ’’روزہ صرف کھانے پینے سے نہیں ہے، بلکہ روزہ جھوٹ، باطل اور لغو قسم کھانے سے بھی ہے۔‘‘

(مصنف ابن ابی شیبه، کتاب الصوم، باب مَا يُؤْمَرُ بِهِ الصَّائِمُ مِنْ قِلَّةِ الْكَلَامِ، وَتَوَقِّي الْكَذِبِ)

یوم الشک کے روزہ سے اجتناب

یوم الشک سے مراد شعبان کی 29 تاریخ ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ چاند کی خبر نہ ملنے پر محض یہ سوچ کر روزہ رکھنا کہ چاند ہوگیا تو ٹھیک ،ورنہ اس کو نفلی روزہ مان لیں گے اور متعدد احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے یوم الشک کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا، سیرت صحابہ کا مطالعہ یہ دریچے وا کرتا ہے کہ صحابۂ کرامؓ اس معاملے میں بہت محتاط تھے۔

چاند دیکھنے کا اہتمام

استقبال رمضان میں ایک خاص اہمیت رویت ہلال کی ہوتی ہے، اور رمضان المبارک کا آغاز اسی رویت سے ہی ہوتا ہے۔ سیرت صحابہؓ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ صحابہؓ کے درمیان بھی چاند دیکھنے کا بہت زیادہ ذوق و شوق پایا جاتا تھا اور وہ بہت اہتمام سے چاند دیکھا کرتے تھے۔ شعبان کی 29 تاریخ کوچاند دیکھنے کے لیے وہ آبادی سے باہر نکل جاتے اوراکٹھا ہوکر چاند دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جہاں کسی ایک آدمی نے چاند دیکھا وہ آواز لگا دیتا : ’’چاند دیکھا،چاند دیکھا!‘‘
اس طرح تمام لوگوں میں اس کا اعلان ہوجاتا تھا۔ روزہ شروع ہونے کے بعد جو قافلے دور دراز سے آیا کرتے تھے، صحابۂ کرامؓ ان سے بھی پوچھا کرتے تھے کہ آپ لوگوں نے چاند کس تاریخ کو دیکھا تھا؟ اورکب سے روزہ رکھنا شروع کیا ہے؟ بسا اوقات ان کی بتائی ہوئی تاریخ مدینہ کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی تو رسول اللہ ﷺ صحابہ ؓ کو ہدایت دیتے تھے کہ آپ لوگوں کا فلاں دن کاروزہ چھوٹ گیا ہے، بعد میں اس کی قضا کیجیے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرامؓ رمضان کے چاند کودیکھنے کا از حد اہتمام کرتے تھے۔
( ماخوذاز : رمضان المبارک اور معمولات صحابہ:ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، مضامین.کام ، 26 مئی ، 2018ء)

روزہ کے لیے صحابۂ کرامؓ کا شوق

 ایک حدیث ہے، اگرچہ وہ سند کے اعتبار سے کچھ ضعيف ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے رمضان کا روزہ بغیر کسی عذر کے چھوڑ دیا، وہ اگر پوری زندگی روزہ رکھے تب بھی اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ترمذی: 327)
اصحاب رسولؓ چونکہ آپ کی صحبت مطہرہ کے روحانی جام سے براہ راست سیراب ہوتے تھے، لہٰذا آپ کے ہر قول کو دلوں میں اتارتے اور عمل کی عطر بیز خوشبو سے سب سے پہلے مستفید ہوتے ۔چنانچہ سیرت کا مطالعہ یہ منکشف کرتا ہے کہ اس حدیث مبارک کا اثر صحابہ ٔکرامؓ کی زندگی میں اس طرح دیکھنے کو ملا کہ صحابۂ کرامؓ استقبال رمضان کے لیے غیر معمولی خوشی کا اظہار کرتے اور عہد صحابہ کی پوری تاریخ میں ایک صحابی کے بارے میں بھی یہ نہیں ملتا کہ اس کو کوئی عذر نہ رہا ہو، اس کے باوجود اس نے روزہ نہ رکھا ہو۔ صحابۂ کرامؓ روزہ کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے۔ اگر کبھی کسی وجہ سے سحری نہ کھا سکے تو بھی روزہ ترک نہیں کرتے تھے۔
لہٰذا سورۂ بقرہ کی آیت 187:’’ کلوا واشربوا…‘‘جس میں کہا گیا ہے کہ صبح صادق کے آخری لمحے تک آدمی کو کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اس کا پس منظر ایک محنت کش صحابی کا غیر معمولی واقعہ ہی ہے، جو یہود کے اثرات کی وجہ سے صحابہ میں در آیا تھا کہ اگروہ رات میں سو جاتے تھے تو پھر سحری نہیں کھاتے تھے۔ ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ محنت مزدوری کرتے تھے۔ رات میں وہ گھر آئے، پتہ چلا کہ گھر میں کچھ بھی کھانے کو نہیں ہے۔انہوں نے بیوی سے کہا کہ جاکر پڑوس سے کچھ کھانے کولے آؤ۔ بیوی گئیں ، لیکن وہ تھکے ہوئے تھے، ان کی آنکھ لگ گئی۔ چنانچہ انہوں نے رواج کے مطابق کھانا نہیں کھایا اور بغیر سحری کے روزہ رکھ لیا۔ اگلے دن پھر وہ صبح مزدوری کرنے چلے گئے۔ بھوکے تھے، تھکن بھی تھی، وہ بے ہوش ہوکر گرگئے۔پھرجب یہ آیت بطور اجازت نازل ہوئی تو صحابۂ کرامؓ کواس رخصت سے غیر معمولی خوشی ہوئی۔ اصلاً یہ ایک سختی تھی، جو یہودکے اثر سے آگئی تھی۔ اس آیت کے نزول سے صحابۂ کرام نے بہت راحت محسوس کی۔(سنن نسائي،كتاب الصيام، حد یث: 2170)
اسی طرح بعض صحابیاتؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اس قدر نفلی روزے رکھتی تھیں جس سے ان کے خاوندں کو تکلیف ہوتی تھی۔ جب ان کو روکا گیا تو ان کو سخت ناگوار گزرا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں شکایت کی،لیکن آپﷺ نے حکم دیا کہ کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی۔
(ابو داؤد، کتاب الصیام، باب المرأة هل تصوم بغیر اذن زوجها)
حضرت سعد بن ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت سعید بن المسیبؓ کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے۔
مذکورہ بالا احادیث سے صحابیات کا رمضان المبارک میں روزے کے شوق کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳