مارچ ۲۰۲۳

فکر و نظر والے جاندار سیشن کے اختتام پراسی سے متعلق ’’ہندتوا انتہا پسندی نظریاتی کشمکش اور مسلمان ‘‘ امیر جماعت کی اس چشم کشا کتاب کا کنوینر صاحب نے تعارف کرایا۔معلوم یہ ہوا کہ اس اجتماع ارکان میں اس کی متعددکاپیز فروخت ہوئیں۔

اس کے بعد 7 متوازی سیشنز تیار تھے۔سب سے اہم بات یہ کہ خواتین کو کسی بھی سیشن میں اپنی دلچسپی کے مطابق شرکت کی آزادی تھی۔ ہم نے’معمار جہاں تو ہے‘ خصوصاً برائے خواتین میں شرکت کو پسند کیا۔ ہر سیشن کی بریفنگ ، متعلقہ گروپ لیڈر نے پروگرام کے تیسرے دن پیش کی۔مغرب کےبعد موضوعاتی سیشن تھا۔اس میں جملہ چار تقاریر رہیں۔سب ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔

پہلی تقریر قیم جماعت محترم ٹی عارف علی نے’’ باطل قوتیں اور منصوبہ بند کوششیں‘‘ اس عنوان کے تحت پوری تاریخ پیش کی۔ ’’ آزمائشی حالات میں ہمارے اعتقادی نظام کا کردار ‘‘ جناب ضمیر قادری کی تھی۔دونوں تقاریر کا آپس میں مجھے خاص تعلق لگا۔پہلے مقرر نے حقیقت کو بے نقاب کیا، باطل کی منصوبہ بند سازشوں سے پردہ اٹھایا۔

ساتھ ہی دوسرے مقرر نے باطل سے نبردآزما ہونے کے لیے اعتقادی نظام کے مضبوط کردار کو بہت ہی پرسکون انداز میں پیش کیا۔آپ نے کہا :’’اللہ رب العزت پر جو ایمان رکھتا ہے ، وہ سب سے زیادہ بہادرا ور نڈر انسان ہوتا ہے۔‘‘طاقت کے بارے میں کہا:’’ ہمارا Imagination جہاں ختم ہوتا ہے وہیں سے اللہ کا Super power شروع ہوتا ہے۔‘‘مجھے مقرر کے تین نکات:(1)تزکیۂ علم و عمل(2)منصوبہ بندی(3)مضبوط قوت نافذہ؛ بہت اچھے لگے۔کوئی سونا اس وقت تک وقت تک کندن بن نہیں سکتاجب تک کہ بھٹی میں تپ کراس کا نکل جانا نہیں ہوتا۔

تیسری تقریر ’’تحریک اسلامی اور سو شل انگیجمینٹ‘‘کو نائب امیر جماعت محترم ایس امین الحسن نے پیش کیا۔محترم نے بتایا کہSocial engagement نئی اصطلاح ہے NGOs کی ینگر جنریشن کی۔جسے ہم سماجی مصروفیات بھی کہہ سکتے ہیں۔محترم نے فرمایا:’’ جو اپنے خول میں بند رہا کرتے تھے ،وہ جماعت سے وابستہ ہونے کے بعد بہت سوشل بن جاتے ہیں، یعنی سرگرم عمل Umbrella shapedجس کے سائےتلے بہت سےلوگ آتے ہیں۔‘‘مجھے محترم کا یہ جملہ بہت صحیح لگا۔واقعی جماعت سے وابستہ ہونے کے بعد اللہ کی خاطر تعلقات قائم ہوتے ہیں، دوستیاں بڑھتی ہیں۔حلقۂ احباب وسیع ہوتاہے۔مقرر چونکہ سائکولوجسٹ بھی ہیں، چنانچہ آپ نے بتایا کہ Social engagement کے نتیجے میں مینٹل ہیلتھ بھی بہتر ہوتی ہے۔اسلام کا مزاج ہے کہ وہ سماج کے لیے فرد کو تیار کرتا ہے۔ہمدردی ، فیاضی ، عطا کرنا ؛یہ نبیٔ کریمﷺ کا اسوہ ہے۔جب ہم دینے والے بنیںگے تو حالات بدلیں گے۔ حلف الفضول اس کی مثال ہے۔

آپ نے سوشل انگیجمنٹ کے تین Methods بتائے:

(1) فرد کو جماعت کے لیے نالیج اور Emotional support

Community engagement(2)
System engagement(3)

سوشل انگیجمینٹ کو آپ نے آرٹ کہا ۔اس کافائدہ جماعت سے وابستہ افراد کا Confidance بتایا۔بڑی شخصیات سے ملاقات اور گفتگو اپنا موقف بہتر انداز سے پیش کرنا بتایا۔اس کے خوشگوار اثرات کے تعلق سے شہر دہلی کی مثال پیش کی۔

A ship in harbor is safe but that is not what ships are build for.

(بندرگاہ میں جہاز محفوظ ہوتے ہیں، لیکن جہاز اس لیے نہیں بنائے جاتے۔)
مجھے بہت پسند آیا۔حسب روایت امین الحسن صاحب نے ایکشن پلان بتایا۔ ہر رکن جماعت کرنے کے کاموں کی لسٹ بنائے اور کسی ایک Issue پر سنجیدہ کام کرے۔
مسلسل اہم اور سنجیدہ تقاریر جاری تھیں۔ہلکی سرد رات شروع ہوچکی تھی، کنوینر صاحب نے برادر غلام فرید صاحب کو مدعو کیا، پھر کیا تھا، ان کی ولولہ انگیز نظم سن کر سب نے اپنے جذبات اور حوصلوں میں گرماہٹ محسوس کی۔
اب باری تھی اس سیشن کی بلکہ سہ روزہ اجتماع کی سب سے اہم ترین تقریر کی۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر پر جو اجتماع کا مرکزی عنوان تھا:
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
محترم امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی کی اس قیمتی تقریر کو میں اپنے لیے اجتماع کا حاصل سمجھتی ہوں۔ تین دن اپنے بچوں اور گھر سے دور رہ کر میں نے اپنے لیے وہ سب پالیا جس کے لیے محترم امیر جماعت :
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عا لم
پر رہنمائی فرمارہے تھے۔ماحول پر سناٹا طاری تھا، سامعین ہمہ تن گوش تھے۔محترم فرمارہے تھے1۔ذہن وفکر کی سطح پریقین 2۔ جذبات کی سطح پر محبت3۔ Action کی سطح پر عمل پیہم۔یہ تین صفات کامیابی کا ذریعہ ہیں۔کامیابی کی ضمانت ہیں۔یقین کے تعلق سے کہا کہ یہ قرآن کا مرکزی موضوع ہے۔یقین طاقت ہے قوت ہے، دولت ہے۔یقین کی جدید اصطلاح Strategic leadership کے work shops پر خوب روشنی ڈالی۔
آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کے لیے آپ نے اللہ پر ایمان ، رسول پر ایمان ، اللہ کی کتاب قرآن کریم پر ایمان کو سب سے پہلی اور اہم بنیادی چیز بتائی۔تحریکی فکر پر یقین ، اللہ کے دین اسلام کے غالب ہونے پر یقین ، اللہ کی سنت پر یقین ، یقین اپنے آپ پر اس طرح یقین پر خوب کہا کہ یقین ہمارے اندر محبت کا شدید جذبہ پیدا کرتا ہے، جسے عشق کہتے ہیں۔ عشق عزیمت پیدا کرتی ہے۔ قربانی پیداکرتی ہے۔
روداد لکھنے کے لیے ارکان اجتماع کی اپنی نوٹ بک کھولی تو میںالجھن میں ہوں کہ کن کن اہم پوائنٹس کو شامل کروں ، کیونکہ لکھتے لکھتے اس تقریر کے میرے پاس دس صفحات مکمل ہوچکے تھے۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قید وبند کے حالات میں لکھے گئےمحبت و یقین کے عربی اشعار مع ترجمہ محترم مقرر نے پیش کیے۔ساتھ ہی کئی قرآنی آیات ،حدیث اور اشعار بھی سنائے۔ وہیں عمل پیہم کی عام فہم تشریح یوں کی:دن یونہی ، راتیں یوں ہی ہفتے مہینے یونہی گزرتے جائیں یہ ممکن نہیں ہے۔محبوب کی راہ پر چلنے کے لیے دن کاٹنا یہ کسی عاشق کے لیے ممکن نہیں ہوتا تو تحریک کے کارکن کے لیے بھی تحریک کی راہ میں کوئی نتیجہ لائے بغیر دن کاٹنا اورمکمل کرنا یہ ممکن نہ رہے۔ یہ مطلب ہے عمل پیہم کا۔
ساڑھے 34 منٹ کی تقریر بہت جاندار و پر اثرتقریر تھی۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

3 Comments

  1. آسیہ جبین

    بہت اچھا لگا پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے بھی اجتماع میں شرکت کی ہو

    Reply
  2. مبشر

    پیش کی جارہی قسط وار روداد اجتماع دلچسپ اور جاذبیت سے پر ہے۔ لیکن تحریر کے حوالے سے ایک بات عرض ہے۔

    تحریر میں انگریزی الفاظ کی کثرت زبان کے حسن کو متاثر کرتی ہے۔ لہذازبان کی اصالت و فصاحت کا بالخصوص خیال رکھتے ہوئےحتی الامکان اردو الفاظ استعمال ہونے چاہئیں۔ ایسے انگریزی الفاظ جو اردو میں مستعمل ہوچکے ہیں انہیں اردو حروف تہجی میں لکھا جاسکتا ہے۔

    Reply
    • نام *تحسین عامر

      روداد کو پسند کرنے کے لیے شکریہ۔

      آپ نے انگریزی الفاظ کی کثرت کا ذکر کیا ہے۔ بات یہ ھیکہ مقررین نے خود انہی الفاظ کا استعمال کیا ہے۔انگریزی الفاظ کو اردو میں تحریر کرنا اور سمجھنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے انہیں انگریزی میں ہی لکھا ہے اور کہیں کہیں اردو الفاظ بھی تحریر کیے ہیں۔

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳