مارچ ۲۰۲۳
زمرہ : ادراك

اس سال یوم خواتین کی عالمی تھیم دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس سال یوم خواتین کے موقع پر عالمی سطح پر Equity vs Eqaulity فیمنزم کا مساوات اور خواتین کو شانہ بہ شانہ کام کرنے کی ترغیب دینے والا نعرہ بالآخر وہیں لوٹ کر چلا آیا، جو قانون فطرت نے اپنا نظام وضع کرتے ہوئے فرمایا :

وَ لَیْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى(آل عمران : 36 )

( مرد عورت جیسا نہیں ہے ۔)

یوم خواتین 8 مارچ پر عالمی تھیم مساوات بمقابلہ انصاف کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ

2023 EmbraceEquity campaign theme seeks to get the world talking about why “equal opportunities are no longer enough”

 

یہ مہم اس سال اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھے کہ مساوات ہی سے کام چلے گا۔ خواتین کو ان کے حقوق انصاف کی بنیاد پر ملنے چاہئیں ۔اس کی مثال دیتے ہوئے عالمی ادارے حقوق خواتین نے اپنے آرٹیکل میں تمارا موہانی (YouTuber Tamara Makoni, founder of Kazuri Consulting)کی ایک مثال نقل کی ہے کہ’’ میں اپنے دوبچوں کے لیے سیب خریدتی ہوں تبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ایک بچے کو سیب سے الرجی ہے، تو مجھے اس کے لیے کوئی دوسرا فروٹ لینا چاہیے ،دونوں کا سیب دینا یہ مساوات ہے تاہم مزاج کے مطابق دینا یہ انصاف ہے ۔‘‘
اس مثال کے ذریعہ آج حقوق خواتین کے موقع پر یہ اسی بات کے طالب ہیں کہ خواتین کو مردوں کے برابر مواقع اور حقوق کے بجائے ان سے زیادہ ملنا چاہیے ،یہ تھیم پڑھتے ہوئے فیمنزم کے جواب میں سب سے پہلے تو وہ حدیث یاد آئی کہ

 أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أُمُّكَ ثُمَّ أَبُوكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ
(صحیح مسلم: 2548)

(تیری ماں ،پھر تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیرا باپ،پھر جوشخص زیادہ قریب ہے ، وہ اسی قدر زیادہ مستحق ہے۔)
اس کے بعد ہمارے اکابرین کی ساری بحثیں اپنے پورے متن کے ساتھ سامنے آئیں، اور دل سے دعا نکلی کہ حالات کے دھارے سے متاثر ہوئے بغیر وارثت کی تقسیم پر پردے پر حجاب کی آزادی پر ، خواتین کی معاشی ذمہ داری پر بلاتکان لکھتے رہے ،کہتے رہے ۔
اس وقت جب مساوات مرد وزن کا دور دورہ تھا ، ان کے الفاظ نقار خانے میں طوطی کے بول تھے، تاہم کسی عار کے بغیرصنفی تفریق کے جواب میں کہتے رہےکہ اسلامی تعلیمات عدل پر مبنی ہیں ۔بقول مولانا مودودیؒ انسان فطرت کی جانب لوٹتا ضرور ہے ۔
اس تھیم کو دوسال سے یوم خواتین کے موقع پر دیکھ کر یوں لگا کہ واقعی انسان بالآخر فطرت کی طرف لوٹ آتا ہے ۔علامہ یوسف القرضاوی ؒانصاف کرنے کے حوالے سےخوبصورت بات لکھی ہے:
’’ اسلام عورت کی فطری نسوانیت کا لحاظ رکھتا ہے، اس کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے، ان تقاضوں کو نہ زبردستی دبا تا ہے اور نہ ہی ان کو بھڑ کا تا ہے ،بلکہ وہ خواتین کو ہر اس عمل سے روکتا ہے جو اس کو بے حیثیت کرے اور اس کی نسوانیت کی عظمت پر حرف لگائے ، اسلام اسے ان انسانی درندوں سے محفوظ رکھتا ہے ،جو صنف نازک سے نہایت بے دردی کے ساتھ لطف اندوزی کرتے ہیں اور پھر اسے بے یارو مددگار و بے حیثیت چھوڑ دیتے ہیں۔اسلام خواتین کی نسوانیت کی حفاظت کرتا ہے تا کہ وہ شفقت ، نرمی اور خوبصورتی کا سر چشمہ رہے، اسی لیے اسلام نے اس کی فطرت و ذمہ داریوں سے ہم آہنگ کچھ ایسی چیز میں اس کے لیے جائز قرار دی ہیں جو مردوں کے لیے حرام ہیں، مثلا سونے کے زیور اور خالص ریشم پہننا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:إن هذين حرام على ذكور امتي وحل لإناثھم
(یہ دونوں چیز میں میری امت کے مردوں کے لیے حرام اور خواتین کے لیے حلال)
اس طرح خواتین کی نسوانیت کو نقصان پہنچانے والی چیز کو حرام رکھا ۔‘‘
واقعی یہی ہے کہ جب ہم اسلام میں عورت کی حقوق کی حقانیت پر غور کریں ،تو محسوس ہوگا کہ اسلام خواتین کی شخصیت کا نسوانی پہلو سے اتنا خیال رکھتا ہے کہ اسے معاشی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد رکھا، اپنی صلاحیت ہوتو کما ئےضرور، اسے کمانے سے نہیں روکا، وہ تجارت کرسکتی ہے، وہ خدمات انجام دے سکتی ہے ۔ پیشہ معلمی سے لے کر خواتین کی تجارت کی مثالیں اسلام میں موجود ہیں ، لیکن اس کے مال پر کسی کی کفالت کی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی ،حتی کہ اس کے اپنی ذات کی روزی روٹی کی ذمہ داری بھی اس کی ذات پر نہیں ہےکہ اسے دھکے نہ کھانے پڑیں، وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بازار میں مردوں کے سامنے مجبور محض نہ بنی رہی اس کا نان ونفقہ مرد پر رکھا ہے، وہ خاتون بیوہ ہوتو اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری دادا، نانا، چچا ،تایا پر ہے ،لیکن بیوہ پر نہیں رکھی ۔
حالانکہ اس کے برعکس مغربی دنیا کی جدید تہذیب نے عورت کو اپنا ذمہ دار آپ بنایا۔ اسلام کے عورت کے حقوق انصاف برمبنی ہے، جبکہ مغربی دنیا نے مساوات کو لازم رکھا ۔مساوات اور انصاف کی بحث نئی نہیں ہے، اس کی ابتداء قرون وسطیٰ کے انگلینڈ میں پائی جاتی ہے، جب انگریزی عدالتوں نے تنازعات کو کامن لاء کے مطابق طے کیا تھا۔ انصاف یکساں اور مستقل تھا، لیکن ضروری نہیں کہ منصفانہ ہو۔
مثال کے طور پر اگر دو افراد دونوں چوری کرتے ہیں، لیکن چوری شدہ اشیاء کی قیمت مختلف ہے، تو کیا انہیں ایک ہی سزا ملنی چاہیے؟ اس کے بعد سےعدالتوں نے ایکوئٹی کے اصول کو اپنایا ہے ، مختلف حالات پر غور کرنے کے لیے کیس بہ کیس نقطۂ نظر اپنایا ہے۔
یہی بات عورت کے ساتھ حق وانصاف کے طور اب کہی جارہی ہے، بہترین موقع ہے اس بیانیے کو گفتگو کا موضوع بنانے کا، کہ یہی نکتہ وراثت کی اسلامی تقسیم میں پوشیدہ ہے، برابری یہاں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی،ٹھیک یہی نکتہ تعدد ازدواج میں ہر دو کے لیے ہے کہ جو انصاف کا تقاضا پورا کرسکے،وہ عورت دل بڑا کرے اور مرد بیویوں کے درمیان بھی انصاف کرے ۔
عدل کے حوالے سے گاہے انکم ٹیکس کو لے کر بھی یہی بات کہی جاتی ہے صرف مساوات ضروری نہیں،مساوات کبھی کبھی عدل کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی ۔عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر فرد کی ضرورت ، صلاحیت مواقع اور موانع پر نظر رکھنا لازم ہے، انسان مشین نہیں کہ یکساں پروگرامنگ ہو؛ اسے تقاضا ، ضرورت اور استعداد کے لحاظ سے اسے مواقع ملنے چاہیں ۔عدل و انصاف ہی توازن کے لیے لازم ہے توازن ہے ۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. انس قاسمی

    ما شاء اللہ بہت بہترین

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳