مارچ ۲۰۲۳
زمرہ : النور

ماہ رمضان قریب آچکا ہے۔خوش نصیب ہوگا وہ جسے ایک بار پھر رمضان المبارک کی مبارک گھڑی نصیب ہو ،اور انتہائی بد نصیب ہوگا وہ شخص جسے یہ ماہ مبارک ملے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے ۔

عن ابی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممن لم یدع قول الزور والعمل به فلیس اللہ حاجۃ فی ان یدع طعامه و شرابه۔ (بخاری)

(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص بحالت روزہ جھوٹ بولنا اور برے عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ،اور ایک پکارنے والا پکارتا ہے ۔اے طالب خیر ! آگے آ، اے شر کے متلاشی رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔(ترمذی،ابن ماجہ)

عن ابي هريرة قال قال رسول الله : حسن اسلام المرء تركه ما لايعنيه (حديث حسن، رواه الترمذي)

(کسی شخص کے اسلام کی خوبی (اچھا ہونے کی دلیل ) یہ ہے کہ وہ لایعنی (فضول ) باتوں کو چھوڑ دے۔)
یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے، یعنی الفاظ کم معانی بہت زیادہ ۔ نبیٔ کریمﷺ نے اس مختصر سی حدیث کے ذریعےامت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ بے مقصد اور بے فائدہ مشاغل کو ترک کرنا ہی دین ودنیا کی سعادت کا ضامن ہے۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم مقصد کے لیے عظیم ذمہ داری کے ساتھ پیداکیا ہے، جس کی ادائیگی میں ہی اس کی کامیابی کا انحصار ہے، اور اس سے غفلت کے بدترین نتائج آج ہمارے سامنے ہیں، کیوں کہ امت کی اکثریت اپنے مقصد سے غافل اور لغویات میں منہمک نظر آتی ہے۔
بندۂ مومن کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ اس کا وقت ہے ،جو ہر لمحہ برف کی طرح پگھل کر ختم ہورہا ہے، جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:

 والــــعـــــــــصر ان الانسان لفي خسر

زمانہ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے اس دنیا کو نظر بنایا، عیش وعشرت اور خواہشات نفس میں غرق ہو کر لذات دنیا سے سرشار رہے تو یقیناً وہ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں ، جس کا ابھی انھیں شعور نہیں ۔
اس حدیث میں آپ نے مومن بندے کو بے مقصد افکار، اقوال و اعمال یعنی Usless Activities سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ اگر زندگی کا کوئی متعین ہدف نہ ہو تو فکری زوال وانتشار سے بچنا ممکن نہیں ، ایسا شخص لا یعنی افکار میں مبتلا ہونے سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے، مشکلات میں الجھا رہتا ہے ، جیسے دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر جلنا کڑھنا یا ان کے ساتھ مقابلہ آرائی میں اپنا سکون غارت کرنا، پڑوسیوں کی ٹوہ میں رہنا، بدگمانی، تمسخر، عیب چینی جیسی بے شمار اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
دوسری چیز بے فائدہ اقوال کا ترک کرنا، جس کی تاکید بیشمار آیات قرآنیہ اور احادیث رسول میں وارد ہے۔ اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے : والذين هم عن اللغو معرضون( المؤمنون: 3)
آپﷺ نے فرمايا:

 من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت

(جو شخص اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے، وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔)
اسی طرح یہ بھی فرمایا :

 من صمت نجا

(جو خاموش رہا، اس نے نجات پائی)

 ایسا شخص دنیا و آخرت کے ان تمام فتنوں سے محفوظ رہتا ہے جس کا تعلق زبان سے ہے۔ قوت گویائی قدرت کا ایک عجوبہ ہے جو ایک پیچیدہ کثیر المراحل عمل ہے، آواز پیدا کرنے والے صوتی تاروں کا نظام نہایت حیرت انگیز ہے ،جس کاموازنہ دنیا کے کسی بھی صوتی آلہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ پس لازم ہے کہ خدائے رحمٰن کی اس نعمت کا استعمال اس کی مرضی کے مطابق ہو اور فضول گوئی کرنے والےکی مثال اس نادان کی سی ہے، جو ادھر ادھر کی خبریں لیتا پھرتا ہے ،خود اپنے حال کی خبر نہیں۔ مزید یہ کہ فضول باتیں، بہت زیادہ ہنسی مذاق ، قساوت قلب ( دل کی سختی ) کا سبب بنتا ہے اور موت اور اس کے انجام سے غافل کر دیتا ہے۔
تیسری چیز لا یعنی افعال و مشاغل،اور ان کا تو کوئی شمارہی نہیں ۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو نصف سے زیادہ کام بے مقصد ، بے فائدہ ہوتے ہیں۔صرف جھوٹی شان اور اپنی انا کی تسکین کی خاطر ۔ صارفیت کا بڑھتا ہوا رجحان ، دولت کی شدید حرص نے ہمیں مادی حیوان بنا دیا ہے، جس سے اب کسی جہادو مجاہدہ کی توقع نہیں کی جاسکتی ، جس طرح انسانی ذہن ترقی کے مدارج طے کرتا ہے اسی طرح شیطان بھی برائیوں کو خوب سے خوب تر بنا کر پیش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ برائی کا احساس و شعور بھی باقی نہیں رہ جاتا، بلکہ اخلاقی قدروں پر عمل کرنے والے بیک ورڈ تصور کیے جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، خیر وشر ؛جیسے موبائل فون اور سوشل میڈیا کا بھی ہے، مگر شر خیر پراور نقصان نفع پر غالب آجاتا ہے، اگر خوف خدا اور آخرت کی جوابدہی کا شدید احساس نہ ہو۔ یعنی یہ سب سے بڑی لا یعنی مشغولیت ہے جس میں ہر عمر کے افراد ملوث ہیں ۔ گویا شیطان نے یہ محبوب مشغلہ تھما کر خود راحت کی سانس لی، اب ہم کبھی فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام کے وسیع سمندر میں غوطہ لگاتے رہتے ہیں تو کبھی یوٹیوب پر دل بہلاتے ہوئے

’’ولا تعاونوا على الاثم والعدوان‘‘

کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فواحش و منکرات کی تبلیغ کا ذریعہ بنتے ہیں، تو کبھی واٹس ایپ کے محدود دائرے میں ہی وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔بلاتحقیق میسیج فارورڈ کرنا، فضول اور لغواسٹیٹس لگانا، غیر ضروری تنقید و تبصرہ کرنا۔غرض یہ کہ جدید ٹیکنالوجی کے بے شمار فوائد بھی ہیں جن کا شمار کرنا یہاں مقصود نہیں البتہ اس کے ( ذہنی، فکری، جسمانی اور اخلاقی ہر قسم کے) نقصانات اور استعمال کے صحیح آدابسے واقفیت ضروری ہے۔
اس طرح ہماری بہت سی بہنوں کو سیریل کا شوق اس قدر ہوتا ہے کہ عبادات اور گھر کے تمام واجبی فرائض متاثر ہو جاتے ہیں۔ افسوس !وہ پاکستانی اور اسلامی سیر یل کو دیکھنا کار خیر سمجھتی ہیں ، ان تمام مشاغل کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ نیند کا فطری نظام متاثر ہو جاتا ہے، سونے جاگنے کے اسلامی اصول ملحوظ نہیں رہتے ، جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے جس کے ذریعہ لا یعنی کاموں سے بچنے کی بہترین تربیت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ کے ذریعہ امت کو خواہشات نفس پر قابو پانے اور بہت سی مکروہ اور مباح چیزوں سے بچنے کی ٹریننگ کابہترین انتظام کیا۔ اس لیے اس حدیث مبارکہ پر عمل کرنے کی مشق کرنی چاہیے۔
غرض یہ کہ اس حدیث میں ہمارے لیے عظیم پیغام ہے اگر ہم اسلام و احسان کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچنا چاہتے ہیں تو بے مقصد امور سے اجتناب کرنا لازم ہے ،جس کے نتیجے میں اسلام کا حسن ہماری زندگی کو حسن سے بھر دے گا۔ ہماری صلاحیت، وقت، دولت اور علم با مقصد کاموں میں صرف ہوگا اور یقیناً ہمیں خدا کی خوشنودی کے ساتھ سکونِ قلب اور طمانیت حاصل ہوگی۔اللہ تعالیٰ ہمیں 

 ’’يا أيتها النفس المطمئنه …‘‘

کا مصداق بنائے۔آمین

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. شفق نازتنویر

    ماشاءاللہ, بہت بہترین راہنمای ہے.

    Reply
  2. شفق نازتنویر

    اگر اس حدیث پرہم عمل کریں تو ہم روزےکےاصل روح کو حاصل کر لیں گے.جزاکم اللہ خیر

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳