مارچ ۲۰۲۳

 شیورامپلی میں بائیس سالہ روکیش کمار گھر میں مردہ پایا گیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ نیند کی گولیوں کا عادی تھا، اور اس کی زیادہ خوراک کے استعمال نے اس سے زندگی چھین لی۔ اصل میں وہ ڈپریشن کا شکار تھا ،اس نے اُس دن اچھی نیند کی خاطر پانچ سے زیادہ گولیاں کھائیں، اور زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا۔
ممبئی کی ایک اور بے خوابی کی شکار لڑکی نے اپنے قریبی دوست کے مشورہ پر اچھی نیند کی خاطر نیند کی گولیاں لینی شروع کی تو آخر نوبت یہ آگئی کہ ایک وقت میں تیس تیس گولیاں کھانی پڑیں، جب وہ بھی نا کافی ہوئیں تو الکحل کے ساتھ نیند کی گولیوں کا استعمال کرنے لگی ،نیم غنودگی اور نشہ کی حالت میں میں جب راہگیروں نے کار سے نکال کر گھر پہنچایا تو گھر والوں نے علاج کروانا ضروری سمجھا اور ہاسپیٹل میں داخل کیا ۔
یہ اور اس قسم کی خبریں اور اخبارات کی سرخیاں نوجوانوں میں نیند کی گولیوں کے بڑھتے رجحان کو ظاہر کرتی ہیں۔ دوائیوں کے استعمال کا ڈیٹا رکھنے والی کمپنی میڈیکل ہیلتھ سو لوشن کے مطابق2000 ءسے 2004 ءکے درمیان نیند کی گولیوں کااستعمال بچوں اور نوجوانوں میں 85فیصد بڑھ گیا تھا اور یہ شرح مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اسٹڈی کے لیے میڈیکو نے چند سال قبل اپنے2.4 ملین صارفین سے نیند کی گولیوں کے نسخوں کا ڈیٹا حاصل کیا تو پایا کہ 10سے19 سال کی عمر کے342568 لوگوں نے نیند کی دوائیاں لیں اور20 سے44سال کی عمر کے تقریباً208 ملین لوگوں نے یہ دوائیاں لیں۔

2020ءمیں 30000امریکیوں پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق امریکن سوسائٹی میں دس میں سے ایک عورت نیند کی گولیوں کی عادی ہے ۔
یہ ڈیٹا تو ان لوگوں کا ہے، جنھوں نے بے خوابی کے علاج کے لیےڈاکٹر کے ذریعہ نیند کی گولیوں کے نسخے حاصل کیے تھے ۔اس کے علاوہ بغیر ڈاکٹر کے مشورہ کے میڈیکل اسٹور سے یا اور کسی کاؤنٹر سے حاصل کی گئی دوائیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ امریکہ میں بالغ افرادکی9 فیصد تعداد کبھی نہ کبھی نیند کی گولیاں استعمالُ کرتی ہی ہے اور3فیصد کو زمانہ ٔطالب علمی میں خواب آور گولیوں سے سابقہ پڑتا ہے ۔
یہ مسئلہ مسلم معاشرہ میں بھی در آیا ہے ۔بی بی سی کے مطابق پاکستان میں نیند کی گولیاں کرانہ دکانوں میں ٹافیوں کی طرح فروخت ہورہی ہیں۔یہاںنوجوانوں کی بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہے، اور اس کےمتعلق بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اس لیے اکثر لوگ اس کا علاج خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور خواب آور گولیوں کا استعمال کرتے ہیں۔نتیجۃًالپرازولیم اور بروموزیپیم پرمشتمل ادویات کاغلط استعمال عروج پر ہے ۔

خواب آور گولیوں کے نقصانات

مشی گن یونیورسٹی کی ڈاکٹر کے مطابق جن بچوں کو نفسیاتی امراض کے لیے نیند کی گولیاں تجویز کی گئیں، ان میں نشہ کی لت لگنے کے 12فیصد زیادہ امکانات ہیں، بہ نسبت ان کے جنھیں یہ دوائیاں نہیں دی گئیں۔ ان گولیوں کے عادی بچوں اور نوجوانوں میں کلاس میں غائب دماغی ،یادداشت کی کمی ، قوت فیصلہ کی کمی ، ڈپریشن اور سر درد جیسی شکایتیں کثرت سے نوٹ کی گئیں ۔بعض وقت ایسے مریض نیند میں ڈرائیو بھی کرتے ہیں اور خود کو اور دوسروں کو شدید نقصانات پہنچاتے ہیں ۔خواب آور گولیاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی متاثر کرتی ہیں۔ان گولیوں کے عادی افراد کو کھانابہت کم یا ضرورت سے زیادہ کھانے کی شکایت بھی ہو سکتی ہے ۔ان میں تخریبی مزاج ،چیخنا چلانا ،شدت پسندی اور خودکشی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔
بے خوابی اور ڈپریشن کی ایک مریضہ کلیر ہیلی نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈپریشن کو دور کرنے والی گولیوں نے اس کو مزید مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کو مرگی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ ایک ہفتے میں اس نے دو بار خودکشی کی کوشش کر ڈالی ہے۔ ڈاکٹر پالکن کہتے ہیں کہ’’موجودہ دور کی نسل کا ایک بڑا حصہRetalin اورAdderall(نیند کی گولیاں ) کے سہارے پروان چڑھ رہا ہے ۔بچوں کے والدین اور خود بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ان گولیوں کے ذریعہ علاج ہوگا، نیند اور بے آرامی کے مسائل حل ہوجائین گے، لیکن یہ گولیاں دو دھاری تلوار کی مانند ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر مارکلیوی کے مطابق زیادہ عرصے کے لیے نیند کی گولیوں کا استعمال کرنے لگیں تو کچھ عرصہ بعد یہ گولیاں نیند کے لیے ناکافی ہوتی ہیں اور مسلسل مقدار بڑھانی پڑ سکتی ہے۔ زیادہ خوراک تو بہت خطرناک ہوتی ہے ،جو سانس کی تکلیف کی مستقل شکایت کی وجہ بن سکتی ہےیا پھر موت کا سبب بھی ۔

نیند کی گولیوں کے بڑھتے رجحان کے اسباب

نیند کی گولیاں استعمال کرنے والے افراد میں سے اکثر ڈپریشن کا شکار پائے گئے ہیں۔ والدین یا اساتذہ کی عدم توجہی یا غیر منصفانہ رویہ ، کلاس میٹس اور دوستوں کا ناپسندیدہ برتاؤ ، والدین کے آپسی جھگڑے اور چپلقش ، امتحان میں ناکامی کااندیشہ،احساس کمتری ،مایوسی ، منفی سوچ اور کئی دیگر وجوہات ڈپریشن کا سبب ہوسکتی ہیں۔ ڈپریشن اورAnxiety کے علاج کے طور پر ڈاکٹرز نیند کی گولیاں تجویز کرتے ہیں، اور یہ گولیاں آہستہ آہستہ غذا کا حصہ بن جاتی ہیں۔طلبہ پرا سٹڈیز کا دباؤ، والدین اور اساتذہ کی جانب سے امیدوں اور توقعات کا پریشر ، مسابقتی امتحانات میں اہل ثابت ہونے کی دوڑ ،اسکولی طلبہ میں اسکول کے طویل اوقات کے بعد بھاری ہوم ورک کا دباؤ، طلبہ میں تناؤ (Stress)پیدا کرتے ہیں اور یہ تناؤ جب مرض کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو معالج وہ دوائیاں تجویز کرتا ہے، جو نیند کےلیے مؤثرہوتی ہیں۔روزانہ استعمال سے بچے اس کے عادی ہونے لگتے ہیں، جو کافی نقصان دہ ہے۔ اس کا کثرت سےاستعمال نشہ کی لت لگانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
طلبہ میں بڑھتا Gadgetsکا استعمال، خصوصاً رات کے وقت آنکھوں کے قریب تیز روشنی ،زیادہ سکرین ٹائم، آنکھوں کی بینائی نیز درکار نیند کو متاثر کرتی ہے ۔موبائل کی نیلی روشنی نیند کے لیے درکار Melatoninہارمونس کے اخراج میں تاخیر کا سبب بنتی ہے ۔رات میں سونے تک غیر اخلاقی ڈرامے یا تشدد کے مناظر بھی نیند کو متاثر کرتے ہیں۔
کسی حادثہ کی وجہ سے دماغی چوٹ بھی نیند کی کمی کا سبب ہوسکتی ہے۔ا سٹاک بریج کے ایک ہیلتھ سینٹر (نوجوانوں کی ذہنی صحت کےلیےقائم کردہ ) کے مطابق کلچر میں تبدیلی روزمرہ کے معمولات کی بےقاعدگی، خصوصاً سونے جاگنے کے غیر منظم اوقات (راتوں میں جاگنا یا دیر سے سونااورصبح دیر سے اٹھنا ) کی وجہ سے بھی نیند کی دواؤں پر انحصار اور استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
نیند کی گولیاں بنانے والی کمپنیاں بھی ان کے بڑھتے استعمال میں اہم رول ادا کرہی ہیں۔ اس کی خوب تشہیر اور نقصانات چھپا کر صرف فائدے گنوا کر اس کی مارکیٹنگ کی جارہی ہے۔ نوجوان ان اشتہارت کو دیکھ کر ان کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔

خواب آور گولیوں سے کیسے بچا جائے

 خواب آور گولیوں کے استعمال کی اصل وجہ ڈپریشن ہے۔ ڈپریشن کی وجوہات کی تلاش اور اس کے تدارک کی کوشش کے ذریعہ ان گولیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ والدین کی بھر پور توجہ بچوں کوڈپریشن سےبچا سکتی ہے۔ ان کے مسائل میں گہری دلچسپی لےکراس کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کے اعتماد کو بحال کرنا، مایوسی سے بچانااور گھر میں خوب پیارومحبت کا ماحول فراہم کرنا والدین کی عین ذمہ داری ہے۔ والدین اوراساتذہ کو چاہیے کہ سب بچوں کے ساتھ منصفانہ رویہ رکھیں، کسی کو خصوصی اہمیت اور کسی کے ساتھ نارواسلوک یا عدم توجہی بچوں میں ڈپریشن کا موجب بن سکتاہے۔ غلطیوں پرسزا یا عار دلانے کے بجائے محبت سے اصلاح کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بچوں کوان کی دلچسپی کےمطابق تعلیم حاصل کرنےکے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ زبر دستی اپنی پسند کے مضامین پڑھوانا ،ان کی اہلیت سے بڑھ کر توقعات وابستہ کرنا اور ان کو پورا کرنے کا شدید اصرار بچوں میں تناؤ پیدا کرتا ہے۔
والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ حصول علم کو پر لطف بنائیں ۔ ٹیچرز تعلیم و تدریس میں خشک روایتی اندازکے بجائے دلچسپ طریقۂ تعلیم کو اپنائیں۔ڈھیر سارے نصاب کا بوجھ جبراًلادنے کے بجائے پر خلوص انداز میں علم حاصل کرنے کا شعور پیدا کریں۔ حصول علم طلبہ کے لیے بوجھ نہیں،بلکہ صالح مقصد اور پر شوق مشغلہ بن جائے تب ہی طلبہ کو تناؤ جیسے عارضہ سے نجات مل پائے گی۔

صحت مند اور متوازن غذائیں

مناسب کھانے کے مناسب اوقات کا تعین اچھی نیند کا ذریعہ ہیں۔ خوب بھرے پیٹ یا خالی پیٹ نیند نہیں آتی ۔کھانے اور سونے کے درمیان مناسب وقفہ لازمی ہے ۔نوجوانوں اور بچوں کو رات کا کھانا چھوڑنے سے بچایا جائے، اس سے نیند بھی متاثر ہوتی ہے۔کیفین کی آمیزش والے مشروبات و ماکولات سے بچایا جائے۔ یہ نیند کی کمی کا اہم سبب ہے ۔نیند کی گولیوں کے نقصانات سے متعلق بیداری پیدا کی جائے۔ ڈاکٹرز بھی نفسیاتی امراض کےلیے گولیوں کے بجائے کاؤنسلنگ اور(cognitive behavioural therapy (CBTکے ذریعہ علاج کو ترجیح دیں۔ سونے کے روم میںٹی وی، موبائل اورلیپ ٹاپ جیسی چیزیں نہ رکھیں ،تاکہ جب سونے کے ارادہ سے بچے کمرے میں آئیں تو فوراً سو سکیں ۔یہ چیزیں سونے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ رات میں نیند آتے ہی نہ سویا جائے تو Insomnia کی شکایت ہوسکتی ہے۔
جسمانی مشقت ،کھیل کود اورورزش کو معمول کا حصہ بنایا جائے ۔دن کی جسمانی مشقت رات میں اچھی نیند لاسکتی ہے۔
دوپہر میں قیلولہ کرنا چاہیے،یہ مسنون ہے اور ذہنی و جسمانی صحت کے لیے نہایت سود مند بھی، لیکن قیلولہ کے نام پر لمبی اور گہری نیند رات کی نیند کو متاثر کرتی ہے اور سونے جاگنے کے اوقات کو غیر منظم کرتی ہے۔ رات میں جلدسونے اورصبح جلد اٹھنے کو لازمی معمول بنانا چاہیے۔ رات کی نیند صحت مند دماغ اور صحت مند جسم بنانے میں مددگار ہوتی ہے۔ قوت مدافعت بڑھاتی ہے، بچوں کے اچھے موڈ میں اہم کردار نبھاتی ہے۔
بچوں کو سونے سے پہلے اچھی باتیں اوراخلاقی کہانیاں سنانے کا معمول بنائیں ۔بچوں کو -چاہے چھوٹے ہوں یا بالغ -سونے سے عین قبل دعائیں اور قرآنی آیات کا ورد کرنے کی عادت ڈالیں۔ بچوں میں خدا پر پختہ یقین اور توکل پیدا کرنے کی سعی کریں ،یہی وہ اعلیٰ اوصاف ہیں ،جو بچوں کو ڈپریشن،مایوسی او رتناؤ جیسے امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اسلامی خطوط پر بچوں کی تربیت ہی معاشرہ کو بااعتماد ،حوصلہ مند اور صالح نسلیں فراہم کرسکتی ہے۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. لئق الرحمان خان

    کیا محترمہ ڈاکٹر ہیں؟ خواب آور دوائں کئ امراض کے علاج میں دی جاتی ہیں صرف ڈپریشن کے علاج میں نہیں۔ اگر خواب آوت دوائں مریض کے حوالے کرنے کے بجاۓ اہل خاندان ڈاکٹر کے تجویز کردہ ڈوز میں دیں تو مریض ان دواؤں کا عادی نہیں ہوتا۔ نفسیاتی امعاض کے علاج کی اپنی تیس سالہ پریکٹس کے دوران مجھے ایک بھی مریض ایسا نہیں ملا جو ڈاکٹر کی تجویز کی گئ خواب آور دواؤں کے استعمال سے ان کا عادی ہوا۔ اکثر نفسیاتی امراض میں صرف CBT کافی نہیں ہوتا اور دوائں دینی پڑتی ہیں. جو لڑکے می ڈیکل کی دکانوں سے بغیر ڈاکٹر کے prescription کے خواب آور دوائں لیتے ہیں وہی ان کے عادی ہوتے ہیں

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳