مارچ ۲۰۲۳

دور حاضر کے انسان کو اتنی آسائشیں اور سہولیات میسر آئی ہیں، جو اس سے پہلے کسی انسان کو نہیں ملیں، لیکن جس قدر تناؤ کا شکار آج کا انسان ہے؛ اس سے پہلے کبھی بھی نہ تھا۔بے چینی، دباؤ، پریشانی ،عدم تحفظ، اداسی، ڈپریشن کا شکار ہے۔
مراقبہ وہ عنوان ہے جس پر خوب بولا جاتا ہے اور لکھا بھی جاتا ہے۔محمد ناصر افتخار کی زیر تبصرہ کتاب میں بھی ان موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔بنیادی طور پر مذکورہ کتاب کا مضمون’’نفس‘‘ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ نفس کیا ہے۔مصنف کے نزدیک نفس میں جسم، پانچ حواس اور ذہن آتا ہے۔نفس شیطان کی طرح انسان کا دشمن ہے ۔اس کتاب میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ سائنس سے بھی خوب استدلال کیا گیا ہے۔مصنف نے کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔سینیئر تجزیہ نگار ہارون الرشید لکھتے ہیں:
’’ناصر افتخار نے اس دریا میں چھلانگ لگائی ہے اور بہت سے لعل و گوہر تلاش کیے ہیں۔ بہت سے سانپوں، سنپولیوں اور ا زدہوں کا سراغ لگایا ہے۔ ابھی طوفانی موجوں سے وہ لڑ رہے ہیں، لیکن ساحل کے عزم اور تمنا کے ساتھ ۔ فرمایا : ’’مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالی انہیں مومن کی فراست عطا کرے۔ اس راہ پر اسی عزم اور خلوص کے ساتھ وہ گامزن رہے تو کیا عجب ہے کہ راہ سلوک کے دیار میں ایک اور فرد فرید نمودار ہو۔ اللہ تعالی انہیں عز و شرف عطا کرے۔‘‘ (صفحہ : 8)
کتاب کے ابتدائیہ میں مصنف لکھتے ہیں :
’’آج کا انسان روئے زمین پر تاریخ انسان کے سب سے حیرت ناک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ زمین پر جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ سہولت، کشائش اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب بلا مبالغہ ہماری تہذیب ہے، لیکن یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ اس قدر بے پناہ ترقی اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باوجود عصر حاضر کےانسان سے زیادہ پریشان، غیر محفوظ ، دباؤ کا شکار اینگزائٹی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی اور کوئی تہذیب اس سے پہلے زمین پر نہیں گزری۔ یہ تضاد ایک خوفناک حقیقت کی صورت میں آج ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہو چکا ہے۔‘‘ (صفحہ : 13)
آج کے انسان کے بارے میںلکھتے ہیں:
’’بلا مبالغہ ہر آدمی ایک نفسیاتی مریض بن کر رہ گیا ہے۔ ایک چلتی پھرتی لاش،جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے۔ مزید ترقی ، مزید پیسہ، کاروبار میں اضافہ، بڑے مکان، بڑی گاڑیاں؛ کیا یہ ہمارا مقصد زندگی ہے؟ کیا ہمیں اس لیےدنیا میں بھیجا گیا ہے؟ ڈپریشن، ٹینشن اور اینگزائٹی میں بلا مبالغہ ہر شخص گرفتار ہو چکا ہے۔ لوگ نیند کی گولیاں پھانک کر زندگی گزار رہے ہیں ۔ کثیر تعداد نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر ذہنی امراض کے معالجین کے سامنے کھڑی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہے۔‘‘ (صفحہ : 14)
مصنف کہتے ہیں کہ آج جس طرح انسان Anti depression سے مستقل حل چاہتا ہے، اسی طرح کچھ روحانی اعمال سے مستقل حل چاہتے ہیں جو کہ ناممکن ہے؛ لکھتے ہیں:
’’اپنی آج تک کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں، اگر نیت استوار نہ ہو تو کیا یہ سب محض روحانی تفریح Spiritual entertainment نہیں ہے؟ کیا اس کی حیثیت محض آنسو گیس Tear gas کی سی نہیں ہے؟ تھوڑی دیر کےلیے آنکھوں میں آنسو اور پھر وہی پرانا ذکر ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب رائیگاں ہے تو پھر ٹھیک کیا ہے؟ حل کیا ہے؟ آخر ڈپریشن، ٹینشن اور اینگزائٹی سے نجات کیسے ممکن ہے اور پھر سارے سوالوں کا ایک سوال یہ کہ اللہ کو کیسے پایا جاسکتا ہے؟ اللہ کی تلاش کیسے ممکن ہے؟ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان سب سوالوں کے جوابات حاصل کریں۔‘‘ (صفحہ : 17)
اور یہی اس کتاب کے لکھنے کا مقصد ہے۔کتاب کے بارے میں مزید لکھتے ہیں:
’’یہ کتاب نفس پر لکھی گئی ہے۔ نفس کی کوئی جنس نہیں ہے۔ یہ Genderless‏ ہے۔نفس نہ مرد ہے نہ عورت ۔ اس کتاب کا مخاطب نہ تو مرد ہے اور نہ عورت، بلکہ انسان کا نفس ہے اور نفس ہر انسان میں ایک ہے۔ یہ کتاب آپ پر لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کو بتائے گی کہ آپ کون ہیں؟ اسے پڑھ لینے کے بعد آپ کے اندر بے پناہ تبدیلی آئے گی۔ آپ کا زاویۂ نظر بدل جائے گا ، بڑھ جائے گا۔ علم حاصل ہوگا اور اس علم کی مدد سے آپ خود کو بدل ڈالنے میں اللہ کے فضل سے کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ کتاب آپ کو مایوسی Depression سے نکال کر اللہ سے روشناس کروائے گی۔‘‘ (صفحہ : 18)
کتاب میں انسان کے روزمرہ کے مشاہدات اور انسان کے ساتھ جڑی ہوئی چیزوں کے بارے میں خوبصورت باتیں لکھی گئی ہیں۔جسم کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جسم کا عقل سے براہ راست کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے۔ جسم حیوانی ہے اور اس میں دو جبلتیں ہیں۔ بچاؤ Survival اور افزائش نسل یعنی Reproduction جسم صرف بھوک مٹانے اور اپنی پیداوار بڑھانے Reproduction میں دلچسپی رکھتا ہے، اسے باقی کسی شے سے غرض نہیں۔ گو کہ انسانی جسم اپنی بناوٹ اور نفاست کے اعتبار سے تمام حیوانی اجسام میں اعلیٰ وجود رکھتا ہے، لیکن پھر بھی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر حیوان اور انسان کے جسم میں حیاتیاتی اعتبار سے کوئی زیادہ فرق موجود نہیں۔‘‘ (صفحہ : 22)
حواس خمسہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ جسم کےلیے سینسرز( Sensors )کا کام سر انجام دیتے ہیں۔معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور دماغ کو پہنچاتے ہیں۔ ان کا اصل کام جسم اور ذہن سے مل کر خواہش کو جنم دیتا ہے، اس پر آگے بات ہوگی ۔ حواس کو کام کرنے کےلیے مخصوص اعضاء دیئے گئے ہیں۔ بصارت آنکھ کو کیمرے کی طرح استعمال کرتی ہے، سماعت کانوں کے ساتھ جڑی ہے، چکھنے کی حس زبان میں ہے، سُونگھنےکےلیےناک استعمال ہورہی ہے اور چھونے کی محسوس کرنے کی حس پورےوجود کے پور پور میں سمائی ہے۔‘‘(صفحہ: 24)
ذہن کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ذہن جسم انسانی میں یادداشت کا مرکز ومحور ہے۔ یہ ڈیٹا سنٹر ہے۔ تجزیہ کار Analyst ہے۔ یہ تمام جسم اور حواس پر حکمران ہے۔ حواس باہری دنیا کی معلومات اسے مہیا کرتے ہیں اس انفار میشن کی مدد سے ماضی کے تجربات کو استعمال کر کے ذہن ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے فیصلہ صادر کرتا ہے ۔جسم اور حواس جسے ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ ذہن Mind اور دماغ Brain دونوں الگ ہیں، مگر ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ جیسے جسم مادی اور روح غیر مادی ہے اسی طرح دماغ مادی اور ذہن غیر مادی ہے۔ دماغ اعصابی نظام اور بہت سے دوسرے خلیات سے مل کر بنا ہے جن کو دیکھا جاسکتا ہے، چھوا جا سکتا ہے جبکہ ذہن غیر مادی ہے یہ سوچ کا نام ہے۔ ذہن دماغ کے ذریعے تمام جسم انسانی سے جڑا ہے۔ نفس ،انسان ان تین حصوں سے مل کر بنا ہے جسم ، حواس اور ذہن ۔ یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بےکار ہیں۔ کسی ایک کی دوسرے کے بغیر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر اس سوال پر گہرائی سے غور کیا جائے کہ میں کون ہوں؟ تو انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔‘‘ (صفحہ : 25)
اسی طرح نفس سے جڑی ہوئی چیزوں کو مصنف نے خوبصورتی سے بیان کیا ہے،مصنف انسان کو اپنے آپ میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے لکھتے ہیں:
’’کیا انسان اس بات پر قادر نہیں کہ اپنی پوری زندگی پر ایک نظر ڈالے اور سب دیکھ لے۔ کیا آپ نے بھی ایسا کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم باشعور ہونے کے باوجود بے شعوری کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیشہ ساری زندگی چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل میں مصروف آدمی خود کو پورے طور پر دیکھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ کیوں؟‘‘ (صفحہ : 31)
عام طور پر چند چیزوں میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہم علم نفسیات کو سمجھ نہیں پاتے اور طرح طرح کی مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔مصنف بظاہر دیکھنے میں ایک جیسی چیزوں میں باریک فرق سے قاری کو آگاہ کرتے ہیں۔ایسی بہت سی باتوں کو مصنف نے آسان الفاظ میں سمجھایا، ایسی ہی دو چیزیں خیال اور سوچ کے بارے میں ہمیں لگتا ہے کہ یہ ایک ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔مصنف اس باریکی کو اس طرح سمجھاتے ہیں :
’’خیال اور شے ہے سوچ اور ہے۔ خیال برق کی طرح ہے، چھوٹا ہے، لپک کر آتا ہے۔ یہ محرک کا جواب ہے اسے خیال Thought کہتے ہیں۔ خیال کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا ‏Thought is not self employed at all یہاں تک کہ آپ اسے قبول نہ کرلیں ۔ آپ کے قبول کرتے ہی Attend کرتے ہی خیال سوچ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسے سوچنا Thinking کہتے ہیں۔‘‘
(صفحہ : 35)
مصنف بہت بڑی باتیں نہایت ہی آسانی سے سمجھاتے ہیں۔یادداشت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہمارا دماغ ایک ریکارڈنگ ڈیوائس کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اسے Recording‏ ‏Process of Mind بھی کہہ سکتے ہیں ۔طبی اصطلاح میں اسے cognitive‏ ‏Process کہا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ بہت ہی پیچیدہ عمل ہے ،مگر موضوع کے اعتبار سے مطلب کی بات یہ ہے کہ ہمارا ذہن حواس خمسہ سے ملنی والی ایک ایک خبر کو، ہر ایک احساس ہر جذبے کو ریکارڈ کر رہا ہے، محفوظ کر رہا ہے اور ان احساسات و جذبات کو معلومات Data‏ میں تبدیل کر رہا ہے۔‘‘ (صفحہ : 46)
انسان کی جبلیاتی نفس پر مصنف نے خوبصورت بحث کی ہے۔ہر بات کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ،تاکہ انسان جبلیات نفس سے باہر آجائے،تکلیف کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’تکلیف Pain ایک حفاظتی نظام ہے ،جو نفس میں نصب Installed ہے۔ تکلیف ایک ‏Preservative ہے۔ جیسے دوائی کی پیکنگ میں ایک پڑیا ہوتی ہے جو دوائی کو خراب ہونے سے بچاتی ہے اسے Preservative کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ تکلیف ہے جو انسان کے جسم اور نفس کو اس دنیا میں محفوظ کیے ہوئے ہے۔ تکلیف سے زندگی اس سیارے پر برقرار ہے، اور خاص طور پر انسان کی زمین پر تمام جانداروں پر بلا شرکت غیرے حکمرانی میں اس کے شعور میں تکلیف کے علم کا بہت بڑا کردار ہے۔ تکلیف کا یہ علم دوسرے تمام جانداروں میں موجود تو ضرور ہے لیکن محدود ہے ، عارضی ہے اور زیادہ تر صرف فوری ردعمل اور احساس کی صورت ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اگر تکلیف کا وجود جانداروں میں نہ رکھا جاتا تو کوئی ذی روح اس سیارے پر جینے کے فن سے آشا نہ ہو پاتا۔‘‘ (صفحہ : 60)

تکلیف ہونے کے اپنے فوائد ہیں،مصنف سمجھاتے ہیں:

’’ اگر انسان کو حادثے کے نتیجے میں تکلیف کے آپہنچنے کا ڈر نہ ہوتا، تو راستے بنا ناممکن تھے، اور نہ ہی کوئی سفر تھا نہ کوئی ہسپتال نہ کوئی ڈاکٹر اور نہ کوئی مریض ۔ بڑی سے بڑی بیماری کا آپریشن محض ایک چاقو سے کیا جا سکتا تھا۔ لوگ فیشن کے طور پر اپنی آنتیں پیٹ سے نکال کر گلے میں مفلر کی طرح لٹکائے بازاروں میں گھوما کرتے ۔‘‘ ( صفحہ : 61)
خوف fear کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’خوف کی اصل لا علمی ہے۔ خوف ہمیشہ نامعلوم Unknown کا ہے ۔ خوف ایک جذبہ ہے ایک سنسنا تا ہوا پر اسرار احساس جو ذہن انسان میں عدم تحفظ Insecurity کے جذبے کو بھڑکاتا ہے۔ خوف ،نفس کے تحفظ کو للکار ہے Challenge ہے۔ نفس اس سے خائف ہے ، مفرور ہے۔ خوف بذاتِ خود کوئی شے نہیں بلکہ یہ ہمیشہ کسی شے کا ہوتا ہے ۔ کل جو غلط ہو چکا کہیں آج یا کل دوبارہ نہ ہو جائے، یہ خوف ہے۔ گزرے ہوئے کل میں ہمیں جو تکلیف ہوئی تھی اس تکلیف کی یادداشت Memory ہمارے دماغ میں محفوظ ہے، اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ کل دوبارہ ہم پر آئے۔‘‘ (صفحہ : 96)
اس باب میں مصنف نے خواہش ناتمام، خوف، بے چینی، شک اور عقیدہ، تجسس اور عادت، ذہن اور نفس وغیرہ پر خوبصورت بحث کی ہے۔کتاب کے تیسرے باب میں توبہ اور ہدایت کے تحت مصنف نے اور باتوں کے علاوہ مراقبہ، مشاہدۂ حق، ارتکاز اور دھیان پر طویل بحث کی ہے، مصنف کا ماننا ہے کہ اللہ اداکاری سے نہیں،بلکہ اخلاص سے مائل بہ کرم ہوتا ہے۔(صفحہ: 157)

مراقبہ اور ارتکاز کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’مراقبہ ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے جو ان انسانوں کو شکار کرنے کےلیےبنایا گیا ہے ،جو خدا کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے چونکہ ابلیس کو سخت تشویش رہتی تھی ،اس لیے ان لوگوں کےلیے مراقبہ ایجاد کر کے اب وہ ان کی طرف سے بے خوف و خطر ہو کر اپنے دوسرے شیطانی مقاصد میں مصروف ہے۔ ارتکاز ایک ایسا پھندا ، ایک ایسا جال ہے جسے شیطان نے تلاش خدا کے رستے میں بچھا رکھا ہے۔ جو اس پر پاؤں رکھ بیٹھا وہ خدا تک بھی نہ پہنچ پائے گا، اور آخر کار خود کو شیطان لعین کا ساتھی پائے گا۔ خوب واضح ہو کہ مراقبہ خدا کی جانب سے نہیں ہے ،ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘(صفحہ: 224)
مراقبہ پر اس کتاب میں جو بحث کی گئی ہے، اس سے پہلے راقم کے نظروں کے سامنے ایسی کوئی بحث نہیں گزری ہے۔کتاب کے چوتھے باب میں اللہ رب العزت تک شعوری رسائی میں اللہ کی یاد، ذکر، اللہ کی پہچان، شیاطین سے پناہ، دعا، محبت رسول، معرفت نفس پر انتہائی اہم مباحث ہیں۔قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’قرآن کو صرف تلاوت کرنے کےلیے طاقوں پر سجا کر رکھنا قرآن کی اصل بے ادبی ہے۔ یہ اللہ کی ناقدری ہے۔ اگر اللہ کو صرف تلاوت کروانا ہوتی تو فرشتے بہت تھے۔ انسان کو قرآن عطا فرمانے کا اصل مقصد اسے علم کا انتہائی اعلیٰ ذریعہ دینا تھا ،تا کہ وہ اس پر غور وفکر کر کے اپنی نجات کےلیے کام شروع کر سکے۔ قرآن سمجھنے کے بعد جو لطف تلاوت قرآن میں ہے وہ دنیا کی اور کسی میں نہیں۔ قرآن تو اللہ کی بندے سے براہ راست بات چیت communication‏ ہے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ ترین سائنس کی وہ شاندار اور عظیم الشان کتاب ہے جو اللہ نے براہ راست آسمانوں سے انسان کےلیےنازل کی ہے ۔یہ کہکشاؤں ‏galaxies کے اس پار سے آئی کتاب ہے۔ قرآن اس کا ئنات کا مینوئل ہے۔ ‏machine language ہے۔ اچانک سمجھ نہیں آجا تا ۔ پہلے بھی لکھا ہے کہ اللہ کی کائنات میں کوئی کام اچانک نہیں ہے۔ ہر شے دلیل سے ہے۔ جو اچانک دکھائی دیتا ہے اس کے پیچھے بھی ایک پورا میکنزم کارفرما ہوتا ہے۔ جو قرآن کو اخلاص سے پڑھے گا ، سیکھے گا ، وہی اسے سمجھے گا اور جو قرآن کو سمجھ لے گا وہ سب کچھ سمجھ لےگا۔‘‘ (صفحہ : 336)
کتاب کے پانچویں باب میں قرآن کریم سے چند منتخب آیات بیان کرکے سوچ کے نیے زاویوں کو وا کیا گیا ہے، کتاب کے چھٹے باب میں مصنف نے چند اہم quotes بیان کیے ہیں جو عقل کے دریچے کھولتے ہیں۔یہاں چند quotes بطور تبرک پیش خدمت ہیں:
’’ہر گناہ کا withdrawal ہے cravings بھی ہیں۔‘‘ (صفحہ: 440)
’’عزت نفس سے بڑا فریب اور کوئی نہیں ۔‘‘(صفحہ : 443)
’’سوچ کی جڑ root میں ہے me ہے ،یہی میں ہر سوچ کی ماں ہے اسے پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے۔‘‘ (صفحہ : 449)
کتاب میں نفسیاتی علاج پر ضرورت سے زیادہ تنقید کی گئی اور مراقبہ پر بھی ضرورت سے زیادہ تنقید ہے۔چند کمیوں کے باوجود کتاب اس قدر اہم ہے کہ ہر باذوق فرد کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. علی محمد آھنگر

    Interestng & instructive .needs wide publicity & publicayion so that it reaches to the hands of modern youth who is lacking interst in following the d deen- i- islam in letter &
    . spirit

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳