مارچ ۲۰۲۳

سوال :
ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ سب کی شادی ہوچکی ہے۔ والدہ کا ایک برس پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ ددھیالی رشتے دار والد صاحب کی خدمت کی غرض سے ان کی دوسری شادی کروا دینا چاہتے ہیں۔ بھائی کا خیال ہے کہ والد کی پنشن تو دوسری بیوی کے نام ہوگی ہی، اس لیے وہ اپنی زندگی میں ہی ہم بہن بھائیوں میں وراثت تقسیم کردیں۔
کیا زندگی میں وراثت برابر تقسیم ہوگی یا بھائی کے مقابلے میں بہن کو نصف ملے گا؟ گزارش ہے کہ رہ نمائی فرمائیں۔

جواب:
دوسرے نکاح کو ہندوستانی سماج میں اور مسلمانوں کے درمیان بھی ناپسندکیا جاتا ہے۔ آدمی ادھیڑ عمر کا ہوگیا ہو اور بچے بڑے ہوگئے ہوں، تو وہ کبھی علانیہ مخالفت کرتے ہیں، کبھی دبے الفاظ میں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو اس عمل کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں ،اور والد سے ان کے تعلقات پہلے کی طرح خوش گواریا نارمل نہیں رہتے۔ حالاں کہ اسلامی تعلیمات کی روٗ سے مرد اور عورت دونوں کے لیے ہر عمر میں جوڑے والا ہونا مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُم(سورۃالنور: 32)

(اور تم میں سے جو لوگ مجرّد (بے نکاح کے) ہوں ان کے نکاح کرادو۔)
آیت میں ’’ایامیٰ‘‘ کا لفظ آیا ہے، جس کا واحد’ ’ایّم‘‘ ہے۔اس سے مراد ہر وہ مرد ہے جس کی بیوی نہ ہو، چاہے ابھی اس کا نکاح نہ ہوا ہو، یا نکاح کے بعد علیٰحدگی ہوگئی ہے، یا بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ اسی طرح اس کا اطلاق ہر اس عورت پر بھی ہوتا ہے جس کا شوہر نہ ہو، چاہے ابھی اس کا نکاح نہ ہوا ہو، یا اسے طلاق دے دی گئی ہو یا وہ بیوہ ہوگئی ہو۔
کسی شخص کے مرنے کے بعد حکومت کی طرف سے جو پنشن ملتی ہے اس کا شمار وراثت میں نہیں ہوتا۔ اس کی حیثیت حکومت کی طرف سے امداد و تعاون کی ہوتی ہے ،اور بیوی یا جس کے نام وہ جاری ہوئی ہو، وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔
وراثت کی تقسیم کسی شخص کے مرنے کے بعد ہوتی ہے۔ اس کی موت کے وقت جو قریبی رشتہ دار زندہ ہوتے ہیں، وہ شریعت کی بتائی ہوئی تفصیلات کے مطابق اپنا حصہ پاتے ہیں۔ وراثت کسی شخص کی زندگی میں تقسیم نہیں ہوتی۔وہ اپنی زندگی میں اپنا مال و جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو اسے ہبہ (Gift)کہا جاتا ہے۔
تقسیم وراثت کے معاملے میں حکم دیا گیا ہے کہ لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں نصف دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْن (سورۃ النساء: 11)

 (تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔)
لیکن ہبہ کرتے وقت تعلیم یہ ہے کہ ان کے درمیان برابر تقسیم کی جائے۔ جتنا لڑکے کو دیا جائے اتنا ہی لڑکی کو بھی دیا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

اتّقواللہ وأعدلوا فی أولادکم(صحیح بخاری: 2587، مسلم : 1623)

(اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو۔)
امام بخاریؒ نے اس ضمن میں لکھا ہے: ’’کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز دے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ چیز دوسروں کو نہ دے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انصاف سے کام لے اور جو چیز ایک کو دی ہے وہ دوسروں کو بھی دے۔‘‘ (باب الہبۃ للولد)
قرآن مجید میں رشتوں کی پاس داری کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَائَ لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبا(سورۃالنساء : 1 )

(اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔)
ماں کا انتقال ہوگیا ہو اور اولاد بڑی ہو تو باپ ان کی طرف سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر اولاد کی نظر اس کے مال پر ہو اور وہ کسی طرح اسے حاصل کرلینے کی تدبیریں سوچیں تو اس رویّے کو پسندیدہ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
کسی شخص کی بیوی اور ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہوں تو بیوی کا حصہ صرف آٹھواں (12.5%)ہے،باقی اولاد کے درمیان ہی تقسیم ہوگا۔ اس لیے اولاد کو باپ پر زندگی ہی میں انھیں ہبہ کرنے کے لیے دباؤ بنانے کے بجائے تھوڑا صبر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. hamza

    دادی جان کا پلاٹ ہبہ کرنا ۔
    میرے گھر کی زمین دادی جان کے نام پر تھی
    میرے والد صاحب پانچ بھائی اور ایک بہن تھی دادی جان نے پلاٹ اپنے ذاتی پیسوں سے لیا تھا ۔یہ پلاٹ دادی جان کی اپنی ملکیت تھی یہ انہیں وراثت میں نہیں ملا تھا۔وراثت میں والد صاحب اور والد صاحب کہ بھائیوں کو دادا کی طرف سے کی طرف سے وراثت میں اپنا اپنا حصہ مل چکا تھا۔البتہ اس ٹائم گھر کی کچھ تعمیر کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے ہم نے بینک سے لون لیا تھا۔جس سے گھر کی کچھ دیواریں کھڑی ہوئی تھی۔وہ لون دادی جان نے اپنے نام پر لیا تھا۔ کیونکہ دادی جان بیوہ تھی بیوہ کو بینک لون بلا سود مل رہا تھا ۔اور وہ لون کی رقم بھی ہم نے ہی دادی جان کی وفات کے بعد 2014 میں ادا کی ہے. جو ہم نے بینک سے لون لیا تھا۔تو رجسٹری اسی ٹائم بینک میں چلی گئی تھی۔اگر وہ ہمارے پاس ہوتی تو دادی جان بابا جان کے نام پر کروا دیتی۔ہم نے بینک کا لون ادا کیا۔تو رجسٹری 2014 جب ہمارے پاس ائی تو وہ دادی جان کے نام پر تھی۔
    اس کے علاوہ پلاٹ پر مکان کی تعمیر و ترق اور جو بھی مکان بنا ہے ۔وہ تمام اخراجات والد صاحب نے ہی کیے ہیں۔دادی جان میرے والد صاحب کے ساتھ اسی گھر میں رہائش پذیر تھی۔شروع سے ہی اس گھر میں ہم ہی رہائش پذیر ہیں اور قبضہ بھی ہمارا ہی ہے۔کیونکہ مکان کی تعمیر و ترقی ہم نے کی ہے۔ہمیں 20 سال سے زیادہ کا ٹائم ہو چکا ہے ہم ابھی بھی اسی گھر میں رہ رہے ہیں۔
    دادی جان نے اپنی حیات زندگی میں سب کے سامنے یہ کہہ دیا تھا۔اور پورے خاندان والے
    اس بات کے گواہ ہیں۔یہ پلاٹ مکان میرے چھوٹے بیٹے کا ہے۔یہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کو دیتی ہوں۔ یہ میری زندگی میں بھی میرے بیٹے کا ہے اور میری وفات کے بعد بھی میرےبیٹے کا ہے۔کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ چیز دی تھی تو یہ وراثت تو نہیں ہوگی بلکہ ہبہ ہی کہلائے گا ۔ یہ دوسرے تمام بھائیوں سے غریب بھی ہے اور میرا خدمت گار بھی ہے۔1998 میں دادی جان کی وفات ہوئی. ان کی وفات کے بعد والد صاحب کے بھائیوں میں سے کسی نے بھی حصے کا مطالبہ نہیں کیا۔اور اج تک بھی کسی نے بھی اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کیا
    اب 2014 میں وہ لون ایک لاکھ روپے جو دادی جان نے لیا تھا وہ ہم نے ادا کر کے رجسٹری بینک سے نکال کر بذریعہ انتقال اپنے نام پر کروا لیا ہے۔اور قبضہ طعام بھی ہمارا ہی ہے۔صرف پلاٹ ہی دادی جان کے نام پر تھا۔اور اس پر جو بھی مکان بنا وہ ہم نے ہی بنایا۔۔تعمیر کے لیے کچھ تھوڑا سا لون جو لیا تھا ۔وہ بھی ہم نے ہی ادا کیا.
    شریعت اسلام کے مطابق کیا یہ ہبہ مکمل ہو چکا ہے۔اس کی کیا دلائل ہیں۔حدیث میں عمری اور رقبی کا بھی ذکر ایا ہے۔سیدنا ابوبکر کا غبا کے مقام پر جو باغ تھا۔سیدہ عائشہ سے اخری وقت میں کچھ وصیت کی تھی۔قران میں وارث کے حصے مقرر کر دیے گئے ہیں۔کسی وارث کے لیے کوئی وصیت جائز نہیں۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳